نیت مراقبہ وقوف خفی
فیض می آید از ذات بیچون بلطیفہ خفی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میرے لطیفہ خفی میں فیض آتا ہے۔
تشریح
یہ مراقبہ وقوف خفی(ﷲ تعالیٰ کے سامنے حضورِ خفی کی ایسی کیفیت کہ لطیفہ خفی اللہ کی طرف متوجہ ہو ) ہے چوتھا مراقبہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق جتنے دنوں کی لئے ارشاد ہو اتنے دن کو مخصوص کرے
مراقبہ لطیفہِ خفی اپنے لطیفہِ خفی کو مقابلہ میں آں سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رکھ کر زبانِ خیال عرض کرے کہ الہی صفات سلبیہ کے تجلیات کا فیض جو تو نے آں سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطیفہِ خفی سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی لطیفہِ خفی میں القاء فرمایا ھے بحرمت پیرانِ کبار میرے لطیفہِ خفی میں القاء فرما۔۔
صفات سلبید الہیہ ( اللہ تعالی کی وہ تمام صفات جو اسکی ذات کیلئے باعث عیب و نقص ہیں)کا تعلق صفت القدرت سے ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کا رب ہے اس کے مظہر اتم تو حضور پر نور صلی الہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن باعتبار ظہور حضرت عیسٰی علیہ السلام اس کے مظہر ہیں اس لئے آپ کے واسطہ سے فیض حاصل کیا جاتا ہے جب تک کہ سالک مقام سر سے بہرہ ور نہ ہو اس وقت تک مقام خفی میں نہیں پہنچ سکتا۔ مقام سر سے کامل طور پر بہرہ ور ہونے کے بعد ہی صفات سلبیہ الہیہ کی تجلیات سے فیضیاب ہوسکتا ہے ، تجلیات صفات سلبیہ کا رنگ سیاہ ہے۔
جب سالک مراقبہ سر سے جو اُس کا راز ہے واقف ہوتا ہے تو اس کو مراقبہ لطیفہ خفی کراتے ہیں تا کہ مراقبہ لطیفہ خفی کا راز بھی سالک کے مشاہدہ میں آجائے۔ جس طرح اللہ تعالے نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کو ظہور عطا فرمایا جس کو تجلیات صفات سلبیہ سے تعبیر کرتے ہیں اسی طرح یہاں سالک کو اپنے وجود کے ظہور میں بھی وہی تجلی منکشف ہوتی ہے ۔ اس مراقبہ میں سالک کو جمیع عالم سے حق سبحانہ تعالے کی تجرید و تفرید مشہود ہوتی ہے وحدت شہود کی حقیقت بھی یہی ہے اس کو فنافی الفنا کہتے ہیں۔ قربیت وولایت اس لطیفہ کی بواسطہ حضرت عیسی علیہ السلام حاصل ہوتی ہے اس لئے اس ولی کو عیسوی المشرب کہتے ہیں
لطیفہ خفی سے مراد نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کو عالم لا ہوت کہتے ہیں سالک پر جب اس لطیفے کی کیفیات طاری ہوتی ہیں تو وہ معائنہ ذات کی بدولت واصل الی اللہ ہوتا ہے ۔
عالم لاہوت
جس کی عقل و شعور سے پہچان نہ ہو سکے ذاتِ الہٰی کا عالم ہے۔ ملاء اعلیٰ بھی کہلاتا ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہےجہاں جا کر سالک فنافی اللہ ہو جاتا ہے۔یعنی مفرد ومجرد ہوتا ہے۔ “لاہوت سالِکین کا سب سے اونچا مقام ہے عالَم لاہوت بے نشان ہے اپنے آپ سے قطع تعلق کرتا ہے، اُسکا تعلق عالَم اَمر سے ہے اور اُسی کو لامکاں بھی کہتے ہیں