عالم امر کے جواہر خمسہ کوشرح تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں ۔ ملا حاجی محمد لاہوری کی طرف لکھا ہے:۔
دونوں جہان کی سعادت کا نقد دونوں جہان کے سردار حضرت محمد ﷺ کی اتباع پر وابستہ ہے۔ وہ فلسفی جس نے اپنی بصیرت کی آنکھ میں صاحب شریعت ﷺکی تابعداری کا سرمہ نہیں ڈالا۔ عالم امر کی حقیقت سے اندھا ہے۔ چہ جائیکہ اس کو مرتبہ وجوب کا شعور ہو۔ اس کی کوتاہ نظر عالم خلق پرلگی ہوئی ہے اور وہاں بھی ناتمام ہے۔
جواہر خمسہ( صورت ،ہیولیٰ جسم، نفس اور عقل ) جو اہل فلسفہ نے ثابت کیے ہیں سب عالم خلق میں ہیں ۔ نفس و عقل کو جو مجردات سے گنتے ہیں ۔ یہ ان کی نادانی ہے ۔ نفس ناطقہ خود ہی نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) ہے جو تزکیہ (رذائل سے پاک) کا محتاج ہے اور بالذات اس کی ہمت کمینہ پن اور پستی کی طرف ہے۔ عالم امر سے اس کو کیا نسبت اور تجرد(جو مادہ سے پاک ہوں)کو اس سے کیا مناسبت اور عقل خود معقولات میں سے سوائے ان امور کے جومحسوسات کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے محسوسات کا حکم پیدا کیا ہوا ہے کچھ ادراک نہیں کرتی لیکن جو امر محسوسات کے ساتھ مناسبت ہی نہیں رکھتا اور مشاہدات میں اس کی شبہ و مثال پیدا نہیں ہے وہ عقل کے ادراک میں بھی نہیں آتا۔ اور اس کا بند عقل کی کنجی سے نہیں کھلتا ۔ پس عقل کی نظر احکام بیچونی سے کوتاہ ہے اور محض غیب میں گمراہ اور یہ عالم خلق کی علامت ہے۔ عالم امراء کی ابتداء مرتبہ قلب سے ہے اور قلب کے اوپر روح اور روح کے اوپر سر اور سر کے اوپرخفی اور خفی کے اوپراخفٰی ہے ان پنجگانہ عالم امر کو جواہرخمسہ کہیں تو مناسب ہے ۔ کوتاہ نظری سے چند ٹھیکر یوں کو جمع کر کے فلسفیوں نے ان کا نام جواہر رکھا ہے۔
عالم امر کے ان جواہر خمسہ کا ادراک کرنا اور ان کی حقیقت پر اطلاع پانا حضرت محمد رسول الله ﷺکے کامل تابعداروں کا نصیب ہے جب عالم صغیریعنی انسان میں عالم کبیر کے ان جواہر مبدا ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قلب کو بھی عرض الله تعالی کہتے ہیں اور جواہر پنجگانہ کے باقی مراتب عرش کے اوپر ہیں۔
عرش عالم کبیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے جس طرح قلب انسان جو عالم صغیر میں عالم خلق اور عالم کے درمیان برزخ ہے قلب اور عرش اگرچہ بظاہر عالم خلقت میں ہیں لیکن حقیقت میں عالم امر سے ہیں اور بیچونی اور بیچگونی (بے کیف ہونا)سے کچھ حصہ رکھتے ہیں ۔ ان جواہر خمسہ کی حقیقت پر اطلاع پانا اولیاء اللہ میں سے کامل افراد کے لئے مسلم ہے۔ جو مراتب سلوک کو مفصل طور پر طے کر کے نہایت النهایت تک پہنچ گئے۔
ہرگدائے مرد میداں کے شود پشۂ آخر سلیماں کے شود
بھکاری کس طرح مرد میدان بن سکتا ہے اور نہ مچھر حضرت سلیمان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔
اور اگر محض خدا کے فضل سے کسی صاحب و دولت کی بصیرت کی آنکھ کو مرتبہ وجوب کی تفصیل کے لئے بقدر طاقت کھول دیں تو اس مقام میں بھی ان جواہر کے اصول کا مطالعہ کر لیتا ہے اور ان جواہر صغیرہ اور کبیرہ کوان جواہر حقیقی کےظل کی طرح معلوم کر لیتا ہے۔
این کار دولت است کنوں تا کرا دہند یہ بڑی اعلی دولت دیکھئے کس کو ملتی ہے
ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله والفضل العظيم.
یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالی بڑے فضل والا ہے۔
عالم امر کے حقائق کے اظہار سے رک جانا پوشیده معنوں کی تاریکی کے باعث ہے۔ کوتاہ نظر لوگ اس سے کیا حاصل کر سکتے ہیں ۔ راسخ العلم (مضبوط علم والےجن کو علم میں رسوخ ہو) اور کامل لوگ جو وما أوتیتم من العلم إلا قليلا (اور اگر تم لوگوں کو (اسرار الہی میں سے) بس تھوڑا ہی سا علم دیا گیا ہے) کے شرف سے مشرف ہیں اس ماجرا سے آگاہ ہیں۔
ھنیئا لارباب النعيم نعيمها ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک
مصلحت نیست که از پرده بروں افتدرازورنہ درمجلس رنداں خبرےنیست کہ نیست
یہ تو مصلحت کا تقاضا کہ یہ راز فاش نہ ہو ورنہ رندوں سے کوئی راز پوشیدہ نہیں ہوتا
والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
دوسرایہ دل میں آیا کہ جوابرمقدرعلیا کا تھوڑا سا بیان لکھا جائے۔
جاننا چاہئے کہ ان جواہر کی ابتداء صفات اضافیہ ( پیدا کرنا ، رزق دینا ،مارنا ، زندہ کرنا رنج والم دینا، انعام کرنا)سے ہے ۔ جو وجوب اور امکان کے در میان برزخوں(واسطوں) کی طرح ہیں اور ان کے اوپر صفات حقیقیہ (ارادہ، قدرت ،سمع ،بصر، کلام ،علم ،حیات اور تکوین)ہیں جن کی تجلیات سے روح کو حصہ حامل ہے اور قلب کا تعلق صفات اضافیہ سے ہے اور ان کی تجلیات سے مشرف ہے اور ان جواہر علیاء میں سے باقی جواہر جو صفات حقیقیہ کے اوپر ہیں ۔ حضرت ذات تعالی کے دائرے میں داخل ہیں ۔ اس لئے ان تینوں مراتب کی تجلیات کوتجلیات ذاتیہ کہتے ہیں۔ ان کی نسبت گفتگوکرنا اچھا نہیں۔
قلم اینجا رسید وسر بشکست قلم یہاں پہنچ کر ٹوٹ گیا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ136 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی