اس بیان میں کہ کمال کے مرتبوں میں استعداد کی تفاوت کے موافق فرق ہوتا ہے۔شیخ حمید بنگالی کی طرف لکھا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ مراتب کمال میں استعدادوں کی تفاوت کے موافق تفادت ہوتا ہے اور کمال میں تفاوت بھی کمیت (مقدار)کے لحاظ سے ہوتا ہے اور کبھی کیفیت (حالت)کے اعتبار سے اور کبھی ان دونوں یعنی کمیت و کیفیت کی رو سے(ایک وقت میں)۔ پس بعض کا کمال تجلی صفاتی پر ہے اور بعض دوسروں کا کمال تجلی ذاتی تک ہے۔ باوجود بہت سے تفاوت کے جو ان دونوں تجلیوں کے افراد اور ان کے ارباب کے مابین ہے۔ پس بعض کا کمال ما سوائے حق سے دل کی سلامتی اور روح کی آزادی تک ہے اور دوسرے کا کمال ان دونوں کے علاوہ شہود(مشاہدہ) و سری تک اور تیسرے کا کمال ان تینوں کے علاوہ اس حیرت تک ہے جوخفی کی طرف منسوب ہے اور چوتھے کا کمال ان چاروں کے علاوہ اس اتصال تک ہے جواخفی کی طرف منسوب ہے۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)
مذکورہ بالا مراتب میں سے ہر مرتبہ میں کمال حاصل ہونے کے بعد رجوع قہقری(الٹے پاؤں لوٹنا تاکہ مخلوق کو دعوت دیں) کرتے ہیں یا اس مقام میں ثابت و برقرار رہتے ہیں۔ مقام اول تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے خلق کی طرف دعوت کیلئے رجوع کرتے ہیں اور دوسرا مقام استہلاک یعنی مغلوب الحال ہونے اورخلق سے تنہا رہنے کا مقام ہے۔ والسلام اولا وا خرا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ349ناشر ادارہ مجددیہ کراچی