محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سےگیارھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی عشر فی معرفۃ اللہ عز وجل ‘‘ ہے۔
منعقد ہ 29 شوال 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام مدرسه قادر یہ
وہی اول وہی آخر، وہی ظاہر وہی باطن ، وہی قدیم واز لی ہے:
اے لوگو! اللہ کی پہچان حاصل کرو، اس سے بے خبری نہ کرو، اس کی فرماں برداری کرو، نافرمانی چھوڑ دو ، اس کی موافقت کرو، اس کے خلاف نہ چلو، اس کی قضا وحکم پر راضی رہو، اس میں جھگڑا نہ کرو، اللہ کواسی کی بنائی ہوئی چیزوں (صنعت) سے پہچانو، وہی خالق ہے، وہی رازق، وہی اول ہے، وہی آخر، وہی ظاہر ہے، وہی باطن، وہی قدیم ہے، وہی ازل، وہی دائم ہے، وہی ابدی ،جو چاہے وہ کرنے والا ہے
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ” جو کچھ وہ کرے، پو چھانہ جائے گا۔ دوسرے جو کچھ کریں پوچھے جائیں گے ۔
وہی فنی کرنے والا، وہی محتاج کرنے والا ،وہی نفع دینے والا ، . وہی نقصان دینے والا ،وہی زندہ کرنے والا ، وہ موت دینے والا ۔
وہی سزا دینے والا ، وہی ڈرسنانے والا ۔وہی امید دلانے والا،اس سے ڈرو، اس کے غیر سے نہ ڈرو، اسی سے امید رکھو، اس کے غیر سے امید نہ لگاؤ،
اس کی حکمت وقدرت کے ساتھ چکر کھاتے رہو تا کہ اس کی تقدیر (قدرت ) تمہاری دانائی (حکمت) پر غالب آ جائے ، اس سیاہی سے جوسفیدی پر ہے، ادب سیکھو (یعنی قرآن مجید پر عمل پیرا ہو )، تا کہ جو چیز تم میں اور اس میں پھر رہی ہے، حاصل ہو جائے ، شرعی حدود ( جن کی طرف ظاہری اشارہ ہے باطنی نہیں ) تو ڑنے سے بچو ۔ اس درجہ تک، صالحین میں سے کوئی کوئی رسائی پا تا ہے، ہر ایک نہیں ، شرع کے دائرہ کار سے باہر ہمارے لئے کوئی حاجت نہیں، اس امر کی پہچان اس کو ہے جو اس کے اندر آئے ، فقط حال بیان کرنے سے اسے کوئی نہیں پہچان سکتا، تم اپنے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کمر باندھ لو ۔ آپ ﷺ نے جو کرنے کے لئے فرمایا، وہ کئے جاؤ ، اور جس سے روک دیا، اس سے باز رہو ۔ یہاں تک کہ مالک تمہیں اپنی طرف آنے کے لئے پیغام بھجوائے ( موت کا فرشتہ آ پہنچے)تب رسول اکرم ﷺ کا اکرام کرتے ہوئے ان سے اجازت چا ہو، اور درگاہ میں حاضر ہو جاؤ۔
ابدال کون ہیں ، ان کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟
ابدال کا نام ابدال اسی وجہ سے ہے کہ وہ اپنا ارادہ مشیت ایزدی کے خلاف نہیں رکھتے ، اس کے اختیار کے ساتھ اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتے ، ظاہری حکم پر حکم لگاتے ہیں ، اور ظاہری اعمال پر عمل کرتے ہیں ۔ پھر ایسے اعمال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ ( تنہائی میں) انہی کے لئے خاص ہیں، جب ان کی منازل اور درجات میں ترقی ہوتی ہے تو وہ امر ونہی کے بجالانے میں اور زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایسے مقام پر جا پہنچتے ہیں کہ جہاں یہ امر ہے اورنہ نہی ہے ۔ بلکہ ان سے اثر قبول کر کے شرعی احکام ان کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں ، اور یہ تنہائی میں ہوتے ہیں۔ بالعموم وہ خلقت سے غائب رہتے ہیں اور حق تعالی کی معیت میں رہتے ہیں، امر ونہی بجالانے کے وقت حاضر ہو جاتے ہیں ،امرونہی دونوں کے نگہبان ہوتے ہیں تا کہ حدود شرعی میں سے کوئی حد ضائع نہ ہو جائے ، فرض کی گئی عبادات کا ترک کرنا بے دینی ہے، جبکہ منع کی ہوئی چیزوں سے نہ ر کنا گناہ ہے، فرض کی گئی عبادت کسی شخص سے کسی حال میں ساقط نہیں ہوتی
رضائے الہی کے لئے نفس اورمخلوق کے خلاف ہو جا:
اے بیٹا! اللہ کے حکم و عمل کے ساتھ عممل کر، دائرے سے باہر نہ نکل ، قَالُوا بَلَى کا عہد نہ بھول،اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور عادت اور دنیا سے جہاد کر اللہ کی مدد سے نا امید نہ ہو، اس کی مدد تیری ثابت قدمی کے ساتھ آتی رہے گی ، ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ۔ دوسری جگہ ارشادفرمایا: فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ بیشک اللہ والے ہی غالب ہیں ۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا، ہم انہیں اپنے دربار کے کئی رستے بتاتے ہیں
خلقت کے پاس اللہ کا شکوہ کرنے سے اپنی زبان کو روک لے، رضائے الہی کے لئے نفس اورمخلوق کے خلاف ہوجا۔ اس کی فرماں برداری کا حکم دے اور نافرمانی سے روک ، انہیں گمراہی اور بدعت سیئہ اور حرص اور نفس کی موافقت سے باز رکھ ، انہیں کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کا حکم دے۔
قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے۔
اے لوگو! کلام الہی کا احترام کرو اور اس سے ادب کھو ۔ اللہ اورتم میں وصال کرانے والی یہی اللہ کی کتاب ہے ۔ اسے مخلوق نہ ٹھہراؤ اللہ فرماتا ہے ھذا کلامی میرا کلام ہے ۔ اورتم کہتے ہو کہ:’یہ اس کا کلام نہیں‘‘ جس نے اللہ کارد کیا اور قرآن کو مخلوق بتایا اس نے صریح کفر کہا، اور اللہ اس سے بیزار ہے – یہی قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہی قرآن سنا جا تا ہے۔ یہی قرآن دیکھا جا تا ہے۔ یہی قرآن صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، – یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔۔حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم نے فرمایا:
قلم مخلوق ہے ، جو اس سے لکھا گیا ( قرآن ) غیر مخلوق ہے، قلب ( دل ) مخلوق ہے، جو اس میں حفظ کیا گیا ( قرآن ) غیر مخلوق ہے ۔ اے لوگو! قرآن سے عمل کے ساتھ نصیحت پکڑو، اس میں جھگڑا نہ کرو، اعمال کثیر ہیں جبکہ اعتقاد کے کلمات تھوڑے ہیں، قرآن پر ایمان لاؤ ، اور دل سے تصدیق کرو، اور اعضاء سے عمل کرو، جو چیز نفع دینے والی ہے اس میں مشغول ہو جاؤ، ناقص اورر ذیل عقلوں کی طرف دھیان نہ دو،
در از زبان اور جاہل دل سے کچھ نفع نہیں:
اے لوگو اعقل سے نقل کا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا، نص کو قیاس سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ گواہ کو چھوڑ کر دعوے پر اکتفانہ کرو، لوگوں کا مال ثبوت اور گواہ کے بغیر محض دعوے سے حاصل نہیں ہوتا ، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ولَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْواهُم، لادَّعى رِجالٌ أموالَ قَومٍ ودِماءَهُم ولكن البَيِّنَةُ على المُدَّعي واليَمينُ على مَنْ أَنْكراگر کسی کو محض دعوی سے کچھ حاصل ہو سکتا تو ایک قوم دوسری قوم پر اپنے مال اور خون کا دعوی کرتی ، لیکن (یاد رکھو ) مدعی پر گواہ ضروری ہیں اور انکار کرنے والے پر قسم کھانا ‘‘۔ زبان دراز اور جاہل دل سےکچھ نفع نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ: خود مجھے خوف ہے ، اور امت پر خوف کرتا ہوں ،زبان دراز منافق سے ۔“
اطاعت الہی پر انعام و اکرام :
اے علم والو! اے جاہلو! اے حاضرو! اےغائیبو! اللہ سے حیا کرو اور اپنے دلوں پر نگاہ ڈالو!اس کے حضور میں ذلیل ہو جاؤ، اپنے نفسوں کو صبر کرنا سکھاؤ ،اپنے نفسوں کو تقدیر الہی کے گرزوں کے نیچے ڈال دو ۔ نعمتوں پر شکر کرتے ہوئے گرزوں کی ضربوں کو برداشت کرو، اللہ کی فرماں برداری میں روشنی کو اندھیرے سے ملا دو، اس کی عبادت میں رات دن ایک کر ڈالو، جب یہ سب تم کر گز رو گے تو اللہ کی طرف سے دنیا میں بزرگی اور عزت اور آخرت میں جنت حاصل ہوگی ۔
دنیا کی ہر شے کی محبت چھوڑ دے:
اے بیٹا! اس بات کی کوشش کر کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے تجھے محبت ہو، تو سب کی محبت چھوڑ دے ۔جب یہ مقام مل جائے تو تو : – ایک پل کے لئے بھی اپنے نفس کے ساتھ نہ چھوڑا جائے گا۔ اگر بھولے گا تو یاد دلا دیا جائے گا۔اگر غافل ہوگا تو بیدار کر دیا جائے گا، غرض نظر رحمت تمہیں غیر کی طرف دیکھنے کے لئے نہ چھوڑے گی ، جسے یہ ذوق حاصل ہوا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ اس طرح کے لوگ خلقت میں گنے چنے ہوتے ہیں جومخلوق کے پاس ٹھہر نانہیں چاہتے ،
اللہ کی محبت میں اپنی ہستی کو مٹا دینے والے
آفتیں اور بلائیں منافقوں کے دلوں کے سروں پر سوار ہیں ، اللہ کے ولی جب کبھی اپنے دلوں کی آنکھوں سے اللہ کے غیر کی طرف دیکھتے ہیں تو شرمسار ہو جاتے ہیں، اور اپنی سلامتی کے لئے مخلوق کی طرف سے (ایک طرح سے ) آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اللہ پر اعتراض کرنے سے بچنے کے لئے اپنی زبانیں (گویا) کاٹ لیتے ہیں،۔
اور اللہ کے ہاں سکون پانے کے لئے ، اس کے حضور پڑے رہتے ہیں ۔ رات دن ، مہینے اور سال ان پر گزرتے چلے جاتے ہیں، مگر وہ اس ایک حالت پر قائم رہتے ہیں ۔ اللہ کے لئے ان کے معمولات و معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اللہ کی مخلوق میں وہ سب سے بڑھ کر نقل والے ہیں ، اگرتم انہیں دیکھو تو دیوانہ کہو۔ اگر وہ تمہیں دیکھیں تو یہ کہیں کہ یہ لوگ قیامت کے دن پر ایمان ہی نہیں لائے ہیں ، ان کے دل غم زدہ اور ٹوٹے ہوئے ہیں، وہ ہمیشہ ڈرے ہوئے اور تر سے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالی جب ان کے دلوں پر اپنےجلال اور عظمت کے پردے اٹھا تا ہے تو ان کا خوف بڑھ جاتا ہے ، قریب ہے کہ ان کے دل پھٹ جائیں ، ان کا جوڑ جوڑ الگ ہو جائے ، اللہ تعالی جب ان کایہ حال دیکھتا ہے تو ان پر اپنی رحمت اور جمال مہربانی اور امید کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اس طرح سے ان کی ہر طرح کی بے قراری کو قرار آ جاتا ہے۔
دل میں غیر اللہ کو بسانے سے نجات نہ ہوگی :
مجھے تو طالب آخرت اور طالب مولی کے دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ مجھے طالب دنیا اورمخلوق اور نفس اور حرص سے کیا مطلب! ۔ سوائے اس کے کہ میں اس کے علاج سے محبت کروں، کیونکہ وہ مریض ہے، اور مریض سے طبیب کے سوا کون محبت کرتا ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ تو اپنا حال ان سے چھپاتا ہے جبکہ وہ ان سے چھپنا محال ہے ۔ اور مجھ پر یہ ظاہر کر تے ہو کہ تم طالب آخرت ہو، حالانکہ تم طالب دنیا ہو ۔ تمہارے دل کی حرص تمہارے ماتھے پر لکھی ہوئی ہے۔ تمہارے باطن کی بات تمہارے ظاہر سے ظاہر ہے، تمہارے ہاتھ کا دینارکھوٹا ہے، اس میں فقط ایک دانگ سونا ہے اور سب چاندی ہے،یہ کھوٹا سکہ مجھے نہ دکھا ، میں نے ایسے بہت دیکھے ہیں ، یہ مجھے دے دو، اور اس پر پورا اختیار بھی دو، تا کہ میں اس سے جتنا سونا ہے،الگ کروں اور کھوٹ کو پھینک دوں، تھوڑی مقدار میں کھرا بہت سے ردی مال سے بہتر ہے، اپنے دینار کے لئے مجھ پر بھروسہ کرو، میں سکہ بنانا جانتا ہوں ، میرے پاس اس کے لئے اوزار ہیں ۔ ریاء اور نفاق سے تو بہ کر، اپنے نفس پر گناہ کا اقرار کرنے میں جھجک محسوس نہ کر، کیونکہ اخلاص والوں میں سے اکثر پہلے منافق تھے ۔ اس لئے بعض صوفی یہ فرماتے ہیں:
لا يعرف الإخلاص إلا المرائي – اخلاص کونہیں پہچانتا سوائے ریا کار کے ۔‘‘ ایسے لوگ شاذ و نادر ہوتے ہیں جو شروع سے آخر تک مخلص ہوں ، شروع شروع میں بچے جھوٹ بولتے ہیں ،اورمٹی اور گندی چیزوں سے کھیلتے ہیں ، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ اپنے والدین کی چوریاں کرتے ہیں اور چغلیاں کرتے ہیں ، جب انہیں سمجھ آنے لگتی ہے تو ان کے عیب تھوڑے تھوڑے کم ہونے لگتے ہیں،ماں باپ اور استادوں کا ادب کرنے لگتے ہیں اور ان کے طریقوں پر چلنے لگتے ہیں۔
اللہ جس بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے ادب سکھا دیتا ہے اور برائیاں چھڑادیتا ہے، اور جس سے برائی کا ارادہ کرے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، چنانچہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں ، اللہ نے مرض اور علاج دونوں پیدا کئے ۔گناہ مرض ہے اور عبادت دوا، ظلم مرض ہے اور عدل دوا،خطا مرض ہے اور صواب دواء “- اللہ کی نافرمانی مرض ہے، اور گناہوں سے تو بہ دواء دوا کا اثر تب ہوگا جب اپنے دل سے مخلوق کو الگ کر دے گا ، اور اپنے دل کورب سے ملا دے گا، اس کی طرف ایسا بلند کرو کہ تیری روح آسمان پر اور گھر زمین پر ہو، اپنے علم کے ذریعے دل کے ساتھ اللہ سے تنہائی اختیار کرو، حکم کی تعمیل کے لئے مخلوق میں شامل ہو جاؤ،عمل کی کسی خصلت میں ان سے مخالفت نہ کرو تا کی عمل اور مخلوق کو تمہارے خلاف حجت نہ ر ہے ، ظاہری طور پر خلقت کے ساتھ رہو اور باطنی طور پر اللہ کے ساتھ رہو، اپنے نفس کو بے مہار نہ چھوڑو ۔ اگر تم اس پر سواری نہ کرو گے تو وہ سوار ہو جائے گا – اگرتم نہ ا سےبچھاڑو گئے تو و ہ تمہیں بچھاڑ دے گا،
اگر تمہارا نفس اللہ کی عبادت میں تمہاری تابع داری نہ کرے تو بھوک پیاس اور ذلت و برہنگی اور خلوت کے کوڑوں سے اس کی ایسی جگہ خاطر کرو جہاں کوئی اس کا غم خوار نہ ہو، جب تک تجھے اطمینان نہ ہو جائے ، اسے سزادے، اس کی کمر سے چابک نہ اٹھانا یہاں تک کہ مطمئن ہو کر ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری میں لگ جائے نفس کے اطمینان کے باوجودڈانٹ ڈپٹ کرتے رہو، اس سے کہو کہ کیا تو نے یہ اور وہ نہیں کیا ، ، اس طرح کرتے رہو یہاں تک کہ نفس بالکل انکساری کی حالت میں آ جائے ۔
ان سب باتوں پر مجھے جب ہی مد دمل سکتی ہے جب تو مراد الہی کا طالب ہو، اور اس کی موافقت کرے اور گناہوں سے بچے تمہارا ظاہر و باطن ایک ہو جائے ، موافقت کر ے مخالفت نہ کرے، اطاعات و عبادت ہو معصیت نہ ہو ، شکر ہو، ناشکری نہ ہو، ذکرویاد ہو،نسیان نہ ہو ۔ خیر ہی خیر ہو شر نہ ہو ،
جب تک غیراللہ کا تیرے دل میں بسیرا ہے، نجات وفلاح نہ ملے گی ،خواہ ہزار برس تک دہکتی آگ پر سجدہ کرے، اس حال میں کہ تیرا دل غیر اللہ کی طرف متوجہ ہو، اس سجدے کا ذرا فائدہ نہ ہوگا، نہ آخرت سدھرے گی اس حال میں کہ دل ما سوا اللہ کے ساتھ دوستی بنائے رہے، اللہ کی محبت میں ہرگز سعادت نہ پاؤ گے جب تک کہ سب کچھ ملیامیٹ نہ کر دو ۔ بظاہر چیزوں سے بے رغبتی ظاہر کرنا اور دل کا ان کی طرف دھیان کرنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ، کیا تجھے نہیں معلوم کہ جو کچھ سب کے سینوں میں ہے، اللہ کوان کی خبر ہے، حالانکہ تیرے دل میں اس کے غیر نے ڈیرہ جمارکھا ہے۔
جاہل علماء سے دھوکا نہ کھاؤ:
اے بیٹا! اللہ کی بردباری دیکھ کر مغالطہ میں نہ پڑ، اس کی پکڑ بہت سخت ہے، وہ علماء جو درحقیقت اللہ سے جاہل ہیں۔ دھوکا نہ کھاؤ، ان کا ساراعلم انہیں نقصان پہنچانے والا ہے نفع دینے والانہیں، وہ اللہ کے حکم کے عالم ہیں ، اس کی ذات سے جاہل ،لوگوں کو امرالہی بتاتے ہیں ،خودعمل نہیں کرتے ، جس کام سے روکتے ہیں ، خودنہیں رکتے ،خلقت کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، خود بھاگتے ہیں ۔ اپنی نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے اللہ کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ میرے پاس ان کے نام تاریخ وار لکھے اور گنے ہوئے ہیں
اللهم تب علي و عليهم و ھبنا كلنالنبيك محمد صلى الله عليه وسلم ولا بينا إبراهيم عليه السّلام و اللهم لا تسلط بعضها على بعض وانفع بعضنا ببعض وادخلنا كلنا في رحمتک امين الہی تو میری اوران کی توبہ قبول کر، اور ہمیں اپنے نبی ﷺ کے صدقے میں اور ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کے طفیل بخش دے،الہی ہمارے بعض کو بعض پر مسلط نہ کر اور ہمارے بعض کو بعض سے نفع دے ۔ اور ہم سب کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 77،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 54دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان