چوبیسواں مراقبہ نیت مراقبہ کمالات نبوت

نیت مراقبہ کمالات نبوت

 فیض می آید از ذات بیچون کہ منشاء کمالات نبوت است بہ عنصر خاک من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین

ذات باری تعالیٰ  کی طرف سے  جو کمالات نبوت کی منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میرے    عنصر خاک  میں فیض  آتا ہے۔

تشریح

یہ مراقبہ سیر اسم الباطن کا نقطہ عروج ہے۔ اور تجلی دائمی کا درجہ اول ہے۔ سالک اسماء و صفات سے گزر کر ذات میں سیر کرتا ہے۔ کمالات نبوت کا عنصر خاک پر اثر ہوتا ہے۔ یہاں حضوری بے جہت حاصل ہوتی ہے۔ بے قراری، بے تابی اور شوق سب رخصت ہو جاتے ہیں۔ یقین کامل راسخ ہوجاتا ہے۔ یہاں وصول ہے حصول نہیں ۔خوب یاد رہے کہ یہ مقام، مقام انبیاء ہے۔ انبیاء کی اتباع کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

مرتبہ کمالات نبوت وہ دولت کبری اور نعمت عظمی ہے کہ اس مقام کی ذرہ بھر سیر جمیع مقامات ولایت صغری و کبری و علیاء سے زیادہ بہتر اور اعلی ہے ۔ اس مقام عالیہ کی خصوصیات حضور بے جہت، یقین تمکین اور تسکین ہیں ۔ یہاں سابقہ کیفیات مثلا ذوق وشوق و بیتابی و شدت طلب زائل ہو جاتے ہیں ۔آیت کریمہ،لا تـد که الابصار ، کے مصداق اس مقام پر تمام علوم و معارف مفقود اور باطن کے تمام حالات بے شناخت ہوجاتے ہیں ۔

حقیقت ایمان واتباع شریعت محمدی ﷺ کمال وسعت نسبت باطن ، بے کیفی ، حیرت اور اپنی نسبت سے لاعلمی اس مقام کی خصوصیات میں یہاں وصول ہی وصول ہے حصول نہیں ۔ اس مقام میں تجلیات ذاتی بے پردہ اسماء و صفات وغیرہ سے سابقہ پڑتا ہے ۔ یہاں اس خیال سے مراقبہ کرتے ہیں کہ اس ذات بحت ( ذات بحت سے ذات حق تعالی کا تمام اسماء و صفات اور شیونات و اعتبارات سے مبراومنزہ ہونا مراد ہے ) سے جو کمالات نبوت کا منشاء ہے بواسطہ میرے حضرت پیر ومرشد میرے عنصر خاک پر مع عناصر ثلاثہ فیض آ تا ہے ۔ خاص طور پر یہ فیضان عنصر خاک ہی کو نصیب ہوا ہے ۔ لطائف خمسہ عالم امر و دیگر عناصر اسی خاک کی بدولت اس سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔اس سے عنصر خاک کے مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں وہ جس قدر پست واقع ہوا ہے ۔ اسی قدر اس کی قدرومنزلت اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک ارفع و اعلی ہے ۔ اور عنصر خاک کے سواکسی لطیفہ عالم امر یا کوئی ذاتی تجلی مقدر نہ ہوئی۔

ولایت سہ گانہ

سالک جب ولایت علیاء کے فیضان و انوار سے مشرف ہو کر مرتبہ کمال پر پہنچتا ہے تو بفضل الہی اس پر کمالات نبوت کا مقام کھلتا ہے جو نہایت ارفع واعلی مقام ہے ۔ اس مرتبہ کے ولی کو اعلی درجہ کے کمالات حاصل ہوتے ہیں جن کا پورے طور پر احاطہ وادراک کر نا ولایت صغری و کبری وعلیاء کے اولیاءاللہ کے لیے دشوار ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ کی نسبت سے لاعلمی کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل سالک کی نسبت ولایات سے تھی جہاں اس کو اسماء وصفات وشیونات میں فنا و بقا کا مرتبہ حاصل تھا۔ اور مرتبہ کمالات نبوت سے بالکل بے بہرہ تھا سا لک کی قوت ادراک ایسی بھی که نسبت مر تبہ ذات بحت کو سمجھ سکے ۔اس لیے یہاں کی نسبت کا ادراک اس کے لیے دشوار ہے ۔ کمالات نبوت کا مقام انبیاءعلیھم السلام کے لیے مخصوص ہے اس مقام کے معارف انبیاء کرام علیھم السلام کی شریعتیں ہیں یہ آنحضرت ﷺ کےتابعین کو کمال اتباع کی برکت سے بطور وراثت نصیب ہوتا ہے ۔ اس مقام پر شیخ کامل واکمل کی تو جہات اور طالب کی استعداد کے مطابق جلوہ حق تجلی فرماتا ہے۔ جو معاملہ یہاں پیش آتا ہے وہ مشاہدہ ولایات کے مقابلہ میں رؤیت کے مانند ہوا کرتا ہے ۔ اگر چہ وہ رؤیت نہیں ہوتی اس لیے کہ وعدہ دیدار تو آخرت ہی سے متعلق ہے

غرضیکہ اس مقام میں آنحضرت سید المرسلین ﷺ کی اتباع کے سبب اللہ تبارک و تعالی سے ایک خاص رابطہ پیدا ہو جا تا ہے ۔ البتہ جب اس مقام کی بلندی و بے رنگی کا پورا پورا کشف ہوتا ہے تو سالک کی حیرانی بڑھ جاتی ہے کہ اس سے پہلے بھی یہ مقام اس کی نظروں کے سامنے تھا اور اس قدرقریب ہونے کے باوجوداس کے نظر نہ آنے کی کیا وجہ تھی ۔ کہ اپنے مقصود کی تلاش میں بھٹکتے رہے ۔ اس مقام میں ترقی کے لیے قرآن مجید کی باادب با ترتیل تلاوت اور قیام وقرات کی طویل ادائیگی اور مسنون اذکا رانتہائی مفید اور ترقی بخش ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ مراقبہ کمالات نبوت میں عنصر خاک پرفیض لیتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خاص کی خاصیت انتہائی عجز و انکساری ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالی کے نزدیک تمام اعتبارات وتعینات انسانی سے بالا تر مقام حاصل کرتا ہے ۔ ان خصائل کے حامل انبیاء کرام علیھم السلام ہیں بایں وجہ کمالات نبوت سے فیض حاصل کرایا جا تا ہے ۔ تا کہ سالک میں بھی انہیں خصائل کا پر تو ظاہر ہو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں