چھبیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چھبیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السادس والعشرون فی عدم الشکوی الی الخلق ‘‘ ہے۔

  منعقدہ 20ذی الحجہ545ھ بمقام خانقاہ شریف

مصیبتوں کو چھپانا عرش کا ایک خزانہ ہے:

 رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا ز من كنوز العرش كتمان المصائب يا من يشكوا مصیبتوں کو چھپانا عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔“ اے خلقت کی طرف اپنی مصیبتوں کا شکوہ کرنے والے! خلقت کے پاس شکوہ  کا کرنا تجھے کیا نفع دے گا ۔ جو نہ تجھے نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان ،  اگرتوان پر بھروسہ کرے گا تو حق تعالی سے شرک کرے گا، وہ تجھے اللہ کے دروازے سے دور کریں گے اور غضب الہی میں ڈال دیں گے اورتجھے اس سے حجاب میں ڈال دیں گے  اے جاہل! تو علم کا دعوی کرتا ہے، اور دنیا کو ماسوی اللہ سے طلب کرتا ہے، یہ تیری جہالتوں کی ایک مثال ہے، تو

خلقت سے شکایت کر کے مصیبتوں سے خلاصی چاہتا ہے۔ تجھ پر افسوس ہے! حریص کتا شکار کی حفاظت کرنا سیکھتا ہے اور اپنی سابقہ عادت اور حرص کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح شکاری پرنده باز باشکراتعلیم کے باعث اپنی عادت کے خلاف کرتا ہے،  پہلے جن شکاروں کو خود کھا تا تھا ان سے رک جاتا ہے تمہارے نفس کو اس طرح سے سکھانا چاہتا ہے، اسے سکھاؤ اور سمجھاؤ تاکہ تمہارے دین اور جسم کو نہ کھائے ، اللہ تعالی کی جوامانتیں اس کے پاس رکھی ہوئی ہیں ان میں خیانت نہ کرے، ایمان والے کے پاس دین اس کا گوشت اور خون ہے، تعلیم سے پہلے نفس کی مصاحبت نہ کرو ۔ جب سیکھ لے اور سمجھ جائے اور اطمینان کا اظہار کرے تو اس وقت اس کا ساتھ دے، اور جدھر کومتوجہ کرے، ہر حال میں اس کا ساتھ دے، اس سے الگ نہ ہو ۔ جب مطمئن ہوگا تو برد بار  علم والا ہو گا، جو کچھ مقدر سے ملے گا اپنے نصیب پر راضی رہے گا ، تب میدے کی روٹی اور جو کی روٹی میں فرق نہ کرے گا ، نفسانی خواہشیں اس سے دور ہو جائیں گی ، کھانے سے، نہ کھانا اس کے نزدیک محبوب ہوگا۔ نیکی کے کام اور اطاعت اور خیرات میں تمہاری موافقت کرے گا۔ اس کی عادت بدل جائے گی بھی ، کریم ، تارک الدنیا اور آخرت کی رغبت کرنے والا ہو جائے گا، جب آخرت کو بھی ترک کر کے مولی کی طلب کرو گے تو وہ بھی طلب کرےگا، اس کے دروازے کی طرف تمہارے دل کے ساتھ چلے گا ۔ اس موقع پر تیرے پاس سابقہ امرالہی آئے گا اور کہے گا: نفس جو نہیں کھاتا تھا اب کھالے، اور جونہیں پیتا تھا اب پی لے۔“ عقل والا مریض طبیب کے ہاتھ کے سوا نہیں کھا تا اور نہ اس کے امر سے باہر ہوتا ہے، ہمیشہ اس کا حکم مانا اور ادب کرتا ہے، اس کی بات قبول کرتا ہے ، اس کی موجودگی اور رغبت میں اپنی حرص کو چھوڑ دیتا ہے۔ اے حریص! – اے جلد باز ! – جو کچھ تیرے لئے پیدا کیا گیا ہے ، تیرے سوا کون کھا سکتا ہے۔ تیرا لباس اور تیرا مکان اور تیری   عورت منکوحہ جو تیرے نصیب کے ہیں، کیا کوئی پہن سکتا ہے، یارہ سکتا ہے، یا اپنے نکاح میں لاسکتا ہے، یہ کیسی جہالت ہے کہ نہ تجھے قرار ہے، نہ سمجھ ہے نہ ایمان ہے اور نہ اللہ کے وعدے پر تصدیق ہے، نادان! جب کسی کریم شخص  سے معاملہ کرے  تو ادب سےرہ، اجرت اور غنا طلب نہ کر بے ادبی کے بغیر اور بے مانگے دونوں چیزیں مل جائیں گی، جب اسے معلوم گا کہ تو نے حرص اور طلب اوربے ادبی ترک  کر دیئے ہیں، تو دوسرے لوگ تجھ سے معاملہ  رکھنے والے ہیں ان کو الگ کر دے گا اورتجھے ان سے بلند جگہ پر بٹھائے گا اورتجھے خوش کر دے گا ۔ اللہ تعالی اعتراض اور جھگڑا کرنے والے کی مصاحبت نہیں کرتا،  جوشخص حسن ادب کو ملحوظ رکھ کر ظاہری اور باطنی سکون اختیار کرے اور ہمیشہ موافقت کرے، اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ جوشخص تقدیر الہی کی موافقت کرے اسے ہمیشہ اللہ تعالی کے ساتھ مصاحبت رہتی ہے، عارف باللہ اللہ کو چاہنے والا اور اس کے ساتھ قائم رہنے والا ہے اس کے غیر کے ساتھ نہیں ۔ اس کی موافقت کرنے والا ہے، غیر کا نہیں، اس کے ساتھ زندہ ہے، اس کے غیر سے مردہ!

ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔

اے بیٹا جب تو کلام کرے تو نیک نیتی سے کرو، اور خاموش رہو تو نیک نیتی سے خاموش رہو، جو شخص عمل سے پہلے نیت نیک نہ کرے اس کا عمل نہیں ہے،  نیک نیت کے بغیر اگر کلام کر و یا خاموش رہوتو گناہ میں مبتلا رہے گا۔ کیونکہ نیت ٹھیک نہیں ہوتی  تیری خاموشی اور کلام سنت نبوی کے خلاف ہیں، حالات میں تبدیلی اور رزق کی تنگی پر ایک لقمہ کی وجہ سے تم اللہ تعالی سے بددل ہو جاتے ہو، ایک نعمت کے زوال سے تمام نعمتوں کی ناشکری کرنے لگتے ہو،  گو یا تم بڑے زوروالے ہو کہ اللہ پر حکم چلاتے ہو کہ یہ کر ، اوریہ نہ کر ۔ اور ایسا کیوں کیا ، اور ایسا کرنا چاہئے تھا: کہتے ہو۔ ایسا کلام اللہ سے دوری اس کو غصہ کرنے اور رانده درگاہ ہونے کا باعث ہے۔اے فرزند آدم! تو ہے کون ، تیری حقیقت کیا ہے، تو ایک ذلیل وحقیر پانی سے پیدا کیا گیا ہے، اپنے رب کے سامنے ذلیل رہ اور اس کی تواضع کر، اگر توپرہیزگارنہیں تو اللہ کے ہاں تیری کوئی عزت نہیں ، اور اس کے نیک بندوں کے نزدیک تیری کوئی وقعت نہیں، دنیا حکمت سے بھری پڑی ہے جبکہ آخرت سب کی سب قدرت سے قائم ہے۔

 رزق حلال علم ضروری اورئیل میں اخلاص فرض ہے:

اے لوگو!تم پر نگہبان مقرر ہیں، اور تم اللہ تعالی کی وکالت میں رہتے ہو تمہیں کچھ خبر نہیں ، عقل مند بنو اور اپنے دل کی آنکھیں کھولو، جب تمہارے گھر میں بہت سے لوگوں کی جماعت آئے تو پہلے خود کلام نہ کر، بلکہ اس کا کلام جواب ہو ، اور غیرضروری سوال نہ کرو۔توحیدفرض ہے، طلب حلال فرض ہے، ضروری علم کی طلب فرض ہے، علم میں اخلاص فرض ہے، عمل پر معاوضہ کا چھوڑ نافرض ہے،کوئی بھی عمل بدلے کی نیت سے نہ کر ، فاستوں اور منافقوں سے دور بھاگ نیکوکاروں اور صدیقوں سے میل جول رکھو، اگر یہ مشکل در پیش آئے کہ صالح اور منافق میں فرق نہ کر سکو تو رات کو اٹھو اور دورکعت نفل ادا کرو ۔ پھر بارگاہ الہی میں دعا مانگو يا رب دلنى عـلـى الـصـالحين من خلقك دلني على من يدلني عليك ويطعمني من طعامك يسقيني من شرابك و يكحل عين قلبي بنور قربك و يخبرني بما رأى عيانا تقليدا (یہ  رفع مشکل کاعمل ہے)

”اے اللہ! اپنی مخلوق میں سے صالحین کی طرف میری رہنمائی فرما، ایسا شخص ظاہر کر جو تجھ پر میرے لئے رہبری کرے،  تیرے کھانے سے کھانا کھلائے ، اور تیرے پانی سے پانی پلائے ، ، اور میرے دل کی آنکھوں میں تیرے قرب کے نور کا سرمہ لگائے ، اور جس چیز کا خودمشاہدہ کرتا ہے اس کی مجھے خبر دے۔ اور سنی سنائی بات نہ بتائے ۔

اولیاء اللہ تمام موجودات پر خبر دار ہوتے ہیں:

اہل اللہ اللہ تعالی کے فضل سے کھاتے ہیں ، اور انس الہی کا شربت پیتے ہیں اور اس کے قرب کے دروازے کا مشاہدہ کرتے ہیں، صرف خبر پر قناعت نہیں کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں (مسلسل مجاہدہ اور ریاضت کرتے ہیں ، اور صبر کے ساتھ اپنے آپ اور مخلوق سے سفر کرتے ہیں، یہاں تک کہ سنی ہوئی خبران کے نزدیک آنکھوں دیکھی ( مشاہدہ) بن گئی اورجب و ہ رب تعالی کے پاس پہنچتے ہیں تو اس نے انہیں ادب اور تہذیب سکھائی اور حکمتیں اور اپنے علوم سکھائے ،اور اپنے امور مملکت پر انہیں مطلع فرمایا، اور انہیں بتایا کہ زمین و آسمان میں اس کے سوا کوئی معبودنہیں ہے، اور اس کے سوا نہ کوئی عطا کر نے والا ہے ۔ نہ ہی روکنے والا ہے،

دعا یہی ہے اللهم ارنا كما اريتهم مع العفو والعافية ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمیں بھی عفو و عافیت کے ساتھ ویسا ہی دکھادے کھلایا ہے، اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا نہ اس کے سوا کوئی حرکت دینے والا ہے، نہ ہی سکون دینے والا ہے، نہ کوئی اندازہ کرنے والا ہے – نہ ہی کوئی حکم لگانے والا ہے،نہ کوئی عزت دینے والا ہے ،نہ ہی کوئی ذلت دینے والا ہے۔ نہ کوئی غلبے والا ہے ۔ نہ کوئی اپنے بس میں رکھنے والا ہے،نہ اس کے سوا کوئی زبردست قدرت والا ہے ، نہ کوئی قہر والا ہے۔ جو کچھ اللہ کے پاس ہے سب دکھا تا ہے ، چنانچہ وہ ان کو اپنے دل اور باطن کی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ دنیا اور دنیا کی سلطنت کی ان کی نزدیک نہ کوئی قدر اور نہ وزن رہتا ہے ۔

دعا یہی ہے

اللهم ارنا كما اريتهم مع العفو والعافية واتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النّار

الہی ! ہمیں بھی عفوو عافیت کے ساتھ ویسا ہی دکھا دے جیسا کہ ان کو دکھلایا ہے، اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فر ما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچاۓ رکھ‘‘

تقوی دوا ہے اور اسے چھوڑ دینا بیماری ہے:

اے لوگو! تقوی کو چھوڑ دینے سے تو بہ کرو، تقوی دوا ہے اور اسے چھوڑ دینا بیماری ہے، تو بہ کرو، کیونکہ تو بہ دوا ہے اور گناہ بیماری ہے، رسول اکرم  ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ کرام سے ارشادفرمایا: ” کیا میں تم کو یہ بات نہ بتاؤں کہ تمہاری بیماری کیا ہے، اور تمہاری دوا کیا؟ ۔‘‘

صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’ہاں یارسول اللہ  ﷺ !‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:

”تمہاری بیماری گناہ ہیں اور تمہاری دوا تو بہ ہے۔“

تو بہ ایک درخت ہے، ذکر کی مجلسیں اور اللہ تعالی کی اطاعت اس کے لئے شفا ہے، تم ایمان کی زبان سے توبہ کرو، یقینا تمہیں نجات حاصل ہو جائے گی ، تم توحید اور اخلاص کی زبان سے کلام کرو تو بے شک تمہیں نجات حاصل ہو جائے گی اللہ کی طرف سے تم پر مصیبتیں آئیں تو ایمان کے ہتھیار سے مقابلہ کرو، ایمان ہی تمہیں بچانے والا ہے۔

خطبہ غوثیہ

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ جب خطبہ ارشاد فرماتے تو ہر مجلس میں خطبہ شروع میں تین بار الـحـمـد لله رب العالمین فرماتے ، ہر بارتھوڑی دیر کے لئے سکوت فرماتے ، پھر خطبہ ارشاد فرماتے۔ (نوٹ: یہ خطبہ زیر نظر کتاب کے شروع میں پیش کیا گیا ہے۔) ۔ پھر آپ وعظ شروع فرماتے اور غیبی فتوحات سے جو کچھ اللہ تعالی آپ کی زبان مبارک پر جاری فرماتا ،بغیر تقریر اور بغیر کسی تمہید کے وعظ شروع فرمادیتے ۔ اپنی مجالس میں حدیث شریف یا حکماء کے کلام میں سے کوئی کلمہ حکمت جو آپ کو یاد ہوتا اولا اسے تبر کا اپنے کلام میں پڑھا کرتے اور وعظ شروع کرتے اور اپنے وعظ کواس پر جاری کرتے تھے۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 188،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 111دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں