اس بیان میں کہ عزلت اورگوشہ نشینی کے اختیار کرنے میں چاہیئے کہ مسلمانوں کے حقوق ضائع نہ ہوں اور حقوق اور اس کے مناسب بیان میں شیخ عبدالهادی بیا کونی کی طرف لکھا ہے:۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ میرے سعادت مند بھائی کا مکتوب مرغوب پہنچا۔ بہت خوشی حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ مفارقت اور جدائی کے زمانہ دراز نے محبت و اخلاص اور مودت و اختصاص میں کچھ تاثیر نہیں کی ۔ باوجود اس کے اگر آپ تشریف لے آتے تو بہت ہی مناسب ہوتا۔ اَلْخَيْرُ فِیْ مَاصَنَعَ اللهُ تعالیٰ بہتر وہی ہے جو الله تعالیٰ کرے ۔
آپ نے گوشہ نشینی کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ ہاں بےشک گوشی نشینی صدیقین کی آرزو ہے۔ آپ کو مبارک ہو ۔ آپ عزلت و گوشہ نشینی اختیار کریں لیکن مسلمانوں کے حقوق کی رعایت ہاتھ سے نہ دیں۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ) مسلمان کے حق مسلمان پر پانچ ہیں سلام کا جواب دینا بیمار پرسی کرنا جنازہ کے پیچھے چلنا دعوت کو قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا، لیکن دعوت کے قبول کرنے میں چند شرائط ہیں۔
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ اگر طعام مشتبہ ہو یادعوت کا مکان اور وہاں کا فرش حلال نہ ہو یا وہاں ریشمی فرش اور چاندی کے برتن ہوں۔ یا چھت یا دیوار پر حیوانوں کی تصویریں ہوں ۔یا باجے یا سماع کی کوئی چیز موجود ہو۔ یا کسی قسم کی لہو و لعب اور کھیل کود کاشغل ہو۔ یا غیبت اور بہتان اور جھوٹ کی مجلس ہو تو ان سب صورتوں میں دعوت کا قبول کرنا منع ہے۔ بلکہ یہ سب امور اس کی حرمت اور کراہت کا موجب ہیں اور ایسے ہی اگر دعوت کرنے والا ظالم یا فاسق یا مبتدع (بدعتی) یا شریریا تحلف کرنے والا یا فخر و مباہات کا طالب ہے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
اور شرعۃ الاسلام میں ہے کہ ایسے طعام کی دعوت قبول نہ کریں جو ر یا ء وسمع کے لئے تیار کیا گیا ہو۔ اور محیط میں ہے کہ جس بساط پرلہو ولعب یا سرود کا سامان ہو – یا لوگ غیبت کرتے اور شراب پیتے ہوں تو وہاں بیٹھنا نہیں چاہیئے جیسا که مطالب المومنین میں ہے۔
اگر یہ سب موانع موجود نہ ہوں تو دعوت کے قبول کرنے سے چارہ نہیں ہے لیکن اس زمانہ میں ان موانع کا مفقود ہونا دشوار ہے اور یہ جان لیں کہ ع
عزلت از اغیار باید نے زیار ترجمہ: غیر سےدوری نہ ہر گزیار سے
کیونکہ ہمرازوں کے ساتھ محبت رکھنا اس طریقہ علیہ کی سنت مؤکدہ ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمتہ الله علیہ نے فرمایا ہے کہ ہمارا طریق صحبت ہے۔ کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت اورصحبت سے مراد موافقان طریقت کی صحبت ہے نہ کہ مخالفان طریقت کی صحبت کیونکہ ایک کا دوسرے میں فانی ہواصحبت کی شرط ہے جو بغیر موافقت کے میسر نہیں ہوتا اور مریض کی عیادت سنت ہے۔ اگر اس مریض کا کوئی خبر گیر ہے اور اس کی بیماری پرسی کرتا ہے۔ ورنہ اس بیمار کی بیمار پرسی واجب ہے۔ جیسا کہ حاشیہ مشکوة میں کہا اور نماز جنازہ میں حاضر ہونے کیلئے کم از کم چند قدم جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے تا کہ میت کا حق ادا ہو جائے اور جمعہ جماعت نماز پنجگانہ اور نماز عیدین میں حاضر ہونا ضروریات اسلام سے ہیں ان سے چارہ نہیں اور باقی اوقات کوتبتل و انقطاع(تنہائی و گوشہ نشینی) میں بسر کریں ۔ لیکن چاہیئے کہ اول نیت کو درست کریں اور گوشہ نشینی کو دنیا کی کسی غرض سے آلودہ نہ کریں اور حق تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ باطنی جمعیت کے حاصل ہونے اور لا طائل اور بے فائدہ اشغال سے منہ موڑنے کے سواعزلت(گوشہ نشینی) سے اور مقصود نہ ہو اور نیت کے درست کرنے میں بڑی احتیاط کریں ایسا نہ ہو کہ اس کےضمن میں کوئی نفسانی غرض پوشیدہ ہونیت کے درست کرنے میں (اللہ تعالیٰ کے حضور)التجا وتضرع اور عجز و انکساری بہت کریں تا کہ نیت کی حقیقت میسر ہوجائے اور سات استخارے ادا کر کے درست نیت کے ساتھ عزلت اختیار کریں ۔ امید ہے کہ بڑے بڑے فائدے اس پر مترتب ہوں گے۔ باقی احوال کو ملاقات پر موقوف رکھا ہے۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ249 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی