خناس کیا ہے؟
لغوی معنی
خنس کے معنی چھپنے یا پیچھے ہٹ جانےکے ہیں خناس مبالغے کا صیغہ ہے، جس کو ہم چور کے نقب لگانے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔
اصطلاحی معنی
خناس شیطان کی صفت ہے کیونکہ یہ دل میں وسواس پیدا کرتا ہے حدیث کے مطابق شیطان اس وقت پیچھے ہٹ جاتا اور دور چلا جاتا ہے جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے اوردل میں شبہات اور شہوات ڈالنے سے باز رہتا ہے ۔
شیطانی حملہ
شیطان کی یہ عادت ہے کہ شیطان ایسے لوگوں پر بے خبری کے عالم میں اچانک حملے کیا کرتا ہے جو بندےاللہ کے ذکر کو بھول جاتے ہیں اور اس سے غفلت برتتے ہیں تو وہ ان کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہےاور جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو سمٹ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس سے باز رہتا ہے اور دور ہٹ کر چھوٹا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ مکھی کی مانند ہوجاتا ہے۔
شیطانی حملے سے بچاؤ
تمام شیطانی وَساوِس کی علاج ذِکر اِلٰہی ہے،اور ان وساوس سے وہی محفوظ رہتے ہیں جن کی رَگ رَگ میں ذکرِ خدارَچ بس گیا ہو ، فرمانِ الٰہی ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبْصِرُوۡنَ(الاعراف آیت نمبر201)
بیشک جو لوگ متقی ہیں جب ان کو کوئی شیطانی وسوسہ لاحق ہونے لگتاہے وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور دفعتاً ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں۔
مجاہد رضی اللہ عنہ اس فرمانِ الٰہی:مِنۡ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ(سورۃ الناس آیت 4) خناس کے وسوسوں کے شر سے۔
کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ خناس دل پر پھیلا ہوا ہوتا ہے، جب انسان ذکر خدا کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور سکڑ جاتا ہے اور جب انسان ذکر سے غافل ہوتا ہے تو وہ حسبِ سابق دل پر تَسَلُّط جمالیتا ہے۔ ذکرِ الٰہی اور شیطان کے وَساوِس کا مقابلہ ایسے ہے جیسے نور اور ظلمت، رات اور دن اور جس طرح یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰىہُمْ ذِکْرَ اللہِ (سورۃ المجادلۃ آیت 19) ان پر شیطان غالب آیا اور انہیں یادِ الہی سے غافل کردیا۔
حضرتِ اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور ﷺ نے فرمایا کہ شیطان اِنسان کے دل پر اپنی ناک لگائے ہوئے ہے، جب انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ یادِ الٰہی سے غافل ہو جاتا ہے تو شیطان اس کے دل کو نگل لیتا ہے۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی، رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں : ان الشیطن یجری من الانسان مجری الدم
۔ بے شک شیطان انسان (آدمی) کی رگ رگ میں خون کی طرح ساری وجاری ہے۔ (صحیح البخاری باب الاعتکاف
صحیحین وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہےکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ”جب اذان ہوتی ہے شیطان گوز مارتا ہوابھاگ جاتاہے کہ اذان کی آواز نہ سنے، جب اذان ہوچکتی ہے پھر آتاہے۔ جب تکبیر ہوتی ہے پھر بھاگ جاتاہے ، جب تکبیر ہوچکتی ہے پھر آتاہے حتی یخطرا بین المراء ونفسہ یقول اذکر کذا اذکر کذا لما لم یکن یذکرہ، حتی یظل الرجل مایدری کم صلٰی
یہاں تک کہ آدمی اور اس کے دل کے اندر حائل ہوکر خطرے ڈالتاہے کہتاہے کہ یہ بات یاد کروہ بات یاد کر ان باتوں کے لئے جو آدمی کے خیال میں بھی نہ تھیں، یہاں تک کہ انسان کو یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ کتنی پڑھی”
صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التاذین )
امام ابوبکر ابی الدنیا کتاب مکائد الشیطان ، اور امام اجل ترمذی نوادر الاصول میں بسند حسن، اور ابویعلٰی مسند، اور ابن شاہین کتاب الترغیب، اور بہیقی شعب الایمان میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : ان الشیطان واضع خطمہ علی قلب ابن اٰدم فان ذکر اﷲ خنس وان نسی التقم قلبہ فذٰلک الوسواس الخناس ۔ بیشک شیطان اپنی چونچ آدمی کے دل پر رکھے ہوئے ہے، جب آدمی خدا تعالٰی کو یاد کرتاہے شیطان دبک جاتاہے اور جب آدمی (ذکرسے) غفلت کرتاہے (بھول جاتاہے) تو شیطان اس کا دل اپنے منہ میں لے لیتاہے تویہ ہے (شیطان خناس) وسوسہ ڈالنے والا دبک جانیوالا۔ ( شعب الایمان حدیث 540 دارالمکتب العلمیہ بیروت 1 /403)
لمہ شیطان ولمہ ملکہ دونوں مشہور اور حدیثوں میں مذکور ہیں پھر اولیاء کرام کو قلوب میں تصرف کی قدرت عطا ہونی کیا محل انکار ہے۔حضرت علامہ سلجماسی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کتاب ابریز میں اپنے شیخ حضرت سیدی عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عوام جو اپنے حاجات میں اولیاء کرام مثل حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے استعانت کرتے ہیں نہ کہ اللہ عزوجل سے، حضرات اولیاء نے ان کو قصدا ادھر لگا لیا ہے کہ دعا میں مرا دملنی نہ ملنی دونوں پہلو ہیں، عوام (مراد) نہ ملنے کی حکمتوں پر مطلع نہیں کئے جاتے، تو اگر بالکلیہ خالص اللہ عزوجل ہی سے مانگتے پھر مراد ملتی نہ دیکھتے تو احتمال تھا کہ خدا کے وجود ہی سے منکر ہوجاتے،اس لئے اولیاء نے ان کے دلوں کو اپنی طرف پھیر لیا کہ اب اگر (مراد) نہ ملنے پر بے اعتقادی کا وسوسہ آیا بھی تو اس ولی کی نسبت آئے گا جس سے مدد چاہی تھ، اس میں ایمان تو سلامت رہے گا۔
کیونکہ ” وسواس ” ان ہی فاسد خطرات کا نام ہے جو ظاہر ہو کر نہیں، بلکہ اندرونی طور پر ایمان کی قوت میں رخنہ ڈالتے ہیں
ان الشیطان یدخل الصدر الذی ھو بمنزلۃ الدھلیز فیلقی منہ ما یرید القاءہ الی القلب ویوصلہ الیہ۔ بلاشبہ شیطان انسان کے سینہ میں داخل ہوجاتا ہے اور سینہ دل کی دہلیز کی مانند ہے پھر اس میں جو کچھ وہ ڈالنا چاہتا ہے اس میں سے قلب کی طرف ڈالتا ہے اور اسے دل کے ساتھ ملا دیتا ہے یا پہنچا دیتا ہے۔(تفسیر الحسنات)
حضرت عبداللہ بن شقیق (رض) شعری روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر آدمی کے دل میں دو گھر (دو مقامات) ہیں ایک میں فرشتہ ہوتا ہے اور دوسرے میں شیطان ۔ جب بندہ اللہ کا ذکر کرے (یعنی اس کی یاد اور اطاعت میں مگن ہو) تو شیطان تھک جاتا ہے اب جب وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو تو شیطان اپنی (خنزیر جیسی) تھوتھنی اس کے دل میں اتار دیتا ہے اور اس کے لئے وسوسہ پیدا کرتا ہے (مظہری بروایت مسند ابی یعلی) ۔
شکایت ہے کہ کسی ولی اللہ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ شیطان آدمی کے دل میں کیسے وسوسہ ڈالتا ہے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے دکھایا کہ ایک انسانی صورت ہے جس کے دونوں کندھوں کے درمیان پشت پر کالے تل کا نشان ہے تو خناس نامی شیطان آیا اور اسے چاروں طرف سے دیکھا بھالا اس کی شکل خنزیر جیسی تھی اس نے اپنی تھوتھنی کو اس تل کے نشان پر رکھا اور اس کے دل تک اندر اتار دیا اور اس میں وسوسہ ڈالنے لگا پھر جب اس انسان نے اللہ کا ذکر شروع کیا تو شیطان پیچھے ہٹ گیا (روح البیان) ۔
خناس شیطان کا لقب ہے، اس کے معنی چھپنے والے کے ہیں، جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو وہ چھپ جاتا ہے پھر موقع ملتا ہے تو وسوسے ڈالتا ہے۔
حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ شیطان بنی آدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے اور وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے جب انسان اللہ کو یاد کرتا ہے تو پیچھےہٹ جاتا ہے اور جب غافل ہوتا ہے تو پھر وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ (رواہ الحاکم)