محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چھتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس والثلاثون فی اخلاص العمل للہ ‘‘ ہے۔
منعقده 2/ر جب 545 بروزمنگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
دنیا کے بازار میں وہی بیچو اور خرید و جس کا آخرت میں نفع ہو:
دنیا بازار ہے،ایک پل کے بعد اس میں کوئی نہ رہے گا ، رات کو سب بازار والے چلتے بنیں گے۔ کوشش کرو کہ اس بازار میں وہی چیز بیچواورخر یدو جس کا آخرت کے بازار میں نفع ہو کیونکہ پر کھنے والی اللہ کی ذات ہے جو بصیر ہے، آ خرت کے بازار میں اللہ کی توحید اورعمل میں اخلاص کا سکہ چلتا ہے، اور وہی تمہارے پاس کم یاب ہے ۔
جلد بازی سے کچھ ہاتھ نہیں آ تا:
اے اللہ کے بندے !عقل کر جلد بازی نہ کر، جلد بازی سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ، جلد بازی سے مغرب کا وقت صبح سویرے نہیں آ جا تا ۔ تو صبر کیوں نہیں کرتا کسی کام میں مت جا۔ یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو جائے اور تو وقت پر نماز ادا کرے، اور جو تیرے من میں ہے وہ پالے ۔ عقل کر اللہ اور اس کی مخلوق کے ساتھ ادب واحترام سے رہ ۔خلقت پر ظلم کرکے ایسی چیز نہ مانگ جو تیرے لئے ان کے پاس نہیں ہے۔ وکیل کی بات اس وقت تک نہیں مانی جاتی جب تک کہ اسے وکالت کی اجازت نہ ملے۔ اس کے بعد عطا و بخشش دیکھ لو گے ۔ اجازت نامے سے پہلے ایک ذرہ بھی نہیں ملتا۔ نہ ذرہ نہ کوئی تھیلی نہ در یا نہ قطرہ کچھ بھی اس کے اذن بنا نہیں ملتا، جب تک کہ وہ خلقت کے دلوں میں الہام نہ کر دے، تو عقل کر ، یہی عقل کی بات ہے، اللہ کے حضور میں ثابت قدم رہ ۔ رزق تو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا ہے، اور اس کے دست قدرت میں تجھ پر افسوس ہے کہ قیامت کے دن اللہ سے کس منہ سے ملے گا ، حالانکہ تو دنیا میں اس سے جھگڑ تا ہے تو اس سے منہ موڑ کر خلقت کی طرف دھیان کرتا ہے اور اس کے ساتھ شرک کرتا ہے، اپنی ضرورتیں خلقت کے سامنے پیش کرتا ہے۔اپنے کاموں میں خلقت پر بھروسہ کرتا ہے۔ بہت سے سوالیوں کے لئے خلقت کی محتاجی عذاب خداوندی ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے
وہ اپنا دامن پھیلاتے ہیں ۔ان میں سے ایسے بہت کم ہیں کہ جن کے حق میں سوال کرنا باعث نفرت نہ ہو۔ عذاب کی حالت میں سوال کرو گے تو محروم رہو گے تم پر عطائیں روک دی جائیں گی۔ اے بیٹا میرے نزدیک بہتر یہی ہے کہ اپنے ضعف کی حالت میں کسی سے کچھ نہ چاہو۔ نہ ہی تیرے پاس کچھ ہو، تو کسی کو پہچانے نہ تجھے کوئی پہچانے ، تو کسی کو دیکھے ، نہ تجھے کوئی دیکھے۔
تجھ میں کچھ ہمت ہے کچھ دے کسی سے نہ لے، خود خدمت کر اور کسی سے خدمت نہ لے، اولیاء اللہ نے اللہ کے ساتھہ اور اللہ ہی کے لئے عمل کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں انہیں اپنے عجائبات قدرت دکھائے اپنی مہربانی اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔
اسلام، ایمان اور ایقان آپس میں جڑے ہیں:
بیٹا ۔ اسلام نہیں تو ایمان نہیں ۔ ایمان نہیں تو ایقان نہیں ۔ ایقان نہیں تو اللہ کی معرفت اور اس کا علم بھی نہیں ، یہ در جات مرحلہ وار حاصل ہوتے ہیں۔ جب اسلام صیح ہوگا تو اللہ تعالی کے لئے تیری فرماں برداری قابل قبول ہو گی ۔ یہ استسلام ہے ۔ اپنے سب احوال میں حدود شرعی کی حفاظت کر اور انہیں اپنے اوپر لازم کر کے سب اللہ کے سپردکر دو، اپنا اور دوسروں کا معاملہ اس کے سپر دکر دو، خالق اور مخلوق کے ساتھ حسن ادب رکھو۔
نہ خود ظلم کر واور نہ ظالم کی مددکرو:
اپنے نفس اور غیر پرظلم نہ کرو، کیونکہ ظلم کے باعث دنیا و آخرت میں کئی اندھیرے جمع ہو جاتے ہیں، ظلم دل کو تار یک کر ڈالتا ہے، چہرے اور اعمال نامہ کوسیاہ کر دیتا ہے، چنانچہ نہ خود ظلم کرواور نہ ظالم کی مد دکرو ۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: بـنـادى مناد يوم القيمة ابن الظلمة اين أعوان الظلمة ابن من يرى لهم قلما اين لاق لهم دواة اجمعوهم واجعلوهم في تابوت من نار و
قیامت کے دن آواز دینے والا آواز دے گا۔ کہاں ہیں ظالم ، اور کہاں ہیں اس کی مدد کرنے والے، کہاں ہیں وہ جنہوں نے ان کے لئے قلم تیار کیا تھا۔ کہاں ہیں وہ جنہوں نے انکی دوات میں صوف ڈالا تھا، ان سب کو اکٹھا کرو، اور آگ کے صندوق میں بند کر دو ۔‘‘ تو خلقت سے بھاگ کر کنارہ کشی کر لے، اور اس بات کی کوشش کر کہ تو نہ مظلوم ہواور نہ ظالم بن ۔اگر ہو سکے تو مظلوم بن ظالم نہیں ( اگر کوئی ظلم کر ے تو صبر سے کام لے ) ، کمزور و مقہور بنو ، قاہروز ورآ ورنہیں ، مظلوم کے لئے اللہ کی مدد ہے جبکہ خلقت میں سے کوئی اس کی مدد کرنے والا نہ ہو، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
إذا ظلم من لم يجد ناصرا غير الحق عز وجل فإنه يقول لا نصرنك ولو بعد حين جب کسی پر ظلم ہو اور کوئی اس کی مدد کرنے والا نہ ہو، اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میری مظلوم بندے! میں تیری ضرورمد دکروں گا۔ اگر چہ کچھ دیر بعد ہو۔ صبر نصرت اور رفعت اور عزت کا باعث ہے ۔ التجا نہیں ہے: اللهم إنا نسئلك الصبر معك ونسئلك التقوى والكفاية والفراغ من الكل والاشتغال بك ” الہی! ہم تیرے ساتھ صبر کا سوال کرتے ہیں ۔ اور تجھ سے تقوی اور کفایت اور سب سے فراغت اور تیرے ساتھ مشغول ہونا ، اور تیرے اور ہمارے درمیان جو حجاب حائل ہیں ،ان کے اٹھا لینے کا سوال کرتے ہیں ۔‘‘ اللہ کے بندو! تمہارے اور اللہ کے درمیان جو واسطے ہیں، انہیں اٹھالو، کیونکہ واسطوں پر ٹھہرے رہنا حرص ہے ۔ ملک اور سلطنت اور غنا اور عزت اللہ ہی کے لئے ہے۔ اے منافق !تو کب تک دکھاوے اور منافقت سے کام لے گا، جس کے لئے تو منافقت کرتا ہے، اس سے تجھے کیا حاصل ہوگا؟ تجھ پر افسوس ہے تو اللہ سے شرم کیوں نہیں کرتا۔ عنقریب اس سے ملنے پر ایمان کیوں نہیں رکھتا ۔ ظاہری طور پر تو اس کے لئے عمل کرتا ہے اور باطن میں اس کے غیر کے لئے ۔ تو اسے فریب دینا چاہتا ہے اور اس کے حلم کی وجہ سے اس سے بخشش بھی چاہتا ہے، تو ایسی حرکت سے باز آ اور اپنی اس حرکت کی تلافی کر اللہ کے لئے اپنی نیت ٹھیک کر ۔ کوشش کر کہ اللہ کے لئے کی گئی نیک نیت کے بغیر تو ایک بھی نوالہ نہ کھائے اور نہ ایک قدم چلے اور نہ کسی طرح کا کوئی کام کرے، جب تو اس طرح سے کرنے لگے گا تو پھر جو بھی عمل کرے گا اللہ ہی کے لئے ہوگا، اس کے غیر کے لئے نہیں، تجھ سے ہر تکلیف دور ہو جائے گی ، اور یہ نیک نیت بندے کے لئے عادت بن جائے گی، جب اللہ تعالی کے لئے اس کی عبودیت صحیح ہو جائے گی تو پھر کسی معاملے میں بھی تکلف کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ اس کا اللہ سے تعلق ہو گیا ہے، جس کا اللہ سے تعلق ہو جا تا ہے ۔ اللہ اس کی کارسازی فرماتا ہے، اور اس بندے کو غنی کر دیتا ہے اور خلقت سے حجاب میں رکھتا ہے اسے خلقت کی حاجت نہیں رہتی ، سختی اور مشقت اسی وقت تک ہے جب تک کہ تو سفر کے لئے ارادے اور قصد میں ہے ۔ راہ طریقت پر چلتے چلتے تو اس تک جب پہنچ جائے گا، تیرے سفر کی مسافت طے ہوجائے گی تو قرب الہی کی منزل پر پہنچ چکا۔ تیرا تکلف اس وقت دور ہو جائے گا۔ اس کا انس تیرے دل میں گھر کر لے گا اور دن بدن بڑھنے لگے گا۔ پہلے کم ہوگا ، پھر رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اور تیرے دل کی ہرسمت میں پھیل جائے گا۔ اللہ کا انس جب پوری طرح سے بڑا ہوگا تو قرب الہی سے بھر جائے گا اور اس میں غیر کے لئے نہ کوئی گنجائش رہتی ہے ۔نہ دا خلے کا راستہ ۔ اگر تو اس مقام کو پانا چاہتا ہے تو احکام الہی پرعمل پیرا رہ اور جن کاموں کے کرنے سے منع کیا ہے ان سے باز رہ ۔ اچھائی، برائی ،امیری غریبی عزت و ذلت، دنیا و آخرت کے کم یا زیاده سب کام اس کے سپرد کر دو، عمل کرو اور ایک ذرہ برابر صلے کی تمنا نہ کرو۔تو عمل کئے جا، تیرا مقصود فقط اللہ کی رضا اور اس کا قرب ہودنیا و آخرت میں اس کی رضا اور قرب ہی جزا ہے صلہ ہے۔ دنیا میں قرب دل کے لئے ہے اور آخرت میں بدن کے لئے ہے ۔عمل کر اور ذرہ ودیناروں کی رغبت نہ کرو۔ اپنے عمل کی طرف نظر رکھ، بلکہ تمہارے اعضاء تو عمل میں مصروف ہوں اور دل عمل کرانے والے میں مشغول ہو، جب یہ مقام حاصل ہو جائے تو تمہارے دل کے لئے آنکھیں ہوں گی جن سے تو دیکھے گا۔ معنی بصورت اپنالیں گے۔غائب حاضر بن جائے گا۔ خبر ،مشاہدہ بن جائے گی ۔ بندہ جب اللہ کے لئے خود کواہل ثابت کر لیتا ہےتو اللہ اس کے ہر حال میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
– اللہ اس میں تغیر کرتا اور اسے بدلتا ہے، ایک حال سے دوسرے حال پر لاتا ہے، وہ سرتا پا باطن ہو جا تا ہے، وہ مجسم ایمان اور یقین اور معرفت اور قرب اور مشاہدہ بن جا تا ہے ، وہ دن بغیر رات کے روشنی بغیر تاریکی کے، صفائی بغیر میلے پن کے ۔دل بغیر نفس کے ،باطن بغیر دل کے، فنا بغیر وجود کے ،غائب بغیر حضور کے ہو جا تا ہے۔ وہ خلقت اور اپنے نفس سے غائب ہو جا تا ہے ۔
اس سب کی بنیاد اللہ تعالی کے ساتھ انس ہے،۔ جب تک کہ اللہ اور تیرے بیچ میں ایسا کامل انس نہ ہو جائے ، کلام نہ کر ، خلقت سے ایک قدم آگے چل ، تو ان سے ہونے والا نفع و نقصان دیکھ چکا، ان کو پرکھ چکا، اس سے ایک قدم دور ہو کر دیکھ اور اس کی موافقت نہ کر ۔ اسے بھی تو نے جانچ لیاء اللہ کی رضا کے لئے نفس سے دشمنی کر ، نفس اور خلقت دو آگ کے سمندر ہیں ، دونوں ہلاک کر دینے والے جنگل ہیں ۔ تو پختہ ارادہ کر کے ہلاک کر دینے والے اس جنگل سے نکل جا۔ اور سلطنت الہی میں داخل ہو جا نفس اور خلقت میں مبتلا رہنا بیماری ہے اور انہیں ترک کر کے اللہ سے ملنا دوا ہے ۔ اللہ نے بیماری بھی اتاری ہے اور اس کی دوا بھی ۔ سب بیماریاں اللہ کے پاس ہیں ، اور اس کے دست قدرت میں دوا ہے، اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہیں ۔اگر وحدت پر صبر کرو گے تو وحدت کا انس حاصل ہوگا۔
فقر پر صبر کرو گے تو غنا پاؤ گے۔پہلے دنیا کو ترک کر ، پھر آخرت کو طلب کر ، پھر آخرت کو ترک کر ، اور قرب مولی کو طلب کر پہلے طاقت کو چھوڑ ، پھر خالق کی طرف رجوع کر۔ تجھ پر افسوس ہے ۔ تو کیوں نہیں سوچتا کہ خلقت اور خالق ، دنیا و آخرت ، دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے ۔ رات اور دن سیاہی اور سفیدی ، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔
یہ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتے ، نہ ہی ان کے جمع ہونے کا تصور ہوسکتا ہے ، نہ ہی یہ صحیح ہوسکتا ہے نہ ہی اس سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے، یا تو خلقت کو اختیار کر یا خالق کو،دنیا کو اپنا لے یا آخرت کو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ خلقت تیرے ظاہر میں ہو اور خالق تیرے باطن میں،د نیا تیرے ہاتھ میں ہو اور آخرت تیرے دل میں، دونوں تیرے دل میں یکجا ہو جائیں، ایسا ہونا ناممکن ہے، تو اپنے نفس کے لئے دونوں میں سے جسے چاہے پسند کر لے۔ اگر دنیا کی طلب ہے تو آخرت کو دل سے نکال دے، اگر آخرت کی طلب ہے تو دنیا کو دل سے نکال سے، اگر اللہ کی ذات تیری مطلوب ہے تو دنیا وآخرت اور ماسوا اللہ کو دل سے نکال دے۔ کیونکہ تیرے دل میں ماسوا اللہ کا ایک ذرہ بھی ہوا تو تو قرب الہی کو نہیں دیکھ پائے گا، نہ اس کے ساتھ انس ثابت ہو گا، نہ اس کی طرف سے کوئی سکون مل سکے گا ۔جب تک تیرے دل میں ایک ذرہ برابر بھی دنیا ہوگی تو آخرت کو نہ دیکھ پائے گا ، جب تک تیرے دل میں ایک ذرہ برابر بھی آخرت ہوگی تو قرب الہی کو نہ پائے گا۔ عقل سے کام لے تو سچائی کے قدموں کے بغیر اللہ کے دروازے تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ جانچنے والا بڑادانا اورخبر رکھنےوالا ہے۔
تجھ پر افسوس ہے، خلقت سے چھپتا پھرتا ہے، خالق سے کیسے چھپ سکے گا۔ خلقت سے چھپنا تجھے کیا فائدہ دے گا، تو عنقریب خلقت کے نزدیک رسوا ہو جائے گا، تیرے ذرائع معاش تیری جیب اور تیرے گھر سے نکال لئے جائیں گے،اے کانچ کے ٹکڑے کو اپنے کھانے کے برتن میں چھوڑ دینے والے! جب کھائے گا تو تجھے پتہ لگ جائے گا، اے زہر کے کھانے والے! اس کا اثر جلد ہی تیرے جسم میں ظاہر ہونے لگے گا،۔ حرام کا کھانا تیرے دین کے بدن کے لئے زہر ہے، نعمتوں پر شکر نہ کرنا تیرے دین کے لئے زہر ہے، شکر کرنا چھوڑ دینے پر اللہ تعالی جلد ہی تجھے محتاج کر دے گا، تو خلقت کے سامنے ہاتھ پھیلانے ، اور اس کے دل سے تیرے لئے نرمی اٹھا لینے کی صورت میں سزا دے گا۔ اے اپنے علم پرعمل نہ کرنے والے،عنقریب تیراعلم تجھے بھول جائے گا، تیرے دل سے اس کی برکت اٹھ جائے گی، اے جاہلو ۔ اگر تم اللہ کو پہچان لیتے تو اس کی جزا وسزا کو جان لیتے ، تم اللہ اور اس کی خلقت سے بڑے ادب سے حسن سلوک کرو اور بے مقصد کے کام میں بات کرنا کم کر دو۔
چہ معنی دارد؟
ایک ولی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک نوجوان کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے کہا: اگر تو محنت مزدوری کرتا تو تیرے لئے کتنا اچھا تھا!۔ اسے نصیحت کرنے پر مجھےیہ سزادی گئی کہ میں چھ ماہ تک شب بیداری سے محروم رہا۔
اپنی حالت کو بدلوتو تبدیلی آئے:
اے بیٹا بیکار کی باتیں چھوڑ کر کام کی باتوں میں لگ جا، اپنے دل سے نفس کو نکال دے تا کہ تجھے بھلائی ملے ۔ کیونکہ نفس ہی میلا ہے جو اوروں کومیلا کرنے والا ہے، اسے نکال دینے سے ہی صفائی آ سکے گی۔ اپنی حالت کو بدلو گے تو تبدیلی آئے گی ۔ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلے۔“ اے بندے سن ! اے لوگو سنو! اے شرع کے مکلفو سنو! اے عقل والو! اے بالغوا – اللہ کا کلام اور اس کی خبر یں سنو! ۔ کیونکہ وہ کلام کرنے والوں میں سب سے سچا ہے ۔ اپنے نفسوں سے اللہ کی ناپسندیدہ چیزیں دور کرو، تا کہ جو کچھ اس سے چاہتے ہو وہ تمہیں عطا کرے، راستہ کھلا اور وسیع ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اس پر کیوں نہیں چلتے۔
اے لولے لنگڑو! اےا پا ہجو! اٹھ کھڑے ہو جاؤ ، اللہ کا دامن رحمت تھام لو، اچھے عمل کرو ، غفلت نہ کرو ۔ دین متین کی رسی کے دونوں سرے جب تک تمہارے ہاتھ میں ہیں ، اللہ سے ایسی مدد چا ہو کہ تمہارے نفسوں کی اصلاح ہو جائے ، تم ان پر سوار ہو جاؤ ور نہ وہ تم پر سوار ہو جائیں گے نفس دنیا میں برائی کا حکم کر نے والا ہے اور آخرت میں ملامت کرنے والا ہے ، جو چیز تمہیں اللہ سے روکے، اس سے یوں بھاگو جیسے حملہ کرنے والے درندے سے بھاگتے ہو،اللہ سے معاملہ طے کر لے، اس سے جو معاملہ کرتا ہے، فائدے میں رہتا ہے۔ جو اس سے محبت رکھتا ہے، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے۔ جو اللہ کا ارادہ کرتا ہے، اللہ اس کا ارادہ کرتا ہے۔ جواس کے قریب ہو، وہ اس کے قریب ہو جا تا ہے جسے اس کی معرفت نصیب ہوئی ،اسے اپنے نفس کی معرفت نصیب ہوئی۔ میری سنو اور اسے قبول کرو ۔ کیونکہ روئے زمین پر میرے سوا اور کوئی نہیں جو میری طرح سے بات کرتا ہوں ۔ میری دوسری حالت یہ ہے کہ خلقت کو خلقت کے لئے چاہتا ہوں اپنے لئے نہیں، اگر آخرت کی تمنا کرتا ہوں تو اپنے لئے نہیں انہی کے لئے ، جس جس کلمے سے میں بات کرتا ہوں ، اس سے صرف اللہ ہی کی رضا چاہتا ہوں، دنیا اور آخرت اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، میرے سامنے کیا وقعت رکھتے ہیں، وہ میری سچائی کو خوب جانتا ہے کیونکہ وہ ہر غیب کا جاننے والاہے۔ میرے پاس چلے آؤ ۔ میں کسوٹی پرکھنے والا ہوں۔ میں بھٹی اور ٹکسال (سکہ ڈھالنے والی مشین ) کا مالک ہوں۔
غیر خدا میں خدا کو دیکھنا خودفریبی ہے:
اے منافق اتو کیا بے ہودہ باتیں کر رہا ہے ۔ تیری الٹی سیدھی ہانکنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ تو کب تک میں میں کے چکر میں پڑا رہے گا، تو ہے کون؟ تجھ پر افسوس ہے، تیری نظر تو غیر خدا پر ہے اور کہتا ہے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں، تو غیر خدا سے انس رکھتا ہے اور کہتاہے کہ میں اللہ تعالی سے انس کرتا ہوں ، تو اپنے نفس کو راضی برضا بتلاتا ہے حالانکہ وہ فسادکر نے والا ہے، تو اپنے نفس کو صبر کرنے والا کہتا ہے جبکہ ایک مچھر تجھے بے چین کر کے ، ناشکرا بنادیتا ہے۔ مصیبتوں اور تکلیفوں کی کثرت تیرا گوشت جب تک مردہ نہ کر دے کہ آفتوں کی قینچیاں اسے کاٹ ہی نہ سکیں ، تو اس وقت تک بات نہ کر ، اس مقام پر تو سراپا خلوت ہو جائے گا۔ دنیا اور آخرت تیرے دل کو خالی کر دیں گے ، اور دنیا و آخرت اور جو کچھ ان میں ہے، ان سب کے لئے تو معدوم ہو جائے گا ، احکام کی فرماں برداری اور نافرمانی سے بچے رہنے کے لئے ” تیرا وجود ہوگا۔ کیونکہ اللہ تمہیں وجود دے گا اور اس کا فعل تمہیں حرکت وسکون عطا کرے گا، تو اس کے ساتھ اپنی ذات سے غائب رہے گا۔ جب تک تیرے لئے کوئی مقام صحیح ثابت نہیں ہوگا اللہ تعالی بندے کی ظاہری صورت کو نہیں چاہتا ، بلکہ اس کے باطن کو چاہتا ہے کہ اس کی توحید اخلاص کے ساتھ کرے، دنیا وآخرت کی محبت اپنے دل سے نکال دے، اور سب چیزوں کو دل سے دور کر دے ۔ جب یہ مقام پورا ہو جائے گا تو اللہ اسے اپنا محبوب بنا لے گا، اسے اپنا قرب عطا کرے گا اور اسےاوروں سے بلند کر دے گا۔ يـا واجـد وجـدنا لك خلصنا من الخلق واستخلصنا لك صحح دعا وينا ببينة فضلك ورحمتك طيب قلوبنا ويسر أمورنا إجعل الشتابك ووحشنا ممن سواك إجعل همومنا همّا واحدا وهوالهم بك و القرب منك دنيانا وأخراتاه رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( خدائے ) واحد! ہمیں اپنی توحید سکھا، اور ہمیں اپنی خلقت سے نجات دے، اور اپنے لئے خالص بنا لے، ہمارے دعوے کو اپنے فضل اور رحمت کے گواہوں کے ساتھ صحیح کر، ہمارے دلوں کو پاک کر دے اور مشکلوں کو آسان کر ، اپناانس ہما را نصیب کر ،غیر سے وحشت عطا فرما، ہماری سب فکروں کو ایک ہی فکر بنادے کہ ہماری دنیا اور آخرت ، تیرافکر اور تیرا قرب ہو۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائیاں عطا کرے ۔ اور آخرت میں بھلائیاں عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 243،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 137دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان