پیغمبروں کے بھیجنے کے فائدوں اور واجب الوجود تعالیٰ کی معرفت میں عقل کا استقلال نہ ہونے اور حکم خاص کے بیان میں جو شاہق جبل(پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والا) اور پیغمبروں کے زمانہ فترت(انقطاع) کے مشرکوں اور دارحرب کے مشرکوں کے اطفال کے حق میں فرمایا ہے اور گزشتہ امتوں میں زمین ہند میں اہل ہند سے انبیاء کے مبعوث ہونے کی تحقیق اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف جو علوم نقلیہ وعقلیہ کے جامع اورنسبت علیہ کے صاحب ہیں۔ لکھا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔
انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے ارسال کرنے کی نعمت کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور کس دل سے اس منعم کا اعتقاد کیا جائے اور وہ اعضاء کہاں ہیں جو اعمال حسنہ کے ساتھ اس نعمت عظمی کا بدلہ ادا کرسکیں۔ اگر ان بزرگواروں کا وجودشریف نہ ہوتا تو ہم بےسمجھوں کو صانع کے وجود اور اس کی وحدت کی طرف کون ہدایت کرتا۔
یونان کے قدیم فلسفیوں نے باوجود اعلی دانا ہونے کے صانع کے وجود کی طرف ہدایت نہ پائی اور کائنات کے وجود کو دھر یعنی زمانہ کی طرف منسوب کیا لیکن جب انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی دعوت کے انوار کا دن چڑھا تو متاخرین(بعد) فلسفیوں نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کے انوار کی برکت سے اپنے متقدمین کے مذہب کو رد کیا اور صانع جل شانہ کے وجود کے قائل ہوئے اور حق تعالیٰ کی وحدت کو ثابت کیا۔ پس ہماری عقلیں انوار نبوت کی تائید کے بغیر اس کام سے معزول ہیں اور ہمارے فہم و جود انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے وسیلہ کے سوا اس معاملہ سے دور ہیں۔ پھر نہیں معلوم ہمارے اصحاب ماتریدیہ نے بعض امورمثل وجود صانع کے اثبات اور اس کی وحدت میں عقل کے استقلال سے کیا مراد رکھی ہے کہ انہوں نے شاہق جبل یعنی پہاڑ کی بلندی پر رہنے والے بت پرست کو ان دونوں یعنی وجود صانع کے اثبات اور اس کی وحدت کے لئے مکلف کیا ہے اگر چہ اس کو پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی اور ان دونوں میں نظرو غور کے ترک کرنے پر اس کے لئے کفر اورخلود في النار کا حکم دیا ہے لیکن ہم بلاغ مبین اور حجت بالغہ کے بغیر جو پیغمبروں کے ارسال کرنے پر وابستہ ہے۔ کفر اور خلود في النار کا حکم دینا مناسب نہیں سمجھتے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عقل الله کی حجتوں میں سے ایک حجت ہے لیکن حجیت میں ای حجت بالغہ نہیں ہے جس پر ایساسخت عذاب مترتب ہو سکے۔
سوال: اگر شاہق جبل جو بت پرست ہے دوزخ میں ہمیشہ کے لئے نہ رہے تو پھر وہ بہشت میں جائے گا اور یہ بھی جائز نہیں کیونکہ جنت میں داخل ہونا مشرکوں پر حرام ہے۔ ان کی جگہ دوزخ ہے اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کی نسبت حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس پر جنت حرام ہے اور اس کی جگہ دوزخ ہے اور جنت دوزخ کے درمیان کوئی اور واسطہ نہیں اور اصحاب اعراف بھی چند روز کے بعد بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔ پس یا جنت میں داخل ہوگا یا دوزخ میں۔
یہ سوال واقعی بہت مشکل ہے۔ اس فرزند ارشد کو معلوم ہے کہ مدت تک اس فقیر پر اس سوال کا تکرار کرتا رہا لیکن جواب شافی کچھ نہ پایا اور جو کچھ فتوحات مکیہ والے نے اس سوال کےحل میں کہا ہے اور قیامت کے دن ان لوگوں کی دعوت کے لئے پیغمبر کا مبعوث ہونا ثابت کیا ہے اور اس دعوت کے ردو انکار کے بموجب ان کے لئے بہشت و دوزخ کا حکم کیا ہے۔ اس فقیر کے نزدیک پسند وبہتر نہیں ہے کیونکہ دار آخرت دار جزا ہے نہ دار تکلیف تاکسی پیغمبر کےبھیجنے کی ضرورت ہو۔ بہت مدت کے بعد خداوند تعالیٰ کی عنایت نے رہنمائی کی اور اس معما کوحل کر دیا اور منکشف فرمایا کہ یہ لوگ نہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے نہ دوزخ میں بلکہ آخرت کے بعث و احیاء کے بعد ان کو مقام حساب میں کھڑا رکھ کر گناہوں کے اندازہ کے موافق ان کو عتاب و عذاب دیں گے اور حقوق پورے کر کے غیر مکلف حیوانوں کی طرح ان کو بھی معدوم مطلق اور لاشے محض کر دیں گے پس خلودکس کے لئے اورمخلد کون ہوگا اس معرفت غریبہ کو جب انبیاء علیہمالصلوة والسلام کے حضور میں پیش کیا گیا تو سب نے اس کی تصدیق کی اور اس کو مقبول فرمایا وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللهِ سُبْحَانَہ
فقیر پر یہ بات نہایت ناگوار گزرتی ہے کہ حق تعالیٰ باوجود اپنی کمال رافت و رحمت کے بغیر اس بات کے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے ابلاغ مبین فرمائے ۔ صرف عقل کے اعتبار پر جس میں غلطی اور خطا کی بہت مجال ہے اپنے بندے کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈالے اور ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار کرے جس طرح کہ باوجود شرک کے اس کے لئے جنت میں ہمیشہ رہنے کا حکم کرنا نا گوار معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جنت و دوزخ کے درمیان واسطہ کے قائل نہ ہونے کے باعث اشعری کے مذہب سے لازم آتا ہے۔ پس حق وہی ہے جو مجھے الہام ہوا کہ قیامت کے دن محاسبہ کے بعد وہ معدوم کیا جائے گا اور فقیر کے نزدیک دارحرب کے مشرکین کے اطفال کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونا ایمان پر وابستہ ہے۔ خواہ ایمان وصالت کے طور پر ہو یا تبعیت (اتباع کے طور پر)کے طور پر گر تبعیت دار السلام میں ہوتی ہے جیسا کہ اہل ذمہ کے لڑکوں کے لئے لیکن ان کے حق میں ایمان مطلق طور پر مفقود ہے۔ پس بہشت میں ان کا داخل ہونا متصور نہیں ہوتا اور دوزخ میں داخل ہونا اور اس میں ہمیشہ رہنا تکلیف کے ثابت ہونے کے بعد مشرک پر منحصر ہے اور یہ بھی ان کے حق میں مفقود ہے پس ان کا حکم حیوانوں کا سا حکم ہے کہ بعث ونشور کے بعد حساب کے لئے کھڑا کریں گے اور ان سے حقوق پورا کر کے ان کو معدوم نیست و نابود کر دیں گے اور ان مشرکوں کے حق میں بھی جو پیغمبروں کی فترت کے زمانہ ( دو پیغمبروں کا درمیانی زمانہ) میں ہوئے ہیں اور جن کوکسی پیغمبر کی دعوت نصیب نہیں ہوئی ۔ یہی حکم ہے۔
اے فرزند! فقیر جس قدر ملاحظہ کرتا ہے اورنظر کو وسیع کرتا ہے کوئی ایسی جگہ نہیں پاتا جہاں ہمارے پیغمبر ﷺکی دعوت نہ کی ہو بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ آفتاب کی طرح سب جگہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کا سب جگہ نور پہنچا ہے حتی کہ یاجوج ماجوج میں بھی جن کو دیوار حائل ہے، پہنچا ہوا ہے اور گزشتہ امتوں میں ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جگہ بہت کم ہے جہاں پیغمبرمبعوث نہ ہوا ہو۔ حتی کہ زمین ہند میں بھی جو اس معاملہ سے دوردکھائی دیتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اہل ہند سے پیغمبرمبعوث ہوئے ہیں اور صانع جل شانہ کی طرف دعوت فرمائی ہے اور ہندوستان کے بعض شہروں میں محسوس ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے انوار شرک کے اندھیروں میں مشعلوں کی طرح روشن ہیں، اگر ان شہروں کو معین کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کوئی ایسا پیغمبر ہے جس کی کسی نے تابعداری نہیں کی اور کسی نے اس کی دعوت کوقبول نہیں کیا اور کوئی ایسا پیغمبر ہے کہ صرف ایک ہی آدمی اس پر ایمان لایا ہے اور کسی پیغمبر کے تابع صرف دو شخص ہوتے ہیں اور بعض کے ساتھ تین آدمی ایمان لائے ہیں۔ تین آدمیوں میں سے زیادہ نظرنہیں آتے، جو ہند میں کسی پیغمبر پر ایمان لائے ہوں تا کہ چار آدمی ایک پیغمبر کی امت ہوں اور جو کچھ ہند کے رئیس کفار نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے تنزیہ و تقدیس کی نسبت لکھا ہے، سب انوارنبوت سے مقتبس ہے کیونکہ گزشتہ امتوں میں سے ہر ایک کے زمانہ میں ایک نہ ایک پیغمبر ضرور گزرا ہے جس نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس کے ثبوت اور اس کے تنزیہ و تقدیس کی نسبت خبر کی ہے اگر ان بزرگواروں کا وجود شریف نہ ہوتا ان بدبختوں کی لنگڑی اور اندھی عقل جو کفرو معاصی کے ظلمات سے آلودہ ہے، اس دولت کی طرف کس طرح ہدایت پاتی۔ ان بدبختوں کی ناقص عقلیں اپنی حدذات میں اپنی الوہیت کا حکم دیتی ہے اور اپنے سوا کوئی اور خدا ثابت نہیں کرتی جس طرح کہ فرعون مصر نے کہا کہ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا اور یہ بھی کہا کہ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ اگر تو میرے سوا کوئی اور خدا بنائے گا تو میں تھے قید کر دوں گا اور جب انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے آگاہ کرنے سے انہوں نے معلوم کیا کہ عالم کے لئے ایک صانع واجب الوجود ہے تو ان کم بختوں میں سے بعض نے اپنے دعوی کی برائی پر اطلاع پا کرتقلید وتستر کے طور پر صانع کو ثابت کیا اور اس کو اپنے آپ میں حلول کیا ہوا اور سرایت کیا ہوا سمجھا ہے اور اس حیلہ سے لوگوں کو اپنی پرستش کی طرف بلایا ہے تَعَالَى اللہُ عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا اللہ تعالیٰ اس بات سے جو ظالم کہتے ہیں بہت بڑا ہے۔
اس جگہ کوئی بیوقوف یہ سوال نہ کرے کہ اگر زمین ہند میں پیغمبر مبعوث ہوتے تو ان کے مبعوث ہونے کی خبر ضرور ہم تک ہوتی بلکہ وہ خبر بکثرت دونوں کی جہت سے تواتر کے طور پر منقول ہوتی جب ایسا نہیں ہے تو ویسا بھی نہیں ہے۔
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ان مبعوث پیغمبروں کی دعوت عام نہ تھی بلکہ کسی کی دعوت ایک قوم سے اور بعض کی ایک گاؤں سے یا شہر سےمخصوص تھی اور ہوسکتا ہے کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے کسی قوم یا گاؤں میں کسی شخص کو اس دولت سے مشرف فرمایا ہو اور اس شخص نے اس قوم یا اس گاؤں کے لوگوں کو صانع جل شانہ کی معرفت کی طرف دعوت کی ہو اورحق تعالیٰ کے سوا اوروں کی عبادت سے منع کیا ہو اور اس قوم یا گاؤں والوں نے اس کا انکار کیا ہو اور اس کو ذلیل و جاہل سمجھا ہو اور جب انکار وتکذیب حد سے بڑھ گیا ہوتو حق تعالیٰ کی مدد نے آ کر ان کو ہلاک کردیا ہو۔
اسی طرح کچھ مدت کے بعد ایک اورپیمبر کسی قوم یا گاؤں کی طرف مبعوث ہوا ہو اور اس پیغمبر نے بھی ان لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہو جو پہلے پیغمبر نے کیا تھا اور اس پیغمبر کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہو جو ان کے پہلوں نے کیا تھا۔ علی ہذا القیاس اسی طرح ہوتا رہا۔
زمین ہند میں گاؤں اور شہریوں کی ہلاکت کے آثار بہت پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ ہلاک ہو گئے لیکن وہ دعوت کا کلمہ ان کے ہمسروں کے درمیان باقی رہا۔ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ اوراس کلمہ کو اس واسطے پیچھے باقی رکھا کہ شاید وہ رجوع کرآئیں۔
ان مبعوث پیغمبروں کی دعوت کی خبر ہم تک تب پہنچی جبکہ بہت سے لوگ ان کے تابع ہوتے اور بڑی بھاری قوم بہم پہنچاتے جب ایک آدمی آیا اور چند روز دعوت کر کے چلا گیا اور کسی نے اس کو قبول نہ کیا پھر دوسرا آیا اور اس نے بھی یہی کام کیا اور ایک آدمی اس کے ساتھ ایمان لایا اور تیسرے کے ساتھ دو یا تین آدمی ایمان لائے تو پھر خبر کس طرح پھیلتی اور عام ہوتی اور کفار سب کے سب انکار کے درپے تھے اور اپنے باپ دادا کے دین کے مخالفوں کورد کرتے تھے تو کچھ نقل کون کرتا اور کس کی طرف نقل کرتا۔
دوسرا یہ کہ نبوت و رسالت و پیغمبر کے الفاظ ان پیغمبروں اور ہمارے پیغمبر علیہ وعلیہم الصلوة والسلام کی دعوت کے متحد ہونے کے باعث عربی اور فارسی لغت کے تھے اور یہ الفاظ ہندی لغت میں نہ تھے تا کہ ہند کے مبعوثہ انبیاء کو نبی یا رسول یا پیغمبر کہتے اور ان ناموں سے ان کو یاد کرتے۔
اور نیز اس سوال کے جواب میں ہم معارضہ(بطریق الزام) کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر ہند میں انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں اور ان کی زبان میں ان کو دعوت بھی نہ کی ہو تو پھر ان کا علم بھی شاہق جبل کاحکم ہوگا کہ باوجود سرکشی اور دعوی الوہیت کے دوزخ میں نہ جائیں اور ہمیشہ کے عذاب میں نہ رہیں۔ اس بات کو بھی نہ تو عقل سلیم پسند کرتی ہے اور نہ ہی کشف صحیح اس کی شہادت دیتا ہے کیونکہ ہم ان میں سے بعض سرکش مردودوں کو دوزخ کے وسط میں رکھتے ہیں۔
وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ) والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ205 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی