حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماایک دفعہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جا رہے تھے۔ خدام ساتھ تھے کھانے کا وقت ہو گیا، خدام نے دستر خوان بچھایا سب کھانے کے لیے بیٹھے۔ ایک چرواہا بکریاں چراتا ہوا گزرا، اس نے سلام کیا۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی کھانے کی تواضع کی۔ اس نے کہا: میرا روزہ ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اسقدر سخت گرمی کے زمانہ میں، کیسی لُو چل رہی ہے، جنگل میں تو روزہ رکھ رہا ہے! اس نے عرض کیا کہ میں اپنے ایامِ خالیہ کو جلد وصول کرلوں گا (یہ قرآنِ پاک کی ایک آیت شریفہ کی طرف اشارہ تھا جو سورۂ الحاقہ میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ جنتی لوگوں کو فرمائیں گے:
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ھَنِیْئًا م بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِیْ الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ
کھاؤ اور پیو مزہ کے ساتھ ان اعمال کے بدلہ میں جو تم نے گزرے ہوئے زمانہ میں (دنیا میں) کیے ہیں۔)
اس کے بعد حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے امتحان کے طور پر اس سے کہا کہ ہم ایک بکری خریدنا چاہتے ہیں، اس کی قیمت بتادو اور لے لو۔ ہم اس کو کاٹیں گے اور تمھیں بھی گوشت دیں گے کہ افطار میں کام دے گا۔ اس نے کہا کہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں۔ میں تو غلام ہوں، یہ میرے سردار کی بکریاں ہیں۔ حضرت ابنِ عمر نے فرمایا کہ سردار کو کیا خبر ہوگی، اس سے کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: فَأَیْنَ اللّٰہُ؟ اور اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟ (یعنی وہ پاک پروردگار تو دیکھ رہا ہے۔ جب وہ مالک الملک دیکھ رہا ہے تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ بھیڑیا کھا گیا؟) حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما تعجب اور مزے سے بار بار فرماتے تھے۔ ایک چرواہا کہتا ہے: أَیْنَ اللّٰہُ؟ أَیْنَ اللّٰہُ؟ (اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ کہاں چلے جائیں گے؟) اس کے بعد ابنِ عمر رضی اللہ عنہما شہر میں واپس تشریف لائے تو اس غلام کے آقا سے اس غلام کو اور بکریوں کو خرید کر غلام کو آزاد کر دیا، اور وہ بکریاں اسی کو ہبہ کردیں۔
تفسیر الدر المنثور امام جلال الدین سیوطی تفسیر سور الحاقہ آیت نمبر 24