نیت مراقبہ اسم الباطن
فیض می آید از ذات بیچون کہ مسمی بہ اسم باطن است کہ منشاء ولایت علیا است و ولایت ملاءالاعلی است بمفهوم این آیۃ کریمہ. ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاَخِرُوالظَّاھِرُوَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمُ. بعناصر ثلاثہ من کہ آب وباد ونار است بواسطہ پیران کباررحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے جو اسم باطن کے ساتھ موسوم ہے اور منشا ولایت علیا ہے جو ولایت ملا الاعلی ہے اور اس آیہ کریمہ کے مطابق(وہی اول وہی آخر ظاہر و باطن ہے اور وہی ہر شے کو جاننے والا ہے )عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میرے تین عناصر پانی ہوا اور آگ میں فیض آتا ہے۔
تشریح
اس مراقبہ میں ولایت کبری اور اسم باطن کی سیر شروع ہوتی ہے۔ اس کو ولایت علیا اور ولایت ملا ئکہ علیہم السلام بھی کہتے ہیں۔ اس مقام میں سوائے عنصرخاک کے باقی عناصریعنی پانی، ہوا اور آگ مورد فیض ہوکرتکمیل پاتے ہیں۔ جاننا چاہئے کہ ولایت صغری اور ولایت کبری کی سیراسم الظاهر میں تھی جبکہ ولایت علیا کی سیر اسم الباطن میں ہے۔ ان میں فرق یہ ہے کہ سیر اسم الظاهر میں تجلیات اسمائی وصفاتی ہیں۔ جبکہ سیراسم الباطن میں اگر چہ تجلیات اسماء و صفات ہی ہیں لیکن ان کے ساتھ تجلی ذات بھی پردہ ہائے اسماء و صفات میں موجود ہوتی ہے۔ اس مقام میں سالک کے اجزائے جسم پاک وصاف ہوجاتے ہیں، عناصر ثلاثہ کے رذائل صفات حمید ہ میں بدل کر منور ہوجاتے ہیں تو سالک کو پرواز کے دو پر عنایت ہوتے ہیں ۔ ایک اسم الظاهرکاجو ولایت کبری کی انتہا ہے اور دوسرا اسم الباطن کا جو ولایت علیا کی انتہا ہے۔ سالک کو اس مرتبہ میں تجلیات اسماء وصفات الہی سے گزر کر تجلیات ذات اقدس (جوحقیقی مقصود ہے) کی سیر کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مقام میں ذکر تہلیل، نوافل، قیام اور قرآت کی طوالت ترقی بخش ہوتے ہیں۔ اور رخصت شرعی کا اختیار کرنا بھی غیر مستحسن ہے۔ چونکہ یہ ولایت ملائکہ کی ہے لہذا ملکیت کے ساتھ جس قدر زیادہ مناسبت ہوگی ، اتنی جلد ترقی میسر ہوگی۔ اس ولایت سے سالک کے تمام بدن میں وسعت و فراخی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور لطیف احوال سارے جسم پر وارد ہوتے ہیں۔ خصائل رذیلہ کو دفع کرنا اور خالق عناصر کی طرف متوجہ رہ کر حصول فیض کرنا اس مراقبه کا، ما حاصل ہے۔
ولایت صفری اور ولایت کبری اسم الظاہر کے سیر وسلوک میں تھے۔ اس کے بعد اسم الباطن میں ولایت علیاء کی سیر شروع ہوتی ہے۔ اس کا نام ولایت ملائکہ کرام علیہم السلام بھی ہے اس مقام میں عنصر خاک کے علاوہ عناصرثلا ثہ آگ ، ہوا اور پانی پر فیض کا ورود ہوتا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ سیر اسم الظاہر تجلیات اسمائی وصفاتی تھے اور سیر اسم الباطن میں تجلیات اسماء وصفات کے ساتھ تجلی ذات بھی پردہ ہائے اسماء وصفات میں مخفی ہوتی ہے۔ ان ولایتوں، ولایت صغری ، ولایت کبری اور ولایت علیا یا ولایت ملائکہ کی مثال ظاہر و باطن جیسی ہے ۔ اگر ولایت صغری پوست ہے تو ولایت کبری مغز ہے ۔ اگر ولایت کبری پوست ہے تو ولایت علیا مغز ہے ۔اسی دائرہ میں عناصر ثلاثہ کی فنا و بقا ہوتی ہے۔اس مقام میں سالک ایسی تجلیات میں سیر کرتا ہے جواسماء وصفات وذات سے ملی ہوئی ہیں۔
سالک کے عالم امر کے لطائف ( قلب، روح ، سر،خفی ، اخفی ) متقی ہو جائیں اور عالم خلق سے نفس کا تزکیہ ہو جائے اور عناصر ثلاثہ (آگ، ہوا، پانی ) کے رذائل اوصاف حمیدہ میں تبدیل ہو کر منور ہو جائیں اور عنصر خاک کی پاکیزگی و صفائی ہو چکے کہ ہمہ وقت تمام اجزاء لطائف کے ہمراہ ہے تو اس وقت سا لک کو دو پر سیر اور پرواز کے لیے عطا ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیر اسم الظاہر کا ہے جو ولایت کبری کی انتہا ہے اور دوسرا سیر اسم الباطن کا ہے جو ولایت علیاء منتہی ہے۔ سالک اس مقام میں تجلیات کی سیر کے قابل ہو جا تا ہے ۔ اس مقام میں ذکر تہلیل و نوافل قیام وقرات کے طول سے ترقی پاتے ہیں ۔ اور رخصت شرعی کا اختیار کرنا غیر مستحن ہوتا ہے۔ بلکہ عزیمت پر عمل کرنا اس مقام میں ترقی بخشتا ہے راز یہ ہے کہ رخصت پرعمل کر نا بشریت کی طرف کھینچتا ہے اور عز یمت پر عمل کرنا ملکیت کے ساتھ نسبت قائم کرتا ہے کیونکہ یہ ولایت ملائکہ کرام علیہم السلام کی ہے اس لیے یہاں ملکیت کے ساتھ جس قدر مناسبت ہو گی اتنا ہی جلد ترقی حاصل ہوگی ۔
اس مقام میں سالک کا باطن اسم الباطن سے مسمی و مصداق ذات اقدس تبارک وتعالی کا مظہر بن جا تا ہے ۔ اس ولایت سے سالک کے تمام بدن میں وسعت وفراخی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اور جسم پرلطیف احوال کا ورود ہوتا ہے۔ اخفا اوراسرار کے لائق رموز سالک کے ادراک میں آتے ہیں بلکہ ارباب کشف رویت ملائکہ کرام سے بھی مشرف ہوتے ہیں ۔ الغرض مراقبہ اسم الباطن بھی عناصر ثلاثہ کے اعتبار سے علم الہی سے ہے اس مراقبہ کا مقصودعناصر ثلاثہ کی کیفیات میں انانیت وریاء جیسے رذائل کو دفع کرنا اور خالق عناصر کی طرف متوجہ رہ کر فیض حاصل کرنا ہے ۔