اس بیان میں کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے کامل تابعداروں کو ان کے تمام
کمالات سے بطریق تبعیت کچھ نہ کچھ حصہ حاصل ہے اور اس بیان میں کہ کوئی ولی، نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا اور اس امر کی تحقیق میں کہ تجلی ذاتی جو آنحضرت ﷺسے مخصوص ہے، کسی معنی سے ہے اور اس کے مناسب بیان میں عالی جناب مرزاحسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ صَلَوَاتُ اللهِ تَعَالىٰ وَتَسْلِيْمَاتُهٗ عَلَيْهِمْ وَعَلىٰ اَتْبَاعِهِمْ وَأَعْوَانِهِمْ وَخَزَنَۃِ أَسْرَارِهَمْ الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس طرف ہدایت کی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے۔ بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں۔ ان پر اور ان کے تابعداروں اور مددگاروں اور ان کے اسرار کے خزانچیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوۃ وسلام ہو۔
انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے کامل تابعدار کمال متابعت اور زیادہ محبت کے باعث بلکہ محض عنایت وبخشش سے اپنے متبوعہ انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں اور پورے طور پران کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں حتی کہ متبوعان(جن انبیاء کی پیروی کی گئی) اورمتابعان(اتباع کرنے والے اولیاء) کے درمیان سوائے اصالت اور تبعیت اور اولیت اور آخریت کے کچھ فرق نہیں رہتا باوجود اس امر کے کوئی تابعدار اگرچہ افضل الرسل کے تابعداروں سے ہو کسی نبی کے مرتبہ کو اگرچہ وہ تمام انبیاء سے کم درجہ کا ہو نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل ہیں ان کا سر ہمیشہ اس پیغمبر کے نیچے رہتا ہے جو تمام پیغمبروں سے نیچے درجے کا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے ارباب کے تعینات کے مبادی مقام اصل سے ہیں اور تمام اعلی واسفل امتوں اور ان کے ارباب کے مبادی تعینات اس اصل کے ظلال کے مقامات سے اپنے اپنے درجہ کے موافق ہیں پھراصل وظل کے درمیان کس طرح مساوات ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ بیشک ہمارے مرسل بندوں کے لئے ہمارا وعده ہو چکا کہ وہ فتحیاب ہیں اوریہی ہمارا لشکر غالب ہے۔
اور یہ جو کہتے ہیں کہ تجلی ذاتی جو تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے درمیان حضرت خاتم الرسل سے مخصوص ہے اور آنحضرت ﷺکے کامل تابعداروں کو بھی اس تجلی سے حصہ حاصل ہے وہ اس معنی کے لحاظ سے نہیں ہے کہ تجلی ذات انبیاء کے نصیب نہیں ہے اور تابعداری کے سبب ان کے کاملوں کو نصیب ہے۔ حاشاوکلا کہ کوئی اس سے یہ مطلب تصور کرے کیونکہ اس میں اولیاء کی انبیاء پرز یادت ہے بلکہ اس تجلی کا آنحضرت ﷺسے مخصوص ہونا اس معنی کے اعتبار سے ہے کہ دوسروں کو اس کا حاصل ہونا آنحضرت ﷺکے طفیل اور تبعیت سے ہے یعنی انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو اس تجلی کا حاصل ہونا آنحضرت کے طفیل ہے اور اس امت کے کامل اولیاء کو حضرت علیہ الصلوة والسلام کی تابعداری کے سبب سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام آنحضرت ﷺکی نعمت عظمٰی کے دسترخوان پر ان کے طفیلی اورجلیس ہیں اور اولیاء آنحضرت ﷺکے خادم پس خوردہ کھانے والے اور جلیس طفیلی اور خادم پس خوردہ کھانے والے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس مقام پر قدم لغزش کھا جاتا ہے۔ .
اس شبہ کی تحقیق میں اس فقیر نے اپنے مکتوبات اور رسالوں میں کئی قسم کی وجہیں ذکر کی ہیں اورحق وہی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مسودہ میں نقل کیا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اگر تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو آنحضرت ﷺکے طفیل میں تجلی سے کامل حصہ حاصل ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس ولایت خاصہ نے ان کی امتوں کے اولیاء میں اثرنہیں کیا ہے اور تجلی سے وافر حصہ حاصل نہیں ہوا ہے کیونکہ جب ان کی اصلوں میں یہ دولت طفیلی اور انعکاسی ہوتو فروع میں عکس العکس کے طریق پر کیا پہنچے۔ اس معنی کا مصداق کشف صریح ہے نہ استدلال عقلی۔
اور یہ جو پہلےمذکور ہوا ہے کہ کامل تابعدار کامل متابعت کے سبب اپنے متبوعوں کے کمالات جذب کر لیتے ہیں۔ مراد ان سے متبوعوں کے اصلیہ کمالات ہیں نہ کہ مطلقا تا کہ تناقض پیدا نہ ہو۔ بلکہ یہ لوگ انبیاء میں سے اپنے ہر ایک نبی کی مخصوصہ ولایت سے بہرور ہوتے ہیں اور سب امتوں کے درمیان یہی امت تابعداری کے سبب اس تجلی سے مخصوص ہے اور اس دولت عظمی سے مشرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امت خیرالامم ہے اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)
دل نے چاہا کہ اس ولایت خاصہ کے کچھ فضائل و خصائص لکھے لیکن وقت کی تنگی نے مدد نہ کی اور کاغذ نے کوتاہی کی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے علوم و معارف بھاری با ول کی طرح برس رہے ہیں اور عجیب وغریب اسرار پر اطلاع بخش رہے ہیں ۔ اس راز کےمحرم اپنی اپنی استعداد کے موافق میرے بزرگوار فرزند ہیں اور دوسرے یار چند روز حضور میں ہیں اور چند روز غیب میں اسی واسطے کہتے ہیں کہ ولی ہر چند ولی ہو۔ صحابی کے درجے کونہیں پہنچتا۔
آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق حد سے بڑھ کر ہے۔ صحیفه گرامی جواس حقیر کے نامزد فرمایا تھا اس کے پہنچنے سے مشرف ہوا۔ اعمال کو قاصر دیکھنا بڑی بھارت نعمت ہے لیکن توسط احوال تمام امور میں اچھا ہے۔ افراط تفریط کی طرف حد اعتدال سے باہر ہے۔
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ175 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی