مقام اخلاص کے حاصل کرنے کے بیان میں جوشریعت کے تینوں حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور اس جزو کے کامل کرنے میں طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں وغیرہ وغیرہ کے بیان میں شیخ محمد خیری کی طرف لکھا ہے۔
نحمده ونصلى على نبيه ونسلم میرے مخدوم ! سلوک کی منزلوں کو طے کرنے اور جذبہ کے مقامات کو قطع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس سیر و سلوک سے مقصود مقام اخلاص کا حاصل کرنا ہے جو آفاقی اور انفسی معبودوں کی فناپرمنحصر ہے اور یہ اخلاص شریعت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے کیونکہ شریعت کے تین جزو ہیں علم وعمل و اخلاص۔
پس طریقت حقیقت دونوں شریعت کے تیسرے جزوین اخلاص کی تکمیل کیلے شریعت کے خادم ہیں۔ اصل مقصودتویہی ہے مگر ہر ایک کافہم یہاں تک نہیں پہنچتا۔ اکثر اہل جہان نے خواب و خیال کے ساتھ آرام کیا ہوا ہے اور بناوٹ اورمنقی یعنی بیہودہ اورنکمی باتوں پر کفایت کی ہے۔ وہ شریعت کے کمالات کو کیا سنتے ہیں اور طریقت اور حقیقت کا کیا پتہ لگا سکتے ہیں۔ شریعت کو پوست خیال کرتے ہیں اور حقیقت کو مغز جانتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ صوفیا ءکی بیہودہ باتوں پر مغرور اور احوال و مقامات پر فریفتہ ہیں۔ هذا هم الله سبحانہ سواء الطريق والسلام علينا وعلى عباد الله الصالحين اللہ تعالی ان کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے اور ہم پر اور اللہ تعالی کے بندوں پر سلام ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ149 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی