ترقیوں کے حصول ہونے اور خداوند تعالی کی مہربانیوں پرفخر کرنے کے بیان میں ۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار قدس سرہ کی خدمت میں لکھا ہے۔
حضور کے غلاموں میں سے عاجز غلام عرض کرتا ہے کہ مولانا شاہ محمد نے رمضان کے مبارک مہینے کے قریب استخارہ(خیر طلب کرنا) کرنے کا حکم پہنچایا ہے۔ اس قدر فرصت نہ ملی کہ رمضان شریف تک اپنے آپ کوحضور کی قدم بوسی سے مشرف کر سکے۔ ناچار اس کے گزر جانے پر اپنے آپ کو تسلی دی۔ خداوند تعالی کی مہربانیوں اور عنایتوں کی نسبت جو حضور کی توجہ کی برکت سے اس خاکسار پر پے در پے پہنچ رہی ہیں کیا عرض کرے
من آں خاکم که ابر نو بهاری کند از لطف برمن قطره باری
اگر بر روید از تن صدز بانم چو سبزه شکر لطفش کے توانم
ترجمہ: میں وہ مٹی ہوں کہ ابر نو بہار اپنی بارش کی صورت گوہر فشانی کر رہا ہے اگر میرے جسم پر سبزے کی طرح سو زبانیں بھی ہوتو آپ کے لطف و کرم کا شکر ادا نہیں ہو سکتا،
اگر چہ اس قسم کے احوال کا ظاہر کرنا، جرأت و گستاخی کا موجب اور فخر و مباہات کی خبر دیتا ہے۔
ولے چوں شہ مرا برداشت از خاک سرد گر بگذرانم سرز افلاک
ترجمہ: جب شہ نے مجھ کو خاک سےاٹھایا توپھر میں اپنا سر آسمان سے بلند کیوں نہ کروں
عالم صحو(ہوشیار) و بقاء کی ابتدا ما ہ ربیع الآخر کے اخیر سے ہے اور اور اب تک خاص بقا کے ساتھ ہر ایک مدت میں مشرف فرماتے ہیں۔ ابتداء حضرت شیخ محی الدین قدس سرہ کی تجلی (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) ذاتی سے ہے
کبھی صحو میں لاتے ہیں کبھی پھر سکر(مستی) میں لے جاتے ہیں اور اس نزول(خالق سے خلق کیطرف توجہ کرنے کو نُزول کہتے ہیں) و عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) میں عمدہ عمده علوم اورعجیب عجیب معارف کا فیضان فرماتے ہیں اور ہر مرتبہ میں خاص احسان (یعنی اخلاص) اور شہود(مشاہدہ) کے ساتھ جو اس مقام کے بقاء کے مناسب ہے۔ مشرف فرماتے ہیں۔
رمضان شریف کی چھٹی تاریخ کو ایسے بقاء سے مشرف فرمایا اور ایسا احسان وا خلاص میسر ہوا کہ بندہ کیا عرض کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ استعداد کی نہایت(انتہا) وہیں تک ہے اور وہ وصل بھی جو حال کے مناسب تھا وہاں حاصل ہوا اور جذبہ کی جہت اب تمام ہوگئی ہے اور سیر فی اللہ میں جو مقام جذبہ کے مناسب ہے، قدم رکھا ہے جس قدر فنا پورے طور پر ہوگی اس قدر وہ بقاء جواس پر مترتب ہوگی زیادہ کامل ہوگی اور جس قدر بقاء زیادہ کامل ہوگی صحواس قدر زیادہ ہوگا اور جس قدر صحو زیادہ ہوگا اسی قد رشریعت حقہ کے موافق علوم کا فیضان ہوگا کیونکہ کمال صحو انبیائے الصلوة والسلام کیلئے تھا اور وہ معارف و علوم جوان سے صادر ہوئے ہیں۔ شریعت کے احکام اور عقائد ہیں جو ذات و صفات کے بارے میں بیان فرمائے ہیں اور ان احکام کے ظاہر کی مخالفت بقیہ سکر(مستی) سے ہے اب وہ معارف جو اس خاکسار پر جاری ہوئے ہیں اکثر شرعی معارف کی تفصیل اور انہی کا بیان ہے اور استدلالی (دلیل سے حاصل ہو)علم کشفی (کشف کے ذریعے) اور ضروری علم سے بنتا رہتا ہے اور علم مجمل مفصل ہوتا جاتا ہے
گر بگویم شرح ایں بیحد شود
ترجمہ اگراس کی شرح لاکھوں بہت زیادہ ہو
ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ گستاخی تک نوبت پہنچ جائے۔
بنده باید کہ حد خود داند
ترجمہ بندہ کو چاہئے اپنی حد میں رہے
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ37 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی