محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پہلی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الاول فی عدم الاعتراض علی اللہ ‘‘ ہے۔
منعقده 3 شوال 545 بروز صبح اتوار بمقام مسافر خانہ خانقاہ شریف
امور تقدیر کے نزول کے وقت ذات الہی پر اعتراض کر نادین و توحید کی موت ہے:
اللہ تعالی عزت وجلال والا ہے، امور تقدیر ( خواہ وہ امر خیر ہو یا امرشر ) کے نازل ہونے کے وقت بندے کا ( اللہ تعالی پر اعتراض کرنا ( بندے کے ) دین وتو حید (اللہ کو ایک جاننا) ۔ تو کل وبھروسہ، اخلاص ویقین وروح کی موت ہے ۔(جو ) بندہ مومن ہے )وہ تقدیری حادثوں میں ) چون و چرا ( کیوں اور کس لئے( کونہیں جانتا، بلکہ ( رب کی طرف سے اس آزمائش میں ) سرتسلیم جھکاتے ہوئے صرف ہاں کہتا ہے ۔ نفس تو کلی طور پر مخالفت اور جھگڑا کرنے والا ہے، جوشخص نفس کی اصلاح کرنا چاہے وہ نفس سے جہاد کرے تاکہ نفس کی برائی اور شرارت سے محفوظ ہو جائے ۔ کیونکہ نفسانی خواہشات ( تو اول تا آخر )شرارت در شرارت ہیں ۔ چنانچہ جب نفس کو مشقت میں ڈالا جائے گا (یعنی مجاہدہ کیا جائے گا ) نفس کی مخالفت کی جائے گی تب اطمینان حاصل ہوگا ،نفس کی ساری خواہشیں نیکیوں سے بدل جائیں گی ، اور نفس کلی طور پر سب گناہ چھوڑ نے اور اللہ کی عبادت کرنے کے لئے موافقت کرے گا اس لمحے ارشاد باری تعالی ہوگا: يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف لوٹ آ ‘‘۔ (اس حال میں کہ تو رب سے راضی ہے،نزول رحمت و مغفرت کے باعث اور تیری اطاعت وفرماں برداری کی وجہ سے تیرارب تجھ سے راضی ہے)۔ اس مقام پر (نفس کی ہر طرح کی شرارتیں دور ہو جاتی ہیں اور) سالک کو ذوق سلیم حاصل ہوتا ہے (نفس کا توکل وبھروسہ درست ہو جا تا ہے اور اس سے شک وشبہ زائل ہو جاتے ہیں اور اللہ کے سوا اس کا تمام مخلوقات سے (کسی ضررو مصیبت میں )کوئی تعلق واسطہ نہیں رہتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام رضا میں سرتسلیم خم :
اس مقام پر نفس مطمئنہ کے لئے اپنے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نسبت کامل ہو جاتی ہے۔کیونکہ انہوں نے ( نمرود کے دہکائے ہوئے الاؤ میں) ہر طرح کی خواہشیں ترک کر کے اپنی ہستی کو مٹاڈالا (یعنی اپنے نفس کوفنا کر دیا اور اپنے محبوب ( رب تعالی کی محبت میں کسی غیر کی مددکو شرکت جانا ۔ وہ روحانی طور پر اللہ کے قریب تھے (اس قربت نے فنا کے بعد بقاعطا کی ) ، قلب مبارک سکون سے معمور تھا ، اور آپ نے مقام رضا میں سرتسلیم خم کر دیا۔ مصیبت اور امتحان کے اس کڑے وقت میں آپ کے پاس سب مخلوقات حاضر ہوئیں اور (اپنی اپنی ہمت ، طاقت اور رسائی کے مطابق )آپ کو اپنی مدد کی پیش کش کی ۔ آپ نے فرمایا: مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے مالک کو میری حالت اور مصیبت کا بخوبی علم ہے، اس کی بار گاہ میں مجھے سوال کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رضائے الہی میں تو کل و تسلیم صحیح ہوا تو ارشاد باری تعالی ہوا:
قُلْنَا يَانَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ “ہم نے (آگ کو حکم دیا :اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا‘‘۔ جولوگ مصیبت پرصبر کر نیوالے ہیں، اللہ تعالی دنیامیں ان کی بے حساب مدد کرتا ہے، اورصبر کرنیوالوں کو آخرت میں بے شمارنعمتیں عطا فرمائے گا ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍصبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘۔ ( یعنی صابراتناثواب پائیں گے جس کا کوئی حساب و شمار نہ ہوگا )۔ جولوگ ( رضائے الہی کے لئے دکھ تکلیفیں برداشت کرتے ہیں تو اس سے تو کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں ، وہ سب کچھ جانتا ہے۔ بندے نے جب کئی سال اس کی مہربانیاں اور لطف وکرم دیکھے ہیں تو اگر مصیبت آ جائے تو اس گھڑی کی تکلیف پر صبر کرنا چاہئے ۔ اس ایک گھڑی کا صبر اعلی درجہ کی بہادری ہے۔جیسا کہ ارشادفرمایا: ” إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ – بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کی مدد اور نصرت (فتح) ہمیشہ شامل حال ہے ۔مصیبتوں کے ساتھ ساتھ صبر کرو۔ اللہ کے لئے خبر دار وہوشیارر ہو۔ اور اس راہ میں کسی قسم کی غفلت نہ کرو۔ تمہاری یہ خبر داری اور ہوشیاری موت کے بعد نہ ہو۔ کیونکہ اس وقت کی ہوشیاری کس کام کی ، بے نفع و بے فائدہ ہے ۔ تم موت سے ہم کنار ہونے سے پہلے (یعنی اللہ تعالی سے ملاقات سے پہلے ہی ہوشیار ہو جاؤ بیدار ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ تمہیں تمہارے ارادے کے بغیر بیدار کیا جائے از خود بیدار ہو جاؤ، ور تمہیں شرمندگی ہوگی ، اورایسے وقت میں تمہارا شرمندہ ہونا کچھ فائدہ نہ دے گا،۔سوچو اور اپنے دلوں کی اصلاح کرلو، کیونکہ دلوں کی اصلاح اوردرستی سے تمہاری سب حالتیں درست ہو جائیں گی
انسان کے دل کا معاملہ
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:’ أَلَا إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلَّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ’’انسان کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب یہ تندرست ہو جائے (سنور جائے تو سارا بدن تندرست (سنورا) رہتا ہے،۔ اور جب وہ بیمار ہو جا تا (بگڑ جا تا ہے تو سارا بدن بیمار ہو جا تا ( بگڑ جا تا ہے ۔ مطلع ہو جاؤ گوشت کا وہ ٹکڑ ادل ہے۔
پر ہیز گاری، خوف، اللہ پر توکل ، اللہ کی وحدانیت کا اقرار علم میں اخلاص (یعنی ہر کام اللہ ہی کے لئے ہے اس میں دکھاوے کا دخل نہ ہو۔ ) ، ان سب کے ہونے سے دل کا حال اچھا اور درست رہتا ہے اور ان سب کے نہ ہونے سے دل کا معاملہ بگڑ جاتا ہے، دل بدن کے پنجرے میں ایک پرندے کی طرح ہے، جس طرح موتی ڈبیہ میں ، جیسے مال خزانے میں، لہذا اعتبارتو پرندے کے ساتھ ہے نہ کہ پنجرے کے ساتھ ، اسی طرح موتی اور مال کے ساتھ ہے نہ کہ ڈ بیااورخزانے کے ساتھ ۔ ( یعنی انسان کو چاہئے کہ مقصود ذاتی اور عرضی ہی کو مد نظر رکھے ) ۔
دعا والتجاء: اللـهـم اشـغـل جـوارحنا بطاعتک ونور قلوبنا بمعرفتك واشغلنا طول حياتنا في ليلنا ونهارنا بمراقبتک والحقنا بالذين تقدموا من الصلحين وارزقنا كما رزقتهم وكن لنا كما كنت لهم امین
”اے اللہ! ہمارے سب اعضاء کو اپنی طاعت و بندگی میں مشغول کر دے اور ہمارے دلوں کو اپنی معرفت کے ساتھ منور کر دے اور ہمیں عمر بھر رات دن ( غرض کہ ہر وقت اپنے ہی خیال میں مصروف رکھ، اور تیرے جو نیک بندے ( ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، ہمیں ان کے (مراتب میں) برابر رکھنا اور ہمیں بھی ویسا ہی رزق اور حصہ عطا فرما جیسا کہ انہیں عنایت فرمایا اور ہمارے لئے بھی ویسا ہی ہو جا جیسا کہ تو ان کے لئے ہو گیا تھا۔آمین!۔
اللہ ہی کے ہور ہو
اے میری قوم کے لوگو! اللہ ہی کے ہور ہو جیسے کہ نیک بندے اس کے ہور ہے تا کہ تم پر بھی وہی انعام ہو جوان پر ہوا یعنی اللہ تعالی تمہارے لئے ویسا ہی ہو جائے جیسا کہ ان کے لئے ہوگیا تھا۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہارا ہورہے،تو (تمہیں چاہئے کہ تم اس کی طاعت میں لگے رہو، کوئی مصیبت آنے پر صبر کرو، اپنے اور اپنے غیر کے سب کاموں میں اللہ کی رضا میں راضی رہو، ۔ ایک جماعت نے دنیا کو ترک کیا ( بے رغبتی کی ) ، تقوی و پرہیز گاری اور دیانت داری سے دنیا میں طرح طرح کے فائدے اٹھائے ، پھر آخرت کی طرف متوجہ ہوئے ، اور اس کی طلب کے لئے عمل کئے ، نفس کشی کی ( نفسانی خواہشوں کو مارا ) اپنے پاک پروردگار کی فرماں برداری کی ، پہلے اپنے نفسوں کو نصیحت کی ، پھر اوروں کو وعظ ونصیحت کرتے رہے۔ (یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان کا شیوہ ر ہا)۔
پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو:
بیٹا! پہلے اپنی حالت درست کرو، پھر دوسرے کی طرف دھیان دو۔ تمہیں چاہئے کہ پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو۔ اس سے پہلے دوسروں کو وعظ ونصیحت نہ کرو اس لئے کہ تیرے پاس کوئی ایسی شے باقی نہ ہو جس کے باعث خود تجھےابھی اصلاح کی ضرورت و حاجت ہو، (یعنی ابھی کچھ عیب باقی ہیں جو کہ اصلاح طلب ہیں ۔ افسوس ہے تجھ پر کہ تو خود بینائی سے محروم ہے (اندھا ہے ) ، اوروں کو کیا راہ دکھائے گا ، دوسروں کی رہبری کیسے کرے گا ۔ راہ دکھانا تو بینائی والے ( آ نکھ والے )کا کام ہے۔ دریا میں ڈوبنے والے کو وہی بچا سکتا ہے جو خو دا چھی طرح سے تیرنا جانتا ہو اللہ کی طرف وہی لاسکتا ہے جو کہ خوداللہ کو پہچانتا ہو ( یعنی عارف کامل ہی اللہ کی طرف رجوع کرا سکتا ہے ۔ اور جو راہ سے ہٹا ہوا ہے ( گمراہ ہے، جاہل ہے ، وہ کسی کی کیسے رہنمائی کرسکتا ہے۔
جب تک تو خوداللہ کو نہ پہچان لے اور اسے دوست نہ رکھے ، اور تیرا ہر عمل بھی اس کے لئے نہ ہو ، تیرے کلام و وعظ بے فائدہ ہیں ، تجھے غیر سے کوئی واسطہ نہ ہو اور نہ اس کا ڈر، ڈر خوف صرف اللہ ہی کا ہوتصرفات الہی میں تجھے چون و چرا نہیں کرنا چاہئے ، آواز کی سختی اور زبان کی تیزی سے کلام و وعظ نہیں ہوتے بلکہ یہ کام تو دل سے ہوتا ہے، تنہائی ( خلوت ) کا کام بزم آرائی ( جلوت ) میں نہیں ہوتا ۔ جبکہ تو حید گھر کے دروازے پر ہو اور شرک گھر کے اندر،یہ سراسر نفاق ہے۔
افسوس ہے تجھ پر، کہ تیری زبان تو تقوی و پرہیز گاری کا اظہار کر رہی ہے جبکہ تیرادل ( زبان کے برعکس ) گناہ میں مبتلا ہے، زبان تو شکر ادا کر رہی ہے، جبکہ دل ناشکرا ہے، حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا ابْنَ آدَمَ خَيْرِي إِلَيْكَ نَازِلٌ وَشَرُّكَ إِلَيَّ صَاعِدٌ”اے آدم کے بیٹے میری طرف سے تو تجھ پرخیر و برکت کا نزول ہوتا ہے اور تیری طرف سے میری جانب برائی آتی ہے۔“
تجھ پر افسوس اس بات کا ہے کہ تو اللہ کاحقیقی بندہ ہونے کا دعوی کرتا ہے جبکہ اطاعت و تابعداری اس کے غیر کی کرتا ہے، اگر تو واقعی اس کا سچا بندہ ہوتا تو تیری دوستی اور دشمنی اللہ ہی کے لئے ہوتی ۔ سچا اور حقیقی مسلمان اپنے نفس اور شیطان اور اپنی خواہشوں کے پیچھے نہیں چلتا ( پیروی نہیں کرتا وہ شیطان سے کوئی شناسائی نہیں رکھتا جو اس کے پیچھے چلے ( تابع داری کرے) ،دنیا کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے سامنے جھکے اور ذلیل ہو۔ بندہ تو دنیا کو نا کارہ سمجھتا ہے اور آخرت کی طلب کرتا ہے اور جب آخرت کا حصول ہوتا ہے تو اسے بھی چھوڑ دیتا ہے اور اپنے مالک ومولی سے جا ملتا ہے، ہر وقت اس کی عبادت اس کے ملنے کے لئے کرتا ہے، جیسا کہ اس نے یہ ارشاد باری تعالیٰ سنا ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ اور انہیں یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں ہر ایک چیز سے کنارہ کش ہوکر‘۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ بس اللہ کو ایک جانو ( یہی اصل توحید ہے ) ، سب چیزیں وہی پیدا کرنے لا ہے، تمام چیزیں اس کے دست قدرت میں ہیں۔ غیر اللہ سے مراد یں مانگنے والے، یہ کہاں کی عقل مندی ہے، کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جو اللہ کے خزانے میں موجودنہیں۔ اس کریم نے قرآن پاک میں ارشادفرمایا:
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ اورکوئی چیز ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں‘۔
فضل واحسانات کی بارش:
اے بیٹا !تقدیر کے پرنالے کے نیچے صبر کا تکیہ لگا کر راضی برضا کا ہار گلے میں پہن لے اور کشائش کے انتظار میں عبادت گزار ہوکرمیٹھی نیند سو جا، جب تو ایسا کرے گا تو مالک تقد یر اپنے فضل واحسان سے تجھ پر ایسی نعمتیں نازل کرے گا کہ جن کی آرزو اور طلب کرنا بھی تجھے اچھی طرح سے نہ آ تا۔
تقدیر کی موافقت کرو
اے لوگو تقدیر کی موافقت کرو اور مالک کی رضا پر راضی رہو اور سید عبدالقادر کے کہے پرعمل کر و جوکہ تقدیر کی موافقت میں کوشش کرنے والا ہے تقدیر کی موافقت (ہی) نے مجھے قادر (مطلق) تک پہنچا دیا ہے۔
تقدیرشاہی قاصد ہے۔
اے لوگو! آؤ کہ تم اور ہم تقدیر اور امرالہی کے سامنے جھک جائیں، اپنے ظاہر اور باطن ہر دو حال میں سرتسلیم خم کریں اور تقدیر کی ہمر کابی کرتے ہوئے چلیں، کیونکہ تقدیرتو شاہی قاصد ہے تقدیر کے بھیجنے والے کی خاطرتقدیرکی تعظیم وتو قیر کرنا فرض ہے ۔ اور جب ہم اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کر یں گے تو اس کی رہنمائی میں ہم قادر مطلق ) تک پہنچ سکیں گے۔
هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ اس جگہ حقیقی ولایت وسلطنت اللہ ہی کی ہے ۔‘‘ (وہاں کسی پیادے یا سوار کودخل ہی نہیں وہاں خاص شہنشاہی حکم و احکام ہیں۔) وہاں قادر( مطلق ) کے پاس بحرعلم ( الہی) سے سیراب ہو، اس کے خوان فضل سے کھانا کھاؤ ، اور اس کی محبت سے انس حاصل کرو جو کہ تمہاری غم خوار ہوگی اور اس کی رحمت کے پردوں میں چھپ جانا خوش گوار اور مبارک ہوگا ، بارگاہ قادر سے یہ مقام ومرتبہ دنیا کے تمام قبیلوں اور کنبوں کے لاکھوں انسانوں میں سے کسی ایک صاحب نصیب (یعنی مقدر والے) شخص کو ملتا ہے ۔
باعمل علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں:
اے بیٹا! تو اپنے لئے پر ہیز گاری اور شریعت کی پابندی کو لازمی سمجھ نفس، حرص اور شیطان اور بدوں کی صحبت سے بچتارہ ان کے جہاد میں صاحب ایمان اپنے سر سے خود نہیں اتارتا -اپنی تلوار کو بے نیام رکھتا ہے، نہ زین اتار کر اپنے گھوڑے کی پشت بر ہنہ کرتا ہے ، زین پر ہی خواب کی مانند نیند کرتا ہے ۔
تو اولیاء اللہ کی طرح ہے کہ جن کا طعام ( کھانا )فاقہ ہے، ان کا بولنا ، کلام کرنا ضرورت کے وقت ہے، خاموش رہنا ان کی عادت ہے، اللہ کے امر (حکم) سے بات کرتے ہیں ایسا کرنا ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے دنیا میں اہل اللہ ، اس کی تحریک سے لب کھولتے ہیں ،دنیا میں ان کا بولنا اس طرح ہے جس طرح کہ قیامت کے دن سب اعضاء اللہ کے علم سے بات کر یں گے ۔ اللہ تعالی ان میں قوت کلام پیدا کرے گا ، جس نے کہ ہر ایک بولنے والے کوقوت گویائی عطا فرمائی ہے ۔ انہیں اس طرح بلاتا ہے جیسے وہ ( پتھروں وغیرہ ) جمادات کو گویا کر دیتا ہے، انہیں بھی قوت گویائی بخشتا ہے ۔ ان کے لئے گویائی کے اسباب مہیا کر دیتا ہے، اور پھر وہ بولنے لگتے ہیں ، جب انہیں کسی امر خاص پر بلانا مقصود ہوتا ہے تو اس کے لئے انہیں تیار کر دیتا ہے، جب اللہ نے چاہا کہ مخلوق کو اپنے عذاب سے ڈرائے ،خوف دلائے ،اوراپنی رحمت کی خوش خبری سنا ئے ۔ چنانچہ حجت قائم کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کو قوت گویائی عطا فرما دی ، جب اس گروہ یا اس کو اپنے پاس بلا لیا تو ان کے قائم مقام ( نائب کے طور پر ) باعمل علماء کو پیدا فرمایا اور انہیں ایسی قوت گویائی عنایت فرمائی جس سے کہ نبیوں کے نائب بن کر مخلوق کی اصلاح کر سکیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. ” (باعمل ) علماء ( ہی ) انبیاء کے وارث ہیں ۔
اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا:
اللہ کے بندو! اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو، اور خاص اس کی عنایت کی ہوئی خیال کرو، کیونکہ اس نے ارشاد فرمایا:
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ”جو کچھ نعمتیں تمہیں پہنچ رہی ہیں سب اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔‘‘ اس کی نعمتوں میں عیش کرنے والو! تم سے ان نعمتوں کا شکر کہاں ہے؟ – غافلونعمتیں وہ عطا کرتا ہے تم انہیں اس کے غیر کی طرف سے خیال کرتے ہو، اورکبھی تم انہیں محدود سمجھ کر ان نعمتوں کے انتظار میں رہتے ہو جو ابھی حاصل نہیں ہوئیں اور کبھی ان نعمتوں کے ذریعہ نافرمانی کی راہ چل پڑتے ہو۔
بادشاہ حقیقی کے در پر آؤ
اے بیٹا! گوشہ تنہائی میں تجھے ایسی پرہیز گاری اختیار کرنی چاہئے جو نافرمانی اور بے راہروی سے نجات دلائے اور ایسا مراقبہ کرو کہ جو تجھے اللہ تعالی کی نظر رحمت اور شفقت ( جو تیری طرف ہے ) کی یادولائے تم محتاج اور بے قرار ہو کر چاہتے ہو کہ یہ نظر رحمت گوشہ تنہائی میں تمہارے ساتھ ہو۔پھر تجھے نفس حرص اور شیطانوں سے لڑائی کی سخت ضرورت ہے تاکہ تو انہیں زیر کرے۔
بڑے (بزرگ) لوگوں کی خرابی و تباہی لغزشوں ( غلطیوں کوتاہیوں ) سے ہے زاہدوں کی خرابی نفسانی خواہشوں سے ہے۔ اور ابدالوں کی خرابی وبربادی تنہائی میں فکر اور خطرات سے ہے، اور صدیقوں کی خرابی نظر کے بھٹکنے سے ہے ، ان کی مصروفیت اور ان کا کام تو اپنے دلوں کی حفاظت ہے کہ غیر اللہ سے دلوں کو نظر میں رکھیں ) ، کیونکہ وہ بزرگ تو بادشاہ کے دروازے کے نگہبان و محافظ ہیں، وہ مخلوق خدا کو اس کی معرفت ( معرفت الہی ) کی طرف بلانے والے ( دعوت دینے کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اور ہر وقت زندہ دلوں کو آوازیں دیتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں: اے سلامتی والے دلو! اے راستی والی روحو! اے انسانو!،اے جنو ! اے مولی کی طلب رکھنے والو! بادشاہ حقیقی ومالک کے در پر آؤ، تم اپنے دلوں کے پاؤں اور تقوی وتوحید اور کامل پرہیز گاری کے قدموں سے بڑھو، ترک دنیا و ما سوا اللہ اور معرفت، ان سب کے قدموں کے ساتھ ( مقامات طے کرتےہوئے دوڑے چلے آؤ۔“
ان پاک باز لوگوں کا یہی منصبی فرض ہے، ان کا کام مخلوق کی اصلاح ہے۔آ سمانوں اور زمین عرش عظیم سے لے کر فرش زمین تک (غرض کہ ہر جگہ ان کا تصرف جاری وساری ہے۔
ایمان زندگی ہے، کفر مردنی ہے :
اسے بیٹا!اپنی نفسانی خواہشوں اور حرص کو چھوڑ دے اور ان پاکباز لوگوں کے قدموں میں مٹی کی طرح بچھ جا،ان کے سامنے خاک کی طرح مٹ جا ، جیسا کہ اللہ تعالى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ (یعنی زندہ کو مردے سے نکالتا ہے، اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے) ۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے والدین سے جو ( کفر کی وجہ سے مردہ تھے، نکالا، ایمان والا ( مؤمن ) زندہ ہے اور کفر والا کافر مردہ ہے، خدا پرست (اس کی وحدانیت کا اقرار کر نے والا ) زندہ ہے ، بت پرست ( کفروشرک کرنے والا مر دہ ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے کلام ( حدیث قدسی میں ارشاد فر مایا ہے أَوَّلَ مَنْ مَاتَ مِنْ خَلْقِي إِبْلِيسُ-”میری مخلوق میں سب سے پہلے مرنے والا ابلیس ہے ۔“ یعنی اس نے میری نافرمانی کی اور اس گناہ کی وجہ سے اس (کے ایمان کی موت واقع ہوگئی ، اور وہ مردہ ہو گیا ( یعنی گناہ کرنا ایمان والے کے لئے موت ہے ۔ یہ آخری زمانہ جھوٹ اور نفاق کا بازار گرم ہے، اس لئے (احتیاط کا تقاضا ہے کہ منافقوں،جھوٹوں اور دجالوں کے پاس ہرگز نہ بیٹھو۔
منافق نفس کی ہم نشینی اور شیطان کا دوستانہ
افسوس کہ تیر انفس منافق ، جھوٹا ، کفر کر نے والا ہے ، فاسق و فاجر اور شرک کرنے والا (غیر اللہ کا پیرو ) ہے، تیری اور اس کی کیسے بن آئے۔ تو اس کی مخالفت کر موافقت بند کر ، اسے زنجیروں سے باندھ دے، آزاد انہ چھوڑ ، اسے قید کر دے ۔ اس سے جو مشقت کا کام لینا ہے وہ ضرور لے، نفس کو عبادت اور مجاہدوں سے کچل دے۔ نفسانی خواہشوں پر سوار ہو جا، یہ نہ ہو کہ وہ تم پر سوار ہو جائیں ، طبیعت کا کسی حال میں ساتھ نہ دے:
کیونکہ وہ تو دودھ پیتے بچے (طفل شیرخوار ) کی طرح ہے جسے کسی طرح کی سمجھ بو جھ ہی نہیں ہے، تم ایک دودھ پیتے بچے کی بات مان کر کس طرح اس سے کچھ سیکھ سکتے ہو ، اور اس کے کہے کو کیسے مان سکتا ہے، رہی بات شیطان کی تو شیطان تمہارا اور تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا دشمن ہے تم کس طرح اس کی طرف مائل ہو گئے اور اس کی بات مانو گے، حالانکہ تمہارے اور شیطان کے درمیان قدیم دشمنی اور (ہابیل کا )خون ہے، اس کا اعتبار نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارے ماں باپ ( حضرت آدم وحواعلیہما السلام) کا قاتل ہے، لہذا ( حیلے بہانے سے ) جب وہ تم پر قابو پالے گا تو ( جھانسا دے کر) تجھے بھی تیرے والدین کی طرح قتل کر دے گا ، چنانچہ تو تقوی کو اپنا ہتھیار بنالے، اللہ کی توحید اور اس کا مراقبہ اور خلوت میں پر ہیز گاری اور صدق اور اللہ سے مدد چاہنے کو اپنا لشکر بنا، یہ ہتھیار اوریہ لشکر ایسے ہیں جو شیطان کو شکست فاش دے کر اس کی جڑ کاٹ دیں گے اور اس کے لشکر کو ملیامیٹ کر دیں گے اور تم شیطان کو شکست دینے میں کیسے کامیاب نہ ہو گئے جبکہ حق تعالی ( اس کی شکست کے لئے) تمہارے ساتھ ہے۔
اللہ کی طرف یکسوئی کیسے ہو:
اے بیٹا! دنیا اور آخرت کو ملا کر ایک ہی جگہ پر کر دے، دونوں جہان ( دنیا و آخرت) سے بے نیاز ہو کر اپنے مالک ومولی کی طرف یکسوئی اختیار کرو، تیرے دل میں دنیا و آخرت کی محبت وطلب نہ ر ہے ۔ ماسوی اللہ کو ترک کر کے گوشہ نشیں ہو جا اور اللہ کی طرف متوجہ ہو خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی قید میں مت پھنسو، ان سب اسباب سے لاتعلق ہو جا، ان خواہشات نفسانی سے دامن چرالے، چنانچہ جب تجھے اس طرح قدرت حاصل ہو جائے تو (یہ طریقہ اختیار کر کہ ) دنیا نفس کے لئے ، آخرت کو دل کے لئے اور مولی کی محبت کو باطن کے لئے رہنے دے۔
حقیقی تو بہ دل کے اعمال سے ہے:۔
اے بیٹا !نفس اور حرص اور دنیا وآخرت کے پیچھے نہ چل صرف اللہ ہی کے ہور ہو، حالانکہ تمہارے ہاتھ ایسا خزانہ لگا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ایسا کرنے سے تجھے اللہ تعالی سے ایسی ہدایت ملے گی جس کے بعد گمراہی نہیں ہے، تو گناہوں سے تو بہ کر کے اپنے رب کی طرف دوڑ جا۔ تو جب تو بہ کرے تو زبان اور دل ( ظاہر و باطن ) دونوں سے تو بہ کر توبہ کا مطلب ہے ) تیرے دل کے لباس کا پلٹ دینا، تو اپنے دل کی چادر پلٹ دے گناہوں کا لباس خالص توبہ اور حقیقی طور پر اللہ سے شرمندہ ہو کر اتاردے حقیقی توبہ دل کے اعمال سے ہے جو ظاہری اعضاء کوشرعی اعمال سے پاک کر لینے سے ہو۔ بدن کیلئے الگ عمل ہے اور دل (قلب) کیلئے الگ دل جب عالم اسباب اور مخلوق کے تعلقات کو ترک کر دیتا ہے تو توکل اور معرفت کے سمندر میں سوار ہوتا ہے، اور بحرعلم الہی میں غوطے لگا تا ہے، یوں سبب کو چھوڑ کر سبب بنانے والے(مسبب) کو طلب کرتا ہے، ایسا شخص جب سمندر کے بیچ میں پہنچتا ہے تو اس وقت وہ کہنے لگتا ہے
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ “جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی مجھے ہدایت دے گا ۔ اللہ تعالی اس سالک کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک رہنمائی فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ سیدھے راستے (صراط مستقیم) پر جا نکلتا ہے۔ اس سفر میں جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو راستے کی خرابی اور بھول بھلیاں دور ہو جاتی ہیں، راستہ روشن ہوتا چلا جاتا ہے- طالب (الہی) کا دل منزلیں طے کرتا ہوا ہر ایک چیز (ماسوا اللہ کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے، اور اگر کبھی راستے میں اسے ہلاکت کا خوف ہو تو و ہیں اس کا نور ایمان ظاہر ہوکر دل کی ڈھارس بندھا دیتا ہے۔ وحشت اور خوف کی آگ سرد پڑ جاتی ہے، اور اس کے بدلے میں انس کی روشنی اور قرب الہی کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
اہل ایمان اور دوزخ کا ڈر
اے بیٹا! اگرکوئی بیماری یا تکلیف آئے تو اس کا صبر کے ہاتھوں سے استقبال کر اللہ تعالی کی طرف سے دوا آ نے تک تسکین خاطر جمع رکھ ۔ دوا آ جائے تو اس کا شکر کے ہاتھوں سے استقبال کر۔( اس لئے کہ مصیبت آنے پر صبر کرنا اورنعمت ملنے پرشکر کرنے کا حکم ہے۔) اس حالت میں تجھے بہت جلد عیش و شادمانی حاصل ہوگا ۔
دوزخ کی آگ کا خوف اہل ایمان کے جگروں کو چھلنی ، چہروں کو زرداور دلوں کوغم زدہ کر دیتا ہے۔ اس مقام پر جب وہ ثابت قدم ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کے دلوں پر اپنی مہربانی کے دریا سے رحمت کا پانی برساتا ہے، ان کے لئے آخرت کا دروازہ کھول دیتا ہے، انہیں ان کے مقام دکھا دیئے جاتے ہیں، طالبان حق کو جب سکون اور اطمینان اور کچھ راحت میسر آتی ہے، تو اللہ تعالی ان پر اپنے جلال کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس عالم میں ان کے دل کو پاش پاش اور اسرار ( باطن) کوٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ یہ حال انہیں پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ کر دیتا ہے، ان کی یہ حالت جب اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو پھر ان پر اپنے جمال کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ انہیں سکون ملتا ہے، اطمینان حاصل ہوتا ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں ۔ اور یوں انہیں یکے بعد دیگرے اپنے اپنے مقامات اور درجات حاصل ہو جاتے ہیں۔
بندگی و بندہ ہونے کا اظہار آ زمائش کے وقت ہوتا ہے:
اے بیٹا تجھے کھانے پینے ، لباس پہننے، نکاح وشادی کرنے ، گھر بار اور جمع پونچی کرنے کی سوچ اور فکر نہ ہونے چاہئے ، یہ تو نفس اور طبیعت کی ضرورتیں ہیں ، قلب و باطن کی ضرورت نہیں ، قلب و باطن کو مولی کی سچی طلب ہے۔ تیری ضرورتوں نے تجھے کس قدر غم زدہ کر دیا ہے، (یعنی تیری ضرورت نے تجھے فکر میں ڈال رکھا ہے ۔ تیری ضرورت صرف وہی کچھ ہونا چاہئے اللہ تعالی اور جو کچھ اس کے پاس ہے، دنیا کا بدلہ آ خرت ہے اور مخلوق کا بدلہ خالق ہے۔ جو کچھ تم ( عمل کی صورت میں دنیا میں چھوڑو گے اس کا بدلہ اور اس سے بہتر آخرت میں پاؤ گے (سوچو کہ اگر تمہاری زندگی کا ایک ہی دن باقی ہے تو آخرت کی تیاری کر اور موت کے فرشتے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجا۔ دنیا لوگوں کے لئے کچھ ہی دیر میں ختم ہونے والی ہے جبکہ آخرت ان کے آباد ہونے کا مقام ہے۔ جب غیرت الہی جوش میں آتی ہے تو ان کے اور آخرت کے بیچ میں حائل ہو جاتی ہے۔ یہاں تکوین کو آخرت کا قائم مقام کر دیا جا تا ہے، آخرت کی جگہ خاص نعمتیں ملتی ہیں تو انہیں نہ دنیا کی طلب رہتی ہے اور نہ آخرت کی حاجت رہتی ہے۔
اےجھوٹے !دنیا کے طلب کرنے والے !نعمت کی حالت میں تو اللہ سے محبت کا دعوی کرتا ہے، اور جب اس کی طرف سے کوئی پریشانی آتی ہے تو اس طرح بھاگتا ہے گویا کہ اللہ تعالی سے تجھے محبت ہی نہ تھی ، بندے کی اصلیت آزمائش کے وقت کھلتی ہے ۔ اللہ کی طرف سے مصیبت آنے پر اگر تم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تو تم واقعی اس سے محبت کرنے والے ہو۔ اور اگر مصیبت میں گھبرا گئے ، ڈگمگا گئے تو پہلے کا کیا کرایا بیکار جائے گا اور ساتھ ہی تمہارا ( محبت کا جھوٹا دعوی ظاہر ہو ۔ جائے گا۔
محبت میں سب آزمائشیں ہیں:
ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
یارسول اللہ ﷺمیں آپ سے محبت رکھتا ہوں ۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: فقر ومحتاجی کی مصیبتیں اٹھانے کے لئے تیار ہوجا ،اورفقر کی چادر اوڑھ لے ۔‘‘ ایک اور شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کرنے لگا: “یارسول اللہ ﷺ میں اللہ تعالی کومحبوب رکھتا ہوں ۔“ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا: تو بلا ومصیبت کے لئے چادر بنالے۔“
اللہ اور رسول کی محبت میں مصیبت اور فقر کی برداشت لازمی ہے، اسی لئے ایک عارف کامل نے فرمایا: ”محبت میں سب قسم کی مصیبتیں (آزمائشیں ) ہیں ۔اگر تم دعوی محبت نہ کرو تو بچے رہو۔ ایسا نہ ہوتو ہر ایک شخص اللہ تعالی کی محبت کا دم بھرنے گئے لہذا فقر اور مصیبت پر ثابت قدم رہنے کواللہ اور رسول کی بنیاد قرار دیا گیا۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطافرما۔ اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھے۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 10،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 14دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان