محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چونتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع والثلاثون فی النھی عن الکبر ‘‘ ہے۔
منعقدہ 02/رجب المرجب 545 بروز صبح منگل بمقام خانقاہ شریف
اولیاءاللہ کا شغل سخاوت اور خلق خدا کوآ رام پہنچانا ہے:
اولیاء اللہ کا شغل سخاوت کرنا اورخلق خدا کو آرام پہنچانا ہے، وہ لٹانے والے اور بخشش کرنے والے ہیں ۔ اللہ کے فضل اور رحمت سے جو کچھ انہیں ملتا ہے، اسے سمیٹ لیتے ہیں ۔ فقیروں اور مسکینوں پر جو کہ تنگ دست ہیں بخشش کرتے ہیں ، جو قرضدار قرض ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، ان کے قرض ادا کرتے ہیں ۔ وہی بادشاہ ہیں ۔ دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں ، کیونکہ شاہان دنیا صرف لوٹتے ہیں بخشش نہیں کرتے ۔
اولیاء اللہ کے پاس جو موجود ہوتا ہے، اسے خلقت پر خرچ کر ڈالتے ہیں ، اور جو موجود نہ ہو اس کے منتظر رہتے ہیں (یعنی کب ہاتھ آئے اور کب اللہ کی راہ میں خیرات کریں وہ صرف اللہ کے دست قدرت سے لیتے ہیں مخلوق کے ہاتھوں سے نہیں، ان کے اعضاء کی کمائی خلق خدا کے لئے ہوتی ہے، اور ان کے دلوں کی کمائی ان کی اپنی ذات کے لئے وہ صرف اللہ ہی کے لئے خرچ کرتے ہیں ، خواہشوں اور نفسانی اغراض کے لئے نہیں، نہ ہی ان کی غرض اپنی تعریف و توصیف ہوتی ہے۔
تو اللہ کی ذات پر اورخلقت پر تکبر کرنا چھوڑ دے، کیونکہ تکبر ان ظالموں کی صفات سے ہے جنہیں اللہ تعالی منہ کے بل دوزخ کی آگ میں جھونک دے گا۔
جب تو نے اس کی حکم عدولی کر کے اسے غصہ دلایا تو نے تکبر کیا -جب موذن نے نماز کے لئے پکارا اور تو اذان پر نماز کے لئے کھڑا نہ ہوا تو تو نے اللہ پرتکبر کیا۔ مخلوق میں سے جب کسی پر ظلم کیا تو بھی اللہ پر تکبر کیا تو اس کے حضور رجوع کر اور اخلاص سے توبہ کر اس سے پہلے کہ وہ تجھے اپنی کسی کمزور اور عاجز مخلوق کے ذریعے ہلاک کردے جیسا کہ نمرود جیسے بادشاہ اس نے ہلاک کر دیئے جب انہوں نے اللہ پرتکبر کیا تھا، تو اخلاص کے ساتھ توبہ کر۔ انہوں نے تکبر کیا تو اللہ تعالی نے: -انہیں عزت دینے کے بعد ذلیل کر دیا ۔ امارت کے بعد تنگ دست کر دیا ۔ نعمت دینے کے بعد انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا۔ زندگی کے بعد انہیں موت سے ہمکنار کر دیا۔ خوف خداوالوں میں سے ہو جا، ظاہری و باطنی شرک کو چھوڑ دے۔ ظاہری شرک بت پرستی ہے، اور باطنی شرک خلقت پر بھروسہ کرنا اور انہیں نفع دینے والا اور نقصان دینے والا خیال کرنا ہے۔ دنیا میں گنے چنے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے اور اس سے پیار نہیں کرتے ، وہ دنیا کے مالک ہیں ،دنیا ان کی مالک نہیں۔ دنیا انہیں چاہتی ہے، وہ اسے نہیں چاہتے ،
دنیا انکے پیچھے دوڑتی ہے ، وہ دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتے ، دنیا سے خدمت لیتے ہیں ، اس کی خدمت نہیں کرتے ، وہ اس سے جدا ہوتے ہیں ، وہ ان سے جدا نہیں ہوتی ، وہ دنیا میں تصرف کرتے ہیں، دنیا ان میں تصرف نہیں کرتی ۔ انہوں نے اپنا قلب اللہ کے لئے درست کر لیا ہے، دنیا کے بس میں نہیں کہ ان کے قلب کو فاسد کر دے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: نعم المال الصالح للرجل الصالح وقال لا خير في الدنيا إلا لمن قال هكذا وهكذا وأشار بانه يقرفها بيديه
’’صالح شخص کے لئے صالح مال کیا ہی اچھا ہے۔ مزید فرمایا: دنیا میں کوئی بھلائی نہیں ہے مگر اس شخص کے لئے جس نے دنیا کو ایسا کہا اور ایسا کہا۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس کی تقسیم نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایسے اور ایسے ہو۔ تم خلقت کی بھلائی کے لئے دنیا کو اپنے ہاتھوں میں رکھو مگر اپنے دل سے نکال رکھو، ایسی حالت میں تمہیں کچھ نقصان نہ دے گی ، نہ ہی اس کی نعمتیں اور خوش نمائی فریب دے سکیں گی۔عنقریب تم دنیا سے چلے جاؤگے تمہارے بعد وہ بھی نہ رہیں گے۔
اپنی رائے پر تکیہ کر کے گمراہی نہ سمیٹ:
اے بیٹا! اپنی رائے پر تکیہ کر کے مجھ سے بے پرواہ نہ ہو۔ کیونکہ تو گمراہ ہو جائے گا، جس نے اپنی رائے پر بھروسہ کیا وہ گمراہ ہوا اور ذلیل ہوا اور اس نے ٹھوکر کھائی ، جب تو اپنی رائے پر تکیہ کر کے بے پرواہی کرے گا تو تو ہدایت و حمایت الہی سے محروم ہو جائے گا۔ کیونکہ تو نے ہدایت کو طلب ہی نہ کیا اور نہ اس کے سبب میں داخل ہوئے تم کہتے ہو کہ میں عالموں کے علم سے بے پرواہ ہوں حالانکہ تم خود علم کے مدعی ہو، تو بتا عمل کہاں ہے، اس دعوے کی پہچان اور صداقت کیا ہے مصیبت پر صبر کرنے سے اور اخلاص سے عمل کرنے سے تیرے علم کے دعوے کی پہچان ہوگی ۔ اس سے تیری حالت میں کبھی تبدیلی نہ آئے اور گھبرا کر واویلا نہ کرے ، نہ اس مصیبت پر خلقت سے شکایت کرے۔ تو اندھا ہو کر بینائی کا دعوی کیسے کرتا ہے، تو کم عقل اور ناسمجھ ہو کر عقل و سمجھ کا دعوی کرتا ہے۔ اپنے جھوٹے دعوے سے اللہ کے پاس رجوع کر، تو بہ کر، اس کے سوا سب کو چھوڑ دے ، سب سے منہ پھیر اور سب کے خالق کی طلب کر ، تجھے کیا پڑی کوئی ٹوٹے کوئی جڑے مالک ہو یا کنگال ہو تو خاص طور پر اپنے نفس کی حفاظت کرحتی کہ وہ مطمئن ہو جائے اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرے۔اس مقام پرتو غیر کی طرف دھیان کر۔ اپنی مراد کے رستے کو لازم پکڑ ، دنیا و آخرت میں اللہ کی صحبت طلب کرے ۔ پرہیزگاری اور ماسوی اللہ سےتنہائی ویکسوئی اختیار کر، ہمہ وقت محورہ ،اپنے نفس کو امرونہی کے سوا کسی چیز میں ثابت نہ کر ۔ کیونکہ وہی تجھے ان میں ثابت رکھنے والا ہے۔
اسے مردو! اے عورتو! تم میں سے جس کسی کے پاس ایک ذرہ اخلاص، ایک ذرہ تقوی اور ایک ذرہ صبر وشکر ہوگا ٹھیک وہی نجات پائے گا۔ میں ان خصلتوں میں تمہیں مفلس ومحتاج دیکھ رہا ہوں ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 238،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 134دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان