چوالیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الرابع والاربعون الدنیا سجن المؤمن‘‘ ہے۔

   منعقدہ23 رجب 545  بروز شام منگل بمقام مدرسہ قادر یہ

 مومنین کاملین کے ذکراذکار

مؤمن دنیا میں غریب ہے اور زاہد آخرت میں غریب ، عارف زاہد (طالب مولی ) ماسوا اللہ میں غریب ، دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے چاہے کیسی ہی رزق میں فراخی اور مکان میں وسعت ہو، اہل وعیال کی کثرت ہو،  اس کے اہل وعیال اس کے مال اور مرتبہ میں ہر طرح کے مزے اڑاتے پھرتے ،خوشیاں مناتے ہیں اور اس کے اردگر دہنستے کھیلتے ہیں ،  لیکن وہ باطنی طور پر قید خانے میں ہے۔ اس کے چہرے پر خوشی اور دل میں غم رہتا ہے، ، اس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان کر اپنے دل سے طلاق دے دی ۔

 پہلے اس نے دنیا کو ایک طلاق رجعی دی، کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں اغیار ارادے کو نہ بدل دیں ۔ ابھی وہ اس حال میں تھا کہ آخرت نے اس پر اپنا دروازہ کھول دیا، اس کے چہرے کی چمک دمک اور حسن کی بجلی اس پر ظاہر ہوئی۔اس وقت اس نے دنیا کو دوسری طلاق دے دی ، اس کے بعد آخرت اس کے گلے سے جھول گئی ، چنانچہ اس نے دنیا کو تیسری طلاق دے دی۔ اور آخرت کےساتھ رہنے سہنے لگا۔

 ابھی وہ اس کیفیت میں تھا کہ اس پر قرب الہی کا نور چمکا، اس نے آخرت کو بھی طلاق دے دی۔ اور قرب الہی کے مزے لوٹنے لگا۔

دنیا نے سوال کیا: ’’ تم نے مجھے کیوں طلاق دی‘‘ – جواب دیا: ’’ مجھے تجھ سے اچھی مل گئی۔ پھر آخرت نے پوچھا: تو نے مجھے کیوں چھوڑا‘‘ کہا:’’ تو خدا کی بنائی ہوئی ہے صورت والی ہے، تیرا وجود ہے تو اسی سے مگر تو غیر خدا حادث ہے،لہذا تجھے کیسے نہ چھوڑتا‘‘ ۔

اب اس کے لئے اللہ کی معرفت ثابت ہوگئی ، وہ ماسوا اللہ سے آزاد ہو گیا، اور دنیا وآخرت میں غریب ہو گیا، اور ہر ایک سے ظاہر ہو کر ہر چیز سے محو وفنا ہو گیا، فنا کے اس عالم میں دنیا آ کر اس کے خدمت میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ بڑی توجہ سے اس کی خدمت کرتی ہے اور تعمیل ارشاد کے لئے حاضر رہتی ہے، جو زینت اپنے چاہنے والوں کو دکھاتی تھی ، اس سے خالی ہو کر آتی ہے، ایسا اس لئے کیا گیا تا کہ اس کی توجہ اس کی طرف نہ ہونے پائے ۔شہنشاہ بیگم جب کسی بندے سے پیار کرتی ہے تو اپنے تحفے نذرانے بوڑھی عورتوں اور سیاہ فام حبشی لونڈیوں کے ذریعے بھیجتی رہتی ہے تا کہ اس پر غیرت اور – حفاظت رہے ۔تو پوری طرح سے اپنے رب کی طرف تو بہ کر آنے والے کل کوگزرے کل کے ہاں اس کے پہلو میں چھوڑ دے، کیاخبر آ نے والاکل اس حال میں آئے کہ تو مر چکا ہو۔ اے مالدار! – تواللہ کو چھوڑ کر مال میں مشغول نہ ہو، کیا خبر کل تو فقیر ہو جائے ، تو کسی کے ساتھ نہ رہ بلکہ سب کے پیدا کرنے والے کے ساتھ رہ، وہ ایسا ہے کہ اس کی طرح کا کوئی نہیں ، اس کے غیر سے راحت چاہے گا ، راحت نہ ملے گی۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: ‌ لَا ‌رَاحَةَ لِلْمُؤْمِنِ دُونَ ‌لِقَاءِ رَبِّهِ و اللہ کی ملاقات کے سوامومن کے لئے راحت نہیں ہے ۔

جب وہ خلقت اور تیرے درمیان خرابی اور ویرانی ڈال دے، اور اپنے اور تیرے درمیان میں تعلقات قائم کر لے، تو سمجھ لے اس نے تجھے پسند کر لیا۔ تواس کی پسندیدگی کو برا مت سمجھ، جو بندہ اللہ کے ساتھ صبر کرتا ہے وہ الطاف الہی کے عجائبات کا نظارہ کرتا ہے ۔ اور جوفقر پر صبر کرے اسے امیری مل جاتی ہے۔ نبوت اکثر بکریاں چرانے والوں کو ملی ہے، اور ولایت غلاموں اور غریبوں کوملی ہے، ۔ بندہ جس قدر اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اللہ اس قدر اسے عزت دیتا ہے ۔ اور جس قدر  اس کے سامنے عاجزی کرتا ہے، اللہ اس قدرا سے بلندی دیتا ہے۔

 اللہ ہی عزت دینے والا اور ذلت دینے والا ہے۔  اللہ ہی پست کرنے والا اور بلند کرنے والا ہے۔ اللہ کی توفیق دینے والا اور ہر مشکل آسان کرنے والا ہے۔ اگر اللہ کافضل شامل حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز نہ اسے پہچان سکتے ۔

 ہر کوئی اپنے پیارے کی طرف جھکتا ہے:

اسے اپنے اعمال پر اترانے والو! تم کتنے جاہل ہو، اگر اس کی توفیق نہ ہوتی بیتم نماز پڑھ سکتے تھے اور نہ روزہ رکھ سکتے تھے اور نہ ہی صبر کر سکتے ، تمہیں تو شکر منانا چاہئے نہ کہ اترانا چاہئے ، اکثر بندے اپنی عبادتوں اور گملوں پر ( غرور کی وجہ سے ) خلقت سے اپنی تعریف و مدح سرائی چاہتے ہیں، اور دنیا اور دنیا والوں کی توجہ کے طالب ہیں ، ، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے نفسوں اور خواہشوں کے تابع ہیں- نیانسوں کو پیاری ہے اور آخرت دلوں کی پیاری ہے، جبکہ للہ تعالی باطنوں کا ہے، کلیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے پیارے کی طرف جھکتا ہے ۔ حکم کی مضبوطی کے بعد دلوں میں حکم ڈالا گیا ہے، کیونکہ یکم اس امر سے پہلے تھا۔ شرعی علوم پر گرفت مضبوط ہوئے بغیر باطنی علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ شری علوم پر گرفت مضبوط ہوئے بغیر باطنی علم کا دعوی کرنے والا جھوٹا ہے۔ کیونکہ شریعت مطہرہ جس حقیقت کی شہادت نہ دے، وہ بے دینی اور الحادہے، تو کتاب اللہ اور سنت رسول اکرم  ﷺ کے دونوں بازوؤں سے اللہ کی طرف پرواز کر ۔۔۔ اس کے حضور میں یوں حاضر ہو کہ تیرا ہاتھ رسول اکرم  ﷺ کے ہاتھ میں ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسل کو اپنا مددگار اور ہر استاد بنا لے، اور آپ  ﷺ کے دست مبارک کو اختیار دے کہ مجھے زینت دے کر آ راستہ کر کے اللہ کے سامنے پیش فرمائیں۔

رسول اکرم  ﷺ ہی ارواح کے حاکم ہیں اور مریدوں کے مربی دسر پرست ہیں محبوبوں کے سردار اور صائین کے بادشاہ ہیں ۔ اور خلقت کے درمیان احوال و مقامات کو تقسیم فرمانے والے ہیں ۔اس لئے اللہ تعالی نے انہیں سب کا امیر بنایا ہے، اور یہ سب امور آ نحضرت  ﷺ کے حوالے کر دیئے ہیں ، ۔ بادشاہ کے دربار سے جس لشکر کو ضلعت دیئے جاتے ہیں تو اس کی تقسیم امیرالشکر کے ہاتھ سے ہوتی ہے، توحید عبادت ہے اور شرک نفس کی عادت ! — تو عبادت کو اپنے اوپر لازم کر لے اور عادت کو ترک کر دے تو جب خلاف عادت کرے گا تو اللہ کی طرف سے بھی خلاف عادت برتاؤ ہوگا۔ ( یعنی خرق عادت یعنی کرامت کا ظہور ہوگا۔) تو اپنی حالت کو بدل دے تا کہ اللہ بھی تیرے لئے تبد یلی کر دے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ

” بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خودنہ بدل لیں ۔“ تو نفس اور خلقت کو اپنے دل سے نکال دے اور ان کے خالق سے لبریز کر لے تا کہ تجھے منصب تکوین پر فائز کرے ۔ یہ ایسی شے نہیں جو دن کے روزوں اور رات کے ذکر ونماز سے حاصل ہوتی ہو، اس کے لئے دلوں کی پا کی اور باطن کی صفائی کی ضرورت ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں:

صیام و قیام اس دستر خوان کا سرکہ اور ترکاری ہے ، اصل کھانا تو ان کے علاوہ ہے۔سچ فرمایا، یہ دونوں اول تو کھانا ہیں ، ان کے بعد دستر خوان پر رنگ برنگ کا کھانا آ تا ہے – صیام و قیام کے بعد کھانا کھانا ، پھر ہاتھوں کا دھونا ، پھر اللہ سے ملاقات کرنا ہے، اس کے بعد خلعت اور جاگیر عطا کرنا ، اور امارت و نیابت اور ملکوں اور قلعوں کا حوالے کرنا ہے، بندے کا دل جب اللہ کے لئے درست ہو جائے اور اس کے قرب میں ٹھہر جائے تو روئے زمین پر اسے سلطنت و بادشاہت عنایت کی جاتی ہے، خلقت کو خالق کی طرف دعوت کا کام سونپا جا تا ہے ۔ خلقت کی ایذارسانیوں پر صبر کرے۔ باطل کو پلٹ کر حق کو ظاہر کرے، اللہ ہی اسے عطافرماتا ہے، اور وہی غنی بنادیتا ہے ۔ کیونکہ جب وہ دیتا ہے تو یقینی طور پرغنی بنا دیتا ہے، اس کا پیٹ حکمتوں سے بھر دیتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں اور عارفوں کے دلوں کی زمین سے حکمت کی نہریں جاری فرمادیتا ہے جو اللہ کے علم کی وادی سے عرش عظیم اورلوح محفوظ سے جوش مارتی ہیں ، جواللہ کی پہچان نہیں رکھتے اور اس سے گریزاں ہیں ، ان مردہ دلوں کی طرف پہنچتی ہیں ۔

 دلوں کی مردنی یا زندگی ،کھانے کے حرام یا حلال ہونے پر ہے

اے بیٹا! حرام کی روزی تیرے دل کو مردہ کر دے گی اور حلال کی روزی سے زندگی ملے گی ، ایک لقمہ وہ ہے جو دنیا کے ساتھ مشغول کرتا ہے۔ ایک لقمہ وہ ہے جو آخرت کے ساتھ مشغول کرتا ہے، – ایک لقمہ وہ ہے جودنیا و آخرت سے بے رغبت کرتا ہے،ایک لقمہ خالق کے ساتھ مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کرتی ہے اور تیرے لئے گناہوں کو محبوب بنادیتی ہے،  مباح روزی آخرت کی طرف لگاتی ہے، اور طاعت وعبادت کو تیرے لئے محبوب بنا دیتا ہے، حلال روزی تیرے دل کو اللہ کے قریب کرتی ہے، ان روز یوں کا علم اللہ کی معرفت سے ہوتا ہے۔ – اللہ کی معرفت دل سے ہوتی ہے کتابوں سے نہیں ، وہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے خلقت کی طرف سے نہیں ۔اس کی معرفت اس کی فرماں برداری سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی ذات کو سچا جاننے اور سچا ماننے سے حاصل ہوتی ہے؟ اللہ کو یکتا سمجھنے اور اس پر بھروسہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے،ایک لقمہ ایسا ہے جو تیرے دل کو روشن کر دیتا ہے، ایک نوالہ ایسا ہے جو تیرے دل کو تاریک کر دیتا ہے، ساری خلقت سے الگ ہو جانے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ تو اللہ کو کیسے پہچان سکتا ہے، حالانکہ تجھے کھانے پینے، پہننے اور جماع کرنے کے سوا کسی اور کی پہچان نہیں ہے،اس میں حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتا، خواہ لذت میں یہ کیسے ہوں، کیا تو نے رسول اکرم  ﷺ کا مبارک ارشادنہیں سنا

من لم يبال من اين مطعمة ومشربه لم يبال الله من أي باب من أبواب النار أدخله جو اپنے کھانے پینے میں حلال وحرام کی پروا نہیں کرتا ،اللہ بھی اس کی کچھ پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے دوزخ کے وروازوں میں سے کس دروازے سے داخل کرے ۔“ کچھ توقف کرنے کے بعد حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:کسی چیز کی پرواہ نہ کر ، ہر چیز سے بے پرواہ ہو جا، نہ اللہ سے کوئی چیز رو کے نہ اس کی خلقت پابند کرے، سوائے اس کے کہ تو ان سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرے، دل جوئی سے ان پر صدقہ کرے، تیراعمل رسول اکرم  ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہو:

مداراة الناس صدقة لوگوں کی دل جوئی کرنا صدقہ ہے ۔‘‘

– اللہ کی عطا سے ان پر عطا کرے۔اپنے اکرام سے ان کی تعظیم کرے، نری اور مہربانی سے پیش آئے ۔ان کے لئے تیرا پہلو جھکار ہے، تیرے اخلاق کلی طور پر خالق کے اخلاق سے ہوں، تیرا ہرفعل اس کی مشیت کے مطابق ہوگا۔

مشائخ دوطرح کے ہیں:

 مشائخ دوطرح کے ہیں:

( (1) ایک مشائخ شریعت (2) ایک مشائخ طریقت ومعرفت

 شیخ شریعت (یعنی حکم  شیخ ) تجھے خلقت کے دروازے پر لے جائے گا،  

شیخ طریقت (یعنی علم کا شیخ ) تجھے قرب الہی کے دروازے پر لے جائے گا، گویا کہ دو دروازے ہیں جن میں لازمی طور پر داخل ہونا ہوگا:  

 ایک خلقت کا دروازہ ،ایک خالق کا دروازہ، ایک دنیا کا دروازہ ہے، ایک آخرت کا دروازہ ہے، ۔ ایک دوسرے کے تابع ہے۔ پہلے خلقت کا دروازہ ہے، پھرخالق کا دروازہ ہے،  جب تک پہلے دروازے سے نہ گزرے گا ،اگلا دروازہ نہ دیکھ سکے گا، اپنے دل کے ساتھ دنیا سے نکل آ تا کہ آخرت میں داخل ہو سکے، شیخ شریعت کی خدمت کرتا کہ وہ تجھے شیخ طریقت کی طرف لے جائے ۔خلقت سے ۔ الگ ہوتا کہ حق تعالی کی معرفت حاصل ہو سکے۔یہ کئی درجے ہیں، ایک کے بعد دوسرا درجہ ہے، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، باہم جمع نہیں ہو سکتے ۔ یہ سب چیزیں ضد یں اور مخالف ہیں، تو انہیں جمع کرنے کا شوق نہ کر ، تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا۔ تو اپنے دل کو جو اللہ کا گھر ہے، اللہ کے غیر سے خالی کر دے، اس میں ماسوا اللہ کو جگہ نہ دے، یہ جس گھر میں تصویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ تیرے دل میں بہت سی تصور میں اور بت ہیں، اللہ تعالی تیرے دل میں کیسے داخل ہو، ، اللہ کے سوا ہر چیز بہت ہے، ان بتوں کو تو ڑ دے اور اس گھر کو پاک وستھرا کر ، اور گھر والے کو گھر میں دیکھ، ایسے عجائبات نظر آئیں گے جو پہلے نظر نہ آئے تھے۔

 اللهم وفقنا لما يرضيك عنا واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النّار الہی! ہمیں اپنی رضا کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 300،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 164دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں