نیت مراقبہ احمدی صلی اللہ علیہ وسلم
فیض می آید از ذات بیچون کہ محبوب ذات خود است و منشاء حقیقت احمدیست علیہ السلام بہ ہیئت وحدانی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے جو اپنی ذات کی خود محبوب ہے اور حقیقت احمدی علیہ السلام کا منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میری ہیئت وحدانی میں فیض آتا ہے۔
تشریح مراقبہ احمدی
مرتبہ مقدسہ حقیقت محمدی کے بعد وصول سالک مرتبہ حقیقت احمدی میں ہوتا ہےیہ مقام محبوبیت ہے۔ لیکن اس کا تعلق روحی ہے۔ اور اس کو دائرہ محبوبیت صرفہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پربھی درود پاک مذکورہ کی کثرت کی جائے۔
مرتبہ خلت یعنی محبوبیت صفائی کا حسن و جمال ظاہری سے تعلق ہے۔ اس مرتبہ حقیقت احمدی میں محبوبیت ذاتی کا انکشاف ہوتا ہے محبوبیت ذاتی سے یہ مراد ہے کہ محبوب کی ذات ہی ذات کمال و شدت محبت کی موجب ہو یہاں محبوبیت صفاتی کے برخلاف ذات محبوب میں وہ آن و ادا ظاہر ہوتی ہے جس پر محبوبیت صفاتی بھی فدا ہے. یہ ایک ذوقی کیفیت ہے جب تک ذوق پیدا نہ ہو یہ کیفیت سمجھ میں نہیں آسکتی۔
حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور پر نورﷺ کے دو مبارک نام ہیں ۔محمدﷺ اور احمدﷺ ان دونوں اسماء مبارک کی صراحت قرآن پاک میں اس طرح موجود ہے ۔محمد رسول اللہﷺ اور دوسرے مقام پر و مبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه أحمد . ان دونوں اسمائے مبارکہ کی شان جدا جدا ہے شان محمدی ﷺ کا تعلق اگر چہ محبوبیت ہی سے ہے لیکن اس میں محبت کا امتزاج بھی ہے۔ محبوبیت خالص نہیں اور شان احمدی ﷺ اعلی و ارفع ہے شان محمدی ﷺ سے اور خالص محبوبیت کا مقام ہے ۔ اس لیے محب کو مرغوب تر ہے ۔ کہ مطلوب سے قریب تر ہے ۔محبوب محبوبیت میں جس قدر کامل ہوگا اس قدرمحب کی نظر میں زیادہ عزیز ہوگا
مزید برآں فرمایا کہ حقیقت احمدی ﷺ اور حقیقت کعبہ بعینہ ایک ہی ہیں ۔ حقیقت کعبہ کا تعلق حقائق الہیہ سے ہے اور حقیقت احمد ﷺ حقائق انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ بزرگ اولیاء اللہ نے اس کی تصدیق یوں فرمائی ہے کہ جب سیر نظری اس مقام کی کھلی تو امام ربانی رحمہ اللہ تعالی علیہ کا بیان عالی شان درست نظر آیا۔ کیونکہ ظہور حقیقت کعبہ میں جو کبریائی اور عظمت ہے یہی خاصہ محبوبیت کا ہے اورمحبوبیت ومسجودیت دونوں آنحضرتﷺ کے شایان شان ہیں ۔ مقام خلت یعنی محبوبیت صفاتی کا تعلق ظاہری حسن و جمال سے ہے۔ حقیقت احمدی ﷺ میں محبوبیت ذاتی کا کشف ہوتا ہے ۔ محبوبیت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ محبوب کی ذات ہی کمال و شدت محبت کا سبب ہو۔ یہاں ذات محبوب میں وہ شان وادا ظاہر ہوتی ہے جس پر محبوبیت صفاتی بھی قربان ہے ۔ یا ایک ذاتی کیفیت ہے اور ذوق کے بغیر مجھ میں نہیں آتی ۔ فناء و بقاء دوقسم کی ہے ۔ ایک وہ جو ولایت کے درجات طے کرتے ہوئے سالک کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں بشری صفات ختم نہیں ہوتی جبکہ حقیقت احمدی ﷺ میں سالک کو جوفناء و بقاء نصیب ہوتی ہے ۔ اس میں صفات بشری معدوم اور جسم روح کی مماثلت پیدا کر لیتا ہے ۔اس مقام پر بھی بند ہ بندہ ہی رہتا ہے ۔ البتہ ذات پاک جل شانہ کے قریب تر ہو کر معیت ذاتی سے مشرف ہو جا تا ہے ۔محبت ذاتی فناء کی علامت ہے اور فناء سے مراد غیر اللہ کا فراموش ہو جاتا ہے ۔ جب سالک مکمل فناء حاصل کر لیتا ہے تو وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی نے حضور پاک ﷺ کو اپنی محبوبیت کے جذب سے جسد مبارک کے ساتھ معراج کرایا اسی طرح ہر سالک کواسی جذب سے اس کی حیثیت کے مطابق عروج عطا فرماتے ہیں ۔