نیت مراقبہ حقیقت کعبہ ربانی
فیض می آید از ذات بیچون کہ مسجود جمیع ممکنات است و منشاء حقیقت کعبہ ربانی است بہ ہیئت وحدانی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے جو تمام ممکنات کی مسجود اور حقیقت کعبہ ربانی کا منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میری ہیئت وحدانی میں فیض آتا ہے۔
تشریح
یہ مقام عظمت و کبریائی کا مقام ہے۔ اس جگہ سالک بیبت و جلال کے دریا میں ڈوب جاتا ہے۔ اور جب فنا و بقاء حاصل ہوتی ہے تو وہ ممکنات کی توجہ اپنی طرف دیکھتا ہے۔
حقیقت کعبہ حق سبحانہ تعالی کی عظمت و کبریائی کے ظہور کو کہتے ہیں ۔ جو درحقیقت مسجودلہ، جميع الممکنات (عالم آثار یعنی دنیا میں جتنے روح موجود ہیں اصطلاح تصوف میں انہیں ممکن کہا جاتا ہے اس کی جمع ممکنات ہے)ہے اس مقام میں سالک کوعظمت و کبریائی کی تجلی شہود ہوتی ہے ۔ جس کا تعلق ذات مجردہ سے ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ دریائے ہیبت و جلال خداوندی میں غرق ہو جا تا ہے ۔ اس مقام میں حقائق الہیہ کی نسبت عالی سالک کے ادراک میں آ جاتی ہے ۔ جو کمالات ثلاثہ ( کمالات نبوت، رسالت ، اولوالعزم انبیاء علیھم السلام ) کے مقابلہ میں لطیف تر اور بہت ہی بے رنگ ہے جب کمالات ثلاثہ میں سالک کو فنا و بقاء حاصل ہوتی ہے ۔ اور ان مقامات کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتا ہے ۔ تو اس کا اخلاق حمیدہ ہو جا تا ہے اور سالک کے وجدان میں ایک قسم کی ایسی طاقت پیدا ہوتی ہے ۔ جس کے باعث مقامات فوقانی کا بھی اسے ادراک ہو جا تا ہے ۔ مرتبہ کمالات اولو العزم علیھم السلام کے بعد سالک کو حقیقت کعبہ کی سیر نصیب ہوتی ہے ۔ سالک کو جب فناء و بقا حاصل ہوتی ہے ۔ تو وہ سمجھتا ہے کہ تمام مخلوق میری ہی عبادت کر رہی ہے ۔ جیسے اگر کسی بادشاہ کے پاس کوئی خادم کھڑا ہوا اور جو بھی در بارشاہی میں آئے اور بادشاہ کو سلام کرے تو خادم کو ایسا معلوم ہوگا کہ سب آنے جانے والے اسی کو سلام کر رہے ہیں۔ اس مقام میں سالک کا بھی یہی حال ہوتا ہے ۔ کہ تمام مخلوق اس کی عبادت میں مشغول ہے ۔ حالانکہ وہ عبادت ذات تبارک و تعالی کے لیے ہوتی ہے جیسا کہ سلام بادشاہ کے لیے ہوتا ہے ۔ سالک کواللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ممکنات کی توجہ اپنی طرف نہ سمجھے ورنہ سخت گمراہی ہو گی ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسماء وصفات اور اعتبارات کو بھی باوجود کمال محرم راز ہونے کے اس شان سے متصف ہونے کا دخل نہیں ۔
اس مقام میں سالک پر دائمی ذاتی تجلیات ہوتی ہیں ۔ جس سے اسکی نسبت باطنی میں بے حد ترقی ہوتی ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں کہ کاملین کو حضور پر نو ﷺ کے طفیل اپنی عظمت و کبریائی سے روشناس کر کے بارگاہ قدس کا محرم بنایا جا تا ہے ۔ جس کے باعث ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آتا ہے۔ جوانبیاءعلیھم السلام کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ خانہ کعبہ جو بظاہر ہمارا قبلہ اور مسجودلہ ہے۔ یہ اسی حقیقت کعبہ کا صوری ظلی مظہر ہے ظاہر ہے کہ صورت کو حقیقت کے ساتھ اور ظل کو وصل کے ساتھ ایک نسبت ہوتی ہے ۔لہذا جو چیز ہمارے لیے قبلہ حقیقی اور مسجودلہ ہے وہ کعبہ صوری نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت ہے جو ذات بے چون و بے چگون ہے اور اس مقام کعبہ سے مناسبت اور تعلق رکھتی ہے۔ اس مقام میں براہ راست ذات الہی سے فیض حاصل ہوتے ہیں لیکن اس بلند و بالا مقام کا حصول پیر ومرشد کی توجہ کے بغیر ناممکن ہے ۔