محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چودھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع عشر فی النھی عن النفاق ‘‘ ہے۔
منعقدہ 2 ذیقعده 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام :مدرسہ قادریہ
علماء و اولیاء وصلحاء کی توہین کرنے والا منافق ہے:
اے منافق ! اللہ تیرے وجود سے زمیں کو پاک کرے، کیا تیرے لئے تیر انفاق کافی نہیں ، تو علماء واولیاء وصلحاء کی غیبت کر کے ان کا گوشت کھاتا ہے، تو اور تیرے بھائی جو تجھ جیسے منافق ہیں، کی زبانوں اور گوشت کو کیڑے کھائیں گے۔ تمہارے ٹکڑے اور ریزے کر ڈالیں گے۔ زمین تمہیں بھینچ کر پیس ڈالے گی اور چور چور کر دے گی ، ( اس لئے نجات کی صورت نہیں ، )
جوشخص اللہ اور اس کے نیک بندوں کے ساتھ اچھا گمان نہیں رکھتا ، اور ان کی تواضع نہیں کرتا ، اس کے لئے فلاح ونجات نہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں ) رئیس اور امیر ہیں، پھرتم ان کی تواضع کیوں نہیں کرتے ، ان کی نسبت تم کیا چیز ہواللہ نے سارے عالم کا انتظام حل وعقدان کے حوالے کر رکھا ہے، ا نہیں کی برکت سے آسمان سے بارش اترتی ہے ،اورز مین سبز ہ ا گاتی ہے،
تمام مخلوق ان کی رعایا ہے ان میں سے ہر ایک پہاڑ کی طرح ثابت قدم ہے، آفتوں اور مصیبتوں کی ہوائیں انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتیں ، وہ رضائے الہی اور مقام توحید سے ذرہ بھی حرکت نہیں کرتے ، راضی برضارہتے ہیں۔
اپنے اور دوسرے کے لئے اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں تم اللہ کے حضور توبہ کرو اور اس سے عذر کر دے ۔ اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو، اس کے سامنے عاجزی انکساری کرو، تمہارے بالمقابل کیا شے ہے، اگر تم اسے پہچان لیتے تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی ، اللہ کی بارگاہ میں باادب رہوجیسا کہ تم سے پہلے لوگ با دب رہتے تھے۔ ان سے موازنہ میں تم ہیجڑے اور عورتیں ہو، تم تو اتنے بہادر ہو کہ تم پر تمہارانفس اور عادتیں اور خواہشیں حکم چلاتی ہیں، دین کی بہادری یہ ہے کہ اللہ کے حقوق کامل طور پر ادا کئے جائیں تم حکمت اور اہل علم کے کہنے کی تو ہین نہ کرو، ان کا کلام تو دوا ہے ۔ ان کا کہا تو وحی الہی کا خلاصہ ہے ۔ بظاہرتمہارے بیچ میں کوئی نبی موجود نہیں کہ اس کی اتباع کرسکو، جب تم رسول اللہ ﷺ کے تابعداروں کی پیروی کروگے تو گویاتم نے نبی کرم ﷺ کی ہی تابعداری کی ، جب تم نے انہیں دیکھ لیا، گویا تم نے رسول اللہ ﷺکی زیارت کی۔ تم پرہیز گار عالموں کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ اس میں تمہارے لئے برکت ہے ۔ ایسے عالموں کی صحبت سے بچو جوعلم رکھتے ہیں مگر اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ، ان کی صحبت میں بیٹھنا خسارے کی بات ہے، جو شخص تم سے پر ہیز گاری اور علم میں بڑا ہے، اس کی صحبت برکت کا باعث ہے ۔ ایسے شخص کی صحبت سے بچو جو تم سے عمر میں بڑا ہے مگر پر ہیز گار اور عالم نہیں ہے۔ اسے شخص کی صحبت تیرے لئے شرمندگی کا باعث ہے ۔
تو جو بھی عمل کر اللہ کے لئے کر، اس کے غیر کے لئے نہیں، جو کچھ چھوڑ نا ہے، اللہ ہی کے لئے چھوڑ اس کے غیر کےلئے نہ ترک کر، غیر اللہ کے لئے عمل کرنا کفر ہے، غیراللہ کے لئے ترک کرنا ریا کاری ہے،جو شخص اسے نہ پہچانے اور اس کے غیر کے لئے عمل کرے ، وہ حرص میں گرفتار ہے، عنقریب موت آ کر تیری حرص کی دھجیاں اڑادے گی ۔ تیرے لئے افسوس ہے تو دل کو خدا سے جوڑ ، اور غیر سے ناطہ توڑ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وصلوا الذي بينكم وبين ربكم تسعدوا”تمہارے اور رب کے بیچ میں جو تعلق ہے، اسے جوڑ و سعادت پاؤ گے ‘‘ تمہارے اور رب کے درمیان جوتعلق ہے ، صالحین کے دلوں کے ساتھ اس کی حفاظت کرو۔ صابرفقراء قیامت کے دن رحمٰن کے ہمنشیں ہوں گے:
اے بیٹا! اگر تم غنی اورفقیر کے آنے پر الگ الگ سلوک کروتو تم فلاح نہیں پا سکتے ، دونوں سے ایک ساسلوک کر ،صابر فقراء کی تعظیم کرو ، ان سے برکت حاصل کرو ، ان سے ملاقات کو باعث برکت جانو ، ان کے پاس بیٹھنے کو سعادت سمجھورسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: الفقراء الصبر جلساء الرحمن يوم القيمة صابرفقراء قیامت کے دن رحمن کے ہم نشین ہوں گے ۔دنیا میں اپنے دلوں سے اور آخرت میں اپنے بدنوں سے اللہ کے ہم نشیں ہوں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل دنیا سے بے رغبت ہیں اور دنیا کی زیب وزینت سے منہ موڑے ہوئے ہیں، امارت پر اپنے فقر کوترجیح دی اور اس پر صبر کئے ر ہے ۔ ان کی یہ حالت جب کامل ہوگئی تو آ خرت نے انہیں اپنی طرف بلاوا بھیجا، اور انہیں اپنا آپ پیش کیا ، آخرت کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اس سے جا ملے ۔ ملنے پر کھلا کہ یہ بھی غیر اللہ ہے ۔ وہ اس سے الگ ہو گئے ، اپنے دلوں کارخ ان سے پھیر لیا اور اللہ سے شرم کے مارے آخرت سے بھاگ پڑے ۔ قدیم کو چھوڑ کر غیر اللہ کے پاس کیسے ٹھہرتے ، اور حادث اشیاء کے پاس کیسے رکتے اور ان سے کیسے مانوس ہوتے ، اپنے سب اعمال اور نیکیاں اور سب طرح کی عبادتیں آخرت کے حوالے کر دیں ،اور اپنے مولی کی طلب میں سچائی کے بازوؤں کے ساتھ اڑ گئے، پنجرہ آخرت کے پاس چھوڑ آئے ، اور وجود کے قفس سے نکل کر اپنے بنانے والے کی طرف پرواز کر آئے ، اور رفیق اعلی کے طالب ہوئے ، اول و آخر ، اور ظاہر و باطن کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے قرب کے برج میں جا پہنچتے ہیں۔ یوں ان لوگوں میں مل جاتے ہیں کہ جن کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
: وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ اور بے شک وہ ہمارے نزدیک منتخب ومعززین سے ہیں ۔‘‘ ان کے دل اور ان کی ہمتیں ہمارے پاس ہیں، ان کے باطن اور ان کی سمجھیں ہمارے پاس ہیں؟ ان کی دنیا اور آخرت ہمارے پاس ہیں ۔
اہل اللہ کو جب یہ مقام ومرتبہ مل جاتا ہے تو ان کے لئے نہ دنیا کچھ معنی رکھتی ہے نہ ہی آخرت کی کوئی اہمیت رہتی ہے، زمین و آسمان اور ان دونوں کے بیچ میں جو کچھ ہے، ان کے دلوں اور باطنوں کی نسبت لپیٹ دیا جا تا ہے ۔ وہ غیر کی ذات سے فنا ہو کر اللہ کی ذات میں موجود ہو جاتے ہیں، یوں انہیں فنا سے بقا کا مرتبہ مل جا تا ہے ، اگر دنیا میں ان کا حصہ باقی ہو تو انہیں آدمیت اور بشریت کے لباس میں واپس کیا جا تا ہے، تا کہ دنیا کے لئے ان کی جوقسمت لکھی جا چکی ہے، اسے پورا کر سکیں اور علم اور قضا وقد رالہی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو، اس وقت وہ اللہ تعالی اور اس کے علم اور قضا وقدر کے ساتھ حسن ادب سے پیش آتے ہیں، اور جو کچھ انہیں دیا جا تا ہے اسے زہد وترک کی راہ پر چل کر حاصل کرتے ہیں ، اس میں نفس اور خواہش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں رکھتے ، سارے حالات میں ظاہری حکم ان کے ہاں محفوظ رہتا ہے ، دنیا میں خلقت کے ساتھ کسی قسم کا بخل نہیں کرتے، اگر ان کے بس میں ہو تو ساری خلقت کو اللہ کا مقرب کر دیں ان کے دلوں میں مخلوقات اورنئی پیدا ہونے والی میں سے کسی شے کی ذرے سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ۔ جب تک دنیا کا ساتھ رہے گا ، آخرت کا ملنا نصیب نہ ہوگا،اور جب تک آخرت کا ساتھ رہے گا مولی کاملنا نصیب نہ ہوگا ۔ عقل سے کام لے، ہوشیار ہو جا اور عمل کرنے والا ہو جا، تو ان میں سے ہے جو اللہ کے ہاں اپنے علم کے باعث گمراہ ہو گئے ۔ اپنے مال سے فقیروں کو خیرات کرنا ، یہ بھی اللہ سے ملا دینے والا عمل ہے، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ صدقہ دینا اللہ سے معاملہ کرنا ہے، جو ہر طرح سےغنی بھی ہے اور کریم بھی ہے ۔ کیا جوغنی وکریم سے معاملہ کرے گا، گھا ٹا اٹھا سکتا ہے، یقینا نہیں! تو اللہ کی راہ میں ایک ذرہ خرچ کرے گا، وہ اس کا ایک پہاڑ کر دے گا ۔ تو اس کی راہ میں ایک قطرہ خرچ کرے گا، وہ اس کے بدلے سمندر کر دے گا ، وہ دنیا و آخرت میں اپنی عطا سے تجھے سرفراز کرے گا اور تیرا جر وثواب پورا پورا د یا جائے گا۔
د نیاوآخرت کی بجائے اس سے اسی کو مانگیں:
اے لوگو جب تم اللہ سے لین دین رکھو گے تو تمہاری کھیتیاں پھلیں پھولیں گی نہریں بہہ نکلیں گی ، تمہارے درختوں پر پتے اور شاخیں نکلیں گی ، اورپھلی خوب آنے سے درخت لد جائیں گے ۔ نیک کام کرنے کے لئے شوق دلاؤ ، بدی سے بچنے کی ترغیب دو، یوں اللہ کے دین کی مددکرو، دین کے دشمنوں سے دشمنی کرو، سچا آدمی (صدیق) جو نیکی کے کاموں میں اللہ کے ساتھ سچائی کا معاملہ رکھتا ہے، اس کی صداقت ،خلوت اور جلوت، خوشی اور غمی سختی اورنرمی میں ہمیشہ یادرہتی ہے۔ اپنی حاجتیں خالق سے طلب کرو مخلوق سے نہ مانگو، ( بفرض محال ) اگر مخلوق ہی سے مانگنا پڑ جائے تو اللہ کے پاس اپنے دلوں سے حاضر ہو جاؤ، وہ تمہیں کسی خاص سمت اور جہت سے طلب کرنے کے لئے تمہارے دل میں ڈال دے گا،۔ اور اگر تمہیں دیا جائے یا روک دیا جائے تو (یہ دونوں صورتیں ) اللہ کی طرف سے ہوں گی ،نہ کہ مخلوق کی جانب سے ، اللہ کے ولیوں نے اپنے دل سے رزق کی فکر کو نکال ڈالا ہے، انہیں معلوم ہے کہ مقدر میں جو رزق ہے ، وہ وقت مقررہ پر ضرور ملے گا ۔ انہوں نے طلب کو چھوڑ دیا ہے اور مالک کے در پر ڈیرہ لگالیا ہے، اللہ کے فضل سے وہ اس کے علم اور قرب کی وجہ سے ہر چیز سے لا پرواہ ہو گئے ہیں ، – یہ مقام و مرتبہ پا کر وہ خلقت کے لئے قبلہ اور بادشاہ کے دربار میں ان کے داخلے کے لئے خطیب بن جاتے ہیں ، اپنے دلوں کے ہاتھوں سے تھام کر انہیں اللہ تک لے جاتے ہیں ، پھر ان کی قبولیت کے لئے اور اللہ کی رضا کی خلعت دلوانے کے لئے محنت و مشقت برداشت کرتے ہیں۔ اللہ کے عارف کامل علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے وہ بندے جن کی بندگی خاص اللہ کے لئے ثابت ہو چکی ہے، وہ اللہ سے نہ دنیا کی طلب کر تے ہیں اور نہ آخرت کی ، وہ اس سے اس کو چاہتے ہیں ، اس کے غیر کونہیں ، دعا یہ ہے: اللهم اهد جميع الخلق إلى بابك هذا ابدا سوالى والأمر إليك ”اے اللہ ! ساری مخلوق کو اپنے دروازے کی طرف ہدایت کر ، میرا تو ہمیشہ تجھ سے یہی سوال ہے، آگے تیرا اختیارہے،یہ دعا سب کے لئے ہے،اللہ اس پر مجھے ثواب عطافرمائے ،اللہ تعالی اپنی مخلوق سے جو چاہتا ہے، کرتا ہے،جب دل کا حال درست ہو جا تا ہے تو خلقت کے لئے رحمت وشفقت سے بھر آ تا ہے ۔ “
صدیقین کون ہیں؟
اللہ کے ایک ولی نے فرمایا کہ نیکی کاعمل بکثرت کرنے والا اور گناہوں سے بچنے والا صدیقوں کے سوا اور کوئی شخص نہیں ہے، صغیرہ اور کبیرہ سب گناہوں کو چھوڑنے والا صدیق ہے، تمام خواہشیں چھوڑ دیتا ہے،مشکوک چیزوں سے نہایت احتیاط سے پر ہیز کرتا ہے، اور عام خلقت کے لئے جو کچھ مباح ہے اسے ترک کر دیتا ہے، اور خالص حلال کا طالب رہتا ہے، صدیق بڑے دنوں اور لمبی راتوں میں اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے، خلق کے منافع سے لاعلم ہوتا ہے، ضرورت کے وقت اس کے لئے اللہ کی طرف سے خرق عادت کا حکم ہوتا ہے، اور ایسی جگہ سے رزق دیا جا تا ہے کہ جہاں کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اسے لینے کا حکم ہوتا ہے، اسے تمام چیز یں خالص اور صفاملتی ہیں، کیونکہ- وہ ایک عرصہ تک محروم رکھا گیا۔ اس کی حسرتیں سینے پرتوڑی گئیں، اس نے اپنی اغراض کے عدم حصول پر صبر کیا،ہر حالت میں کیا گیا سوال اس کے منہ پر مارا گیا ، دعا کرتا تھا ، کچھ قبولیت نہ ہوئی ، سوال کرتا اور اس کا سوال پورا نہ کیا جا تا ،شکوہ و شکایت کرتا لیکن گلہ بڑھتا چلا جاتا ، خوشی کو طلب کرتا اور نہ پاتا۔ بچنا چاہتالیکن مصیبت سے نکلنے کی راہ نہ پاتا ،خداپرست ہو کر خالص عمل کرتا لیکن جس کیلئے عمل کرتا اس کا قرب نہ پاتا گویا وہ ایمان والا اورخداپرست نہیں، باوجوہ ان سب باتوں اور نظر انداز کئے جانے کے وہ ہمیشہ مدارات اور صبر کا دامن تھا مے رہا۔ اس پر یہ کھل چکا تھاکہ اس کا صبر اس کے دل کی دوا ہے اور اس کے باطن کی صفائی اور قرب الہی کا سبب ہے، اور یہ کہ اس آزمائش کے بعد اسے خیر حاصل ہوگی ، اس کا یہ خیال بھی تھا کہ یہ آزمائش اس لئے ہے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون ایمان والا ہے اور کون منافق ، کون خداپرست (موحد ) ہے اور کون بت پرست(مشرک)کون مخلص ہے اورکون ریا کار،کون بہادر ہے اور کون بزدل،کون ثابت قدم ہے اور کون ڈگمگانے والا ، کون صبر کرنے والا ہے اور کون گھبرانے والا ، کون حق والا ہے اور کون باطل،کون سچا ہے، اور کون جھوٹا ،کون دوست ہے اور کون دشمن،کون فرماں بردار ہے اورکون نا فرماں تا کہ ہر ایک کی الگ الگ پہچان ہوجائے ۔
اپنادل اللہ کے لئے خالی اور خالص رکھ
ایک ولی اللہ نے فرمایا کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے کوئی اپنے زخم کا علاج کرتا ہے، بلاٹل جانے کی امید پر دوا کی تلخی کو برداشت کرتا ہے اور صبر کرتا ہے، تم پر ساری مصیبتیں اور تکلیفیں اس لئے ہیں کہ مخلوق کو اللہ کا شریک ٹھہرائے اور اس سے نفع و نقصان اور عطا اور منع کے بارے میں ان پر نظر رکھتے ہو، مصیبتوں سے نجات اور ساری دوا اس میں ہے کہ تیرے دل سے خلقت نکل جائے ، قضاوقدر کے نازل ہونے پرتو ثابت قدمی سے جمار ہے، خلقت پر برتری اور ریاست کا طالب نہ ر ہے۔ اپنا دل اللہ کے لئے خالی اور خالص رکھ، اپنا باطن اس کے لئے صاف رکھ، تیری ہمت اس کی طرف بلند ہوتی رہے۔
جب یہ بات تیرے لئے ثابت ہو جائے تو تمہارادل بلند ہوگا ، اورنبیوں، پیغمبرون شہیدوں ، صالحین اور مقرب فرشتوں کی صفوں میں شامل ہو جائے گا ، اس حالت کی برقراری و بقا جس قدر ہوگی ،اتنی ہی عظمت و بزرگی ملے گی ، بلندی ملے گی۔ ترقی ملے گی ، حکومت ملے گی ،امارت ملے گی ۔ اس وقت : – تیری طرف وہ چیز آئے گی کہ آئے گی ، والی ہو گئے جس چیز کے ہوگے، دیا جائے گا ، جو دیا جائے گا ، جو شخص اس کلام کے سنے، اور اس پر ایمان لانے اور اس کے اہل کا احترام کرنے سے محروم رہا تو ایسا شخص بےنصیب ہے۔
اسے میری طرف سے غفلت برت کر ) مجھے چھوڑ نے والو! اور اپنی معیشتوں میں مشغول ہونے والو! ـ
( سن لو! ) ( ذریعہ )معاش میرے پاس ہے، نفع میرے پاس ہے، آخرت کا سامان میرے پاس ہے، کبھی میں آواز دینے ولا ہوں، کبھی رہنمائی کرنے والا ہوں ، کبھی سودا طے کرانے والا ہوں ، کبھی اسباب اور مال ومتاع کا مالک ہوں ۔ میں ہر ایک کو اس کا حق ادا کرتا ہوں، جب مجھے آخرت کی کوئی چیز ملے تو میں اکیلے نہیں کھا تا، کیونکہ جو کریم ہوتا ہے وہ تنہا کھانے والانہیں ہوتا ، جس پر اللہ کا کرم آشکارا ہو گیا ، وہ بخیل نہیں ہوتا ، ۔ جسے اللہ کی پہچان ہوگئی ،ما سوا اس کے لئے ذلیل ہے، بخل تو نفس سے ہوتا ہے ۔ مخلوق کے نفس کی نسبت عارف کانفس مردہ ہے۔ اس کا نفس تو اللہ کے وعدے پر اطمینان والا اور تسکین والا ہے، اور اس کے عذاب سے خوف رکھنے والا ۔
التجا ہے کہ: اللهم ارزقنا ما رزقت القوم والقا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! جو کچھ تو نے اپنے پیاروں کوعنایت فرمایا ہے ، ہمیں بھی عنایت فرما، اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کر اور آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ، آمین! “
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 100،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 67دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان