محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوتھی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع فی التوبۃ ‘‘ ہے۔
منعقده 10 شوال المکرم 545 بروز اتوار بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف
جس پر بھلائی کا دروازہ کھلا ہے ، وہ اسے غنیمت جانے:
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مَنْ فُتِحَ لَهُ بَابٌ مِنَ الْخَيْرِ فَلْيَنْتَهِزْهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَتَى يُغْلَقُ عَنْهُو جس کسی کے لئے بھلائی کا دروازہ کھولا جائے ،اسے چاہئے کہ غنیمت جانے ، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ وہ دروازہ اس پر کب بند کر دیا جائے ۔
اے لوگو! تم پر جب تک زندگی کا دروازہ کھلا ہے اسے غنیمت سمجھو، اس لئے کہ وہ عنقریب بند ہو جانے والا ہے۔ نیکی اور بھلائی کے کام کرنے کی جب تک تم قدرت رکھتے ہواسے غنیمت جانو ، جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے،اسے غنیمت سمجھو۔ اس میں داخل ہو جاؤ ،نیک وصالح بھائیوں کی ملاقات کا جو دروازہ کھلا ہے، اسے غنیمت جانو ، اے لوگو! جو تم نے توڑڈالا ہے اسے بنا ڈالو، جو کچھ نا پاک کیا ہے، اسے دھو ڈالو ۔ جو گدلا ( گندا کیا ہےاسے صاف کرلو، جو بگاڑ لیا ہے اسے سنوار لو، اوروں سے جولیا ہے، اسے لوٹا دو، اپنی نافرمانی اور بھاگ دوڑچھوڑدو اور اللہ کی طرف چلے آؤ ۔
مخلوق کا بندہ یا خالق کا بندہ:
اے بیٹا! یہاں خلق و خالق کے سوا اور کوئی نہیں ہے، اگر خالق کے ساتھ رہے تو اس کا بندہ ہے ۔ اگر مخلوق کے ساتھ رہے تو اس کا بندہ ہے، جب تک دل سے ویرانوں اور چٹیل میدانوں کو طے نہ کر لے، اور باطن سے ہر ایک چیز سے جدا نہ ہو جائے ، تو کسی شمار قطار میں نہیں ، کیا تجھے نہیں معلوم کہ طالب مولی اس کے ہمراہ ہے مگر سب سے جدا ہے۔ یقین جانو کہ مخلوقات میں سے ہر ایک چیز بندے اور خدا میں حجاب ہے ۔ جس چیز پر نگاہ ٹھہر جائے وہی حجاب بن جاتی ہے۔
کاہلی وسستی محرومی وندامت کا باعث بنتی ہے ۔
اے بیٹا! کابلی وسستی نہ کر، کیونکہ کاہل ہمیشہ محروم رہتا ہے ، اور ندامت اس کے گلے کا ہار بن جاتی ہے، تو اپنے عملوں کواچھابنا کیونکہ اللہ تعالی نے دنیاو آخرت میں تیرے لئے اچھائی کی ہے ،ابومحمد نبی علیہ الرحمہ کہا کرتے تھے الھــم اجعلنا جيدين ، اے اللہ انہیں کھرا (اچھا) کردے‘‘جبکہ وہ اللهم اجعلنا جیادا کہنے کا ارادہ فرماتے تھے لیکن خوف کے باعث ان کی زبان ان کا ساتھ نہ دیتی تھی ، جوفرمان آپ زبان سے ادا نہ کر سکے، اس کا مفہوم یہ تھا ’الہی! ہمیں خالص مخلص بنا دے ۔ جس نے لذت پائی اسے معرفت الہی حاصل ہوئی ۔ خلقت کے ساتھ اچھا میل ملاپ شرعی میل جول ہوتو اس میں کچھ بھلائی اور نیکی نہیں قدرومنزلت بھی کچھ نہیں ، اہل صفا اور برگزید ہ لوگ عملوں کے مقبول اورر دہونے کا خاص علامتوں سے جان لیتے ہیں۔
دنیا میں جو بونا ہے، آخرت میں وہی کا ٹنا ہے:
اے بیٹا! تو دعا کا ایک تسلسل قائم کر دے اور اللہ کی رضا کی طرف متوجہ ہو، اگر دل کو کوئی اعتراض ہوتو زبان سے دعا نہ مانگ ، کیونکہ تیرا کام تو مانگنا ہے، دینا نہ دینا تو اللہ کی مرضی ہے، تو دعا کرنے میں غفلت نہ کر) زبان ودل ، دونوں کویکسوکر کے دعا مانگ، دنیا میں انسان نے جو بھلائی یا برائی کی ہے، قیامت کے دن یاد آئے گی ، اس وقت شرمندہ ہونا کچھ فائدہ نہ دے گا، اور اسے یاد کرنا بیکار جائے گا، عزت تو تب ہے کہ مرنے سے پہلے سب کیا کرایا یاد کرو، فصل کی کٹائی میں لگے لوگوں کو دیکھ کرکھیتی باڑی اور بوائی کی فکر فضول ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: الدنيا مزرعة الأخرة فمن زرع خيرا حصدا غبطة ومن زرع شرا حصد ندامة دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جس نے بھلائی بوئی ، بھلائی پائے گا ، اور باعث مسرت ہوگا، جو برائی ہوئے گا۔ وہاں ندامت اٹھائے گا۔
اگر مرتے وقت تمہیں اس کا خیال آیا تو اس وقت کا خیال کرنا ذرا بھی فائدہ نہ دے گا۔ اللهم نبهنا من نوم الغافلين عنك الجاهلين بك . آمين! الہی! ہمیں غافلوں اور جاہلوں کی نیند سے ہوشیار و بیدار کر آمین!‘‘
قرآن وسنت پر عمل کرنے سے ہی نجات ہے:
اے بیٹابروں کی صحبت تمہیں نیکوں سے بدگمان کر دے گی اللہ کی آخری کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے سائے تلے چل کر ہی نجات مل سکتی ہے۔
اللہ سے ایسی حیا کروجیسا کہ حیا کا حق ہے:۔
اے لوگو! اللہ سے ایسی حیا کروجیسا کہ حیا کا حق ہے۔ چند روزہ زندگی کو غفلت سے ضائع نہ کرو، تم ایسی چیزیں جمع کرنے میں لگے ہوجنہیں کھا نہیں سکتے ۔ امید لگائے بیٹھے ہو، مگر پانہیں سکتے ۔ ایسی تعمیر یں کر رہے ہو جن میں رہ نہیں سکتے ، رضائے الہی کے مقام سے یہ سب کچھ تمہارے لئے حجاب ہے، اللہ کے ذکر نے عارفوں کے دلوں کو اپنے دائرہ اثر میں لے رکھا ہے اور ماسوا کے ذکر کو بھلائے دیتا ہے یہ مرتبہ پانے پرجنت میں ٹھکانہ پایا، جنتیں بھی دو ہیں:ایک نقد ،ایک ادھار(جنت موعودہ)
کہ جس کا وعدہ ہے، نقدی جنت دنیا میں ہے یعنی : راضی برضارہنا، دل کا اللہ سے قریب ہونا ، اور اس سے سرگوشی کرتے رہنا ، دل اور ذات الہی کے درمیان سے پردوں کا اٹھ جانا ، ایسے دل والے کو تنہائی ( خلوت میں بلا کیف وتشبیہ کے ذات الہی کا ساتھ رہتا ہے۔ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔‘‘
جنت موعودہ وہ ہے کہ جس کا اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لئے وعدہ فرمایا ہے، جس میں بغیر کسی حجاب کے اللہ کا دیدار ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر خیر اللہ کی طرف سے ہے، اور ہر شر غیر اللہ کی طرف سے ہے ، اللہ کی طرف رخ کروتو خیر ہی خیر ) ہے۔ اس سے رخ موڑ وتو شر ( ہی شر) ہے۔
جس عمل پر بدلے کی طلب ہو، وہ عمل تیرے لئے ہے اور جس عمل سے اللہ کی رضا مقصود ہو، وہ عمل اللہ کے لئے عمل کا بدلہ چاہو گے تو بدلے میں مخلوق ملے گی ۔ جب عمل خالص اللہ کے لئے کرو گے تو اس کی جزا اللہ کا قرب اوراس کا دیدار ہو گا، یاد رکھو بدلے کی امید میں عمل ہرگز نہ کرو ، ذات الہی کے مقابل دنیا کیا چیز ہے، آخرت کیا چیز ہے اور ما سوا اللہ کیا چیز ! نعمت کی آرزو نہ کر نعمت دینے والے کی جستجو کر، مکان کی تعمیر سے نیک ہمسائے کی خواہش کر ، بعد میں تلاش بے کار ہے، وہ ہر شے سے پہلے ہے، ہر ایک شے کا بنانے والا ہے، اور ہرشے کے بعد ہے۔
سلطنت و ولایت تب ملتی ہے جب …..
موت کو یا دکر، مصیبتوں پرصبر کر ، اور ہر حال میں اللہ پر توکل رکھ۔ یہ تینوں چیزیں جب تم پر تمام ہو جائیں تو تجھے۔ ولایت مل جائے گی ۔- موت کو یاد کرنے سے تم دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ گے۔ اللہ سے تمہاری جو امیدیں وابستہ ہیں، ان میں صبر سے کامیابی ہوگی ، تو کل کے باعث تمہارے دل سے سب چیز یں نکل جائیں گی اور تیرارب سے تعلق جڑ جائے گا ، دنیا و آخرت اور ما سوا اللہ کا خیال نہ ر ہے گا، مشرق مغرب، جنوب شمال او پر نیچے، غرض ہرسمت سے راحت و حمایت ملے گی ، اوراللہ کی حفاظت میں آ جاؤ گے، خلقت میں سے کوئی تمہیں ایذا نہ پہنچا سکے گا۔ خوف کے دروازے اور اطراف بند کر دی جائیں گی۔
تم بھی انہی میں شامل ہو جاؤ گے جس پاک جماعت کے حق میں یہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ”میرے(خاص) بندوں پر تیرازورنہ چلے گا۔
اہل توحید اورمخلص بندے ( جن کا ہر عمل اللہ ہی کے لئے ہوتا ہے، کسی کو دکھاوے کے لئے نہیں۔ ان پر شیطان کا زور کیسے چل سکتا ہے ، منزل کے اخیر میں قوت گویائی حاصل ہوتی ہے ،منزل کے آغاز میں نہیں ۔ اس کے شروع سے کلی طور پر خاموش رہنا ہے ۔ اور اس کی انتہا میں بولنا ہی بولنا ہے (یعنی کل گویائی ہے ) ۔ مخلص کا ظاہر نہ دیکھو۔ اس کا ملک دل میں اور بادشاہت اس کے باطن میں ہے۔ ایسے (مخلص ) لوگ بہت کم ہیں کہ جنہیں ظاہری اور باطنی سلطنت ملی ہو ( یعنی ظاہری و باطنی بادشاہت کے جامع ہوں۔)
قلب کے رب سے واصل ہونے کو کامل ہونا چاہئے:
تو اپنی حالت کو ہمیشہ چھپائے رکھ، یہاں تک کہ تیرادل کامل ہو جائے ، قلب کے رب سے واصل ہونے کو کامل ہونا چاہئے ۔ جب کامل ہو گئے ، اور جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ، اس درجہ کمال پر کچھ پرواہ نہ کر ، اب تم کیسے پرواہ کرو گے حالانکہ تم نے اپنے حال کو ثابت کر دکھایا اور اپنے مقام کو قائم ومستحکم کر لیا ہے، اور تیرے حفاظت کرنے والوں نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے ، خلقت تیرے لئے ستونوں اور جنگل کی لکڑی کی طرح ہے، ان کی مدح سرائی اور برائی کرنا تیرے لئے ایک سا ہے، ان کا دھیان دینا اور بے دھیانی کرنا برابر ہے ، اب تو تمہی ان کی بنی کے بنانے والے، اور بگڑی کے بگاڑنے والے ہوں، اور اپنے خالق کی اجازت سے ان میں تصرف کرنے والے ہو، کھولنا اور با ندھنا ( حل عقد ) تیرے اختیار میں ہوگا ، حکومت تیرے دل کے ہاتھوں میں ہوگی اور شناخت تیرے باطن کے ہاتھوں میں آ جائے گی۔ جب تک یہ سب درست حالت میں نہ ہو کوئی بات نہ کر ، ورنہ عقل سے کام لے۔
کسی صاحب بصیرت کا دامن تھام لے :۔
کسی لالچ میں نہ پڑ، تیرے دل کی آنکھیں نہیں ہیں کسی ایسے کو ڈھونڈ جو دل کی آنکھیں رکھتا ہو، صاحب بصیرت ہو، جو تیری رہنمائی کر سکے ۔ اس کا دامن تھام لے۔ اس کی رائے پر عمل کر ، اس کے حکم کی تعمیل کر اس سے سیدھی راہ جان لے، تجھے کچھ خبرنہیں کسی جاننے والے علم رکھنے والے کا کھوج لگا۔ اس کی رہنمائی میں سیدھی راہ چلتے جا، تا کہ تجھے معرفت کی حقیقت حاصل ہو جائے ، اس وقت راہ سے بھٹکے ہوئے تیری طرف رجوع کر لیں گے ، راہ بھولے ہوئے تیرے پاس سہارالیں گے اور تو فقیروں اورمسکینوں کے لئے خوان بن جائے گا، تیری سمت ہر آنے والا روحانی غذا سے سیر ہوگا۔
خوش اخلاقی سے جواں مردی کی شان ہے:
اللہ کے رازوں کی حفاظت کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا جواں مردی کی شان ہے ۔ ( خوش اخلاقی پر کچھ خرچ نہیں آتا لیکن یہ بندے کا وقار بڑھادیتی ہے۔ مولی کریم کی تلاش اور اس کی رضا مندی کے لئے اس کے ماسوا کو چھوڑ دینا تم میں ہے کہاں! طالب مولی بننے سے تو کہیں دور ہے، کیاتم نے اللہ تعالی کا یہ ارشادنہیں سنا: مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ
“تم میں سے کوئی دنیا کا طلب گار ہے، اور کوئی آخرت کو چاہنے والا ہے ۔‘‘
دوسری جگہ ارشادفرمایا: يُرِيدُونَ وَجْهَهُ’’انہیں صرف رضائے الہی کی جستجو ہے۔ اگر تیرا نصیب ساتھ دیتا تو غیرت الہی تیرے شامل حال ہوتی جو تجھے ہر ایک ماسوا اللہ سے چھڑالیتی ، اور تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھے اللہ کی درگاہ پر لا کھڑا کرتی ، اس لئے کہ
هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ”یہاں اللہ کی ہی ولایت ہے جو کہ حق ہے۔“ تو اب بھی کوشش کر جب تجھے یہ مقام ومنصب حاصل ہو جائے گا تو بغیر کسی محنت ومشقت کے دنیا اور آخرت تیرے خادم بن کر حاضر ہوں گے۔ تیرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں گے۔
ہر خطرہ ووسوسہ کی ایک خاص علامت ہے:
تو اللہ تعالی کا درواز کھٹکھٹا اوراس پر ثابت قدم رہ۔اللہ کے در پر پڑار ہے گا تو ہر طرح کے خطرات،خطرۂ نفس، خطر حرص خطرہ قلب، خطرۂ شیطان اور خطر فرشتہ غرض سب طرح کے خیالات و خطرات ظاہر ہو جائیں گے ۔ اس وقت تم پر کھل جائے گا کہ کون سا خطرہ حقانی ہے اور کون سا وسوسہ شیطانی ہے، ہر ایک کی خاص علامت ہے، اس خاص علامت سے تم پہچان لو گے۔ اس موقع ومقام پر تیرے پاس خطرہ ر بانی آئے گا ( جسے الہام کہتے ہیں )، یہ خطرۂ ربانی تجھے – ادب سکھائے گا ، ثابت قدم کرے گا۔کھڑا کرے گا۔ بٹھائے گا، حرکت دے گا، سکون دے گا ، نیکی کا حکم دے گا، برائی سے بچائے گا ۔
وقت سے پہلے اور مقدر سے بڑھ کر کچھ نہیں
اے لوگو! تم کثرت اور کمی کی ، اور اگلے اورپچھلے کی طلب نہ کرو، کیونکہ تقدیرتم میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ حصہ مقرر کئے ہوئے ہے، اور وہی کچھ ہونے والا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی کتاب (تقدیر) اور روزانہ کی مخصوص تحریر نہ ہو، وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کچھ نہیں )۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: فرع ربك من الخلق والخلق والرزق والأجل جف القلم بما هو كائنه “تمہارارب ہر ایک مخلوق کی پیدائش ، رزق اور زندگی ( کی مدت ) لکھ کر فارغ ہو چکا ہے، ہونے والی سب چیزیں لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہرکسی کا مقدر متعین کر دیا ہے، اب وہ ہر شے سے فارغ ہو چکا ہے، اب اس کی قضا سابق ہے، جو علم بن کر سامنے آتی ہے، اس (قضا) پر ہونے اور نہ ہونے اور کسی الزام کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب کسی شخص کو اپنی بریت و بچت کے لئے کوئی عذرتر اشنا روانہیں کہ وہ تقدیر ونصیب کے حکم پر کوئی انگلی اٹھائے کوئی اعتراض کرے، جو ہونا ٹھہر چکا ہے ، وہ تو ہوکر رہے گا ، جو کچھ پہلے سے طے شدہ ہے، اسے تو ہونا ہی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے : لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
“وہ جو کچھ کرتا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے گا لوگوں سے ان کے اپنے کئے پر پوچھا جائے گا ۔ اللہ کی موافقت اور اس سے محبت باعث خوش خبری ہے:
اے لوگو! تم اس ظاہر پرعمل کرو جو سفیدی پر سیاہی کی صورت میں ہے، یعنی لکھے ہوئے پر ایسا کرنے سے تم میں باطنی عمل کے لئے شوق پیدا ہوگا ، اس ظاہر پر عمل کرنے سے باطن ( کی زباں) کو سمجھنا آجائے گا، اس (دائرہ کار میں: – پہلے تمہارا باطن سمجھتا ہے۔ پھر اس سے تمہارے قلب پر اظہار ہوتا ہے، پھر قلب تمہارے نفس پر املا کرتا ہے، پھر نفس زبان پر املاکرتا ہے،آخر میں زبان مخلوق خدا پر املا کرتی ہے۔
امر کا یہ سلسلہ ان ذرائع سے خلقت کے فوائد اورمصلحتوں کے لئے یکے بعد دیگرے جاری ہے ۔ اللہ کی موافقت کرنا اور پھر اس سے محبت کرنا تمہارے لئے خوش خبری کا باعث ہے، اللہ کواپنا محبوب سمجھنا مبارک ہے ۔
محبت کا دعوی اور قرینہ محبت سے تہی دامن:
تم پر افسوس اس بات کا ہے کہ تمہیں اللہ سے محبت کا دعوی تو ہے مگر تم اس بات سے بے خبر ہو کہ میت کا قرینہ کیا ہے۔ محبت کے لئے کچھ شرطیں ہیں:
اپنے اور غیر کے معاملے میں اس کے تابع رہنا، اس کے غیر کو نہ چاہناء اس سے انس رکھنا ،اس کے ساتھ رہنے سے وحشت نہ پکڑنا، بندے کے دل میں جب اللہ کی محبت قرار پکڑتی ہے، تو اسی سے دل لگتا ہے ۔ جو چیز اس سے رو کے، بری لگتی لہذا تو اپنے (محبت کے جھوٹے دعوے سے توبہ کر لے ۔ اللہ کی محبت گوشہ نشینی ( خلوت ) ، آرزواور جھوٹ اور نفاق اور بناوٹ سے نہیں ملا کرتی ، ان سب سے تو بہ کر ، اور پھر تو بہ پر ثابت قدم رہ توبہ کرنا کمال نہیں تو بہ پر قائم رہنا کمال ہے – پودالگا نا کوئی شان کی بات نہیں ، شان اور فخر کی بات تو پودے کی استقامت، اس کی شاخیں پھوٹنے اورپھل لانے میں ہے۔
سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تنگی اور ترشی ، امیری اور غریبی،سختی اور نرمی ، بیماری اور تندرستی ،نیکی اور بدی ،ملنے اور نہ ملنے ، ہر حال میں تقدیر الہی کی موافقت پکڑو۔ میرے خیال میں سرتسلیم خم کرنے اور اس کی رضا میں راضی رہنے سے بڑھ کر اور کوئی دوا نہیں ۔ اللہ تعالی جب کسی چیز کا حکم دے، اس سے وحشت نہ دکھاؤ ،یعنی اس سے گھبراؤ نہیں اور نہ ہی اس میں جھگڑا کرو ، اس کا گلہ یا شکایت اس کے غیر سے نہ کرو، غیر سے شکوہ کر نے سے تم پر مصیبت اور بڑھ جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اور سکون اختیار کرو اور گمنامی میں رہو ۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو، اور جو کچھ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے معاملات میں کرے دیکھتے رہو اور اسے بخوشی دیکھتے جاؤ ، اس کے تصرفات ( تغیر و تبدل ) پر خوشی کا اظہار کرو کہ یہ سب اس کی طرف سے ہے جسے محبوب مانا ہے ، اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آؤ گے تو وہ وحشت کو انسیت سے اور رنج کو خوشی سے ضر در بدل دے گا۔ (اس لئے کہ رنج اور کلفت میں ہی انعام ہے، اور پھر جو کچھ محبوب کی طرف سے آئے ، اس میں سراسر خوشی ہی خوشی ہے۔ ہم اس کے حضور میں بس یہی دعا کرتے ہیں: اللهم اجعلنا في جنايك ومعك رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یا الہی ! تو اپنی حضوری میں ہمیں اپنے ساتھ رکھے اور دنیا میں بھلائی عطا فرما، اورآ خرت میں بھلائی عطا فرمااور عذب دوزخ سے بچائے رکھ آمین۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 39،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 31دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان