اس بیان میں کہ سودی قرض میں سب کا سب رو پیہ حرام ہے نہ فقط زیادتی مثلا کسی شخص نے دس تنکے(ٹکے) بارہ تنکے کے عوض قرض لئے تو اس صورت میں سب بارہ تنکے حرام ہیں نہ صرف دو تنکے زیادتی اور اس کے متعلق مناسب بیان میں ۔ ملامظفر کی طرف صادر کیا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ اس دن فرماتے تھے کہ ربا ء قرض سودی میں صرف زیادتی ہی ربا (سود)ہے اور بارہ تنکےکےعوض دس تنکے قرض لینے میں صرف یہی دوتنکے زیادتی حرام ہے لیکن جب فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوگیا کہ شریعت میں جس عقد میں زیادتی ہے اس میں رہا بھی ہے۔ پس ناچار یہ عقد حرام ہوگا اور جو کچھ حر ام کی نسبت حاصل کریں، وہ بھی حرام ہوگا۔ پس وہ دس تنکے بھی ربا ہوگا اور حرام۔
کتاب جامع الرموز اور روایات کتاب ابراہیم شاہی کے بھیجنے سے مقصود اس مطلب کا اظہار تھا۔ باقی رہی صورت احتیاج کی ۔ سو میرے مخدوم ! ربا کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے جومحتاج اور غیرمحتاج کو شامل ہے وہاں محتاج کا خاص کرنا اس قطعی حکم کا منسوخ کرنا ہے اورقنیہ(المنیۃ علی مذہب ابی حنیفہ) کی روایت یہ مرتبہ نہیں رکھتی کہ حکم قطعی کومنسوخ کرے ۔ حالانکہ مولانا جمال لا ہوری جو لاہور کے علماء میں سے زیادہ عالم ہیں ۔ فرماتے تھے کہ قنیہ کی بہت کی روایتیں قابل اعتبار نہیں ہیں اور کتب معتبرہ کی روایتوں کے مخالف ہیں اور اگر اس روایت کوصحیح مان لیں تو اس احتياج کی تاویل اضطرار اور مخصمہ سے کرنی پڑے گی تا کہ آیت کریمہ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ کے ساتھ اس حکم قطعی کی تخصیص ہو جائے کہ قوت میں بھی ویسی ہی ہے۔ع
که رسم را کشد ہم رخش رستم ترجمہ: اٹھاتا ہے رستم کو رستم کا گھوڑا
اور نیز اگر محتاج سے عام مراد لیا جائے تو پھر چاہیئے کہ ربا کی حرمت کے لئے کوئی مقام اورمحل پیدا نہ ہو کیونکہ جو زیادتی قبول کرتا ہے اس باعث کوئی نہ کوئی حاجت ضرور ہوتی ہے اور بغیر حاجت کے کوئی شخص اپنے ضرر پر پیش دستی نہیں کرتا۔ پس اس صورت میں اس صاحب تعریف حکیم کےنازل فرمائے ہوئے حکم کے لئے کوئی زیادہ فائدہ باقی نہیں رہتا اور الله تعالی کی کتاب عزیز اس قسم کی وہمی باتوں سے بلند و پاک ہے اور اگر ہم بفرض محال عام احتیاج کو تسلیم کر لیں تو میں کہتا ہوں کہ احتیاج بھی منجملہ ضروریات کے ہے اور ضرورت انداز ہ کے موافقت پوری کی جاتی ہے۔ پس اس سودی روپیہ سے کھانا پکانا اور لوگوں کو کھلانا احتیاج میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت اس کے متعلق ہے یہی وجہ ہے کہ تر کہ میت میں احتياج مستثنی ہے اور کفن پرمنحصر ہے اور اس کی روحانیت کے لئے کھانا پکانا احتیاج میں داخل نہیں گنتے۔ حالانکہ وہ صدقہ کا زیادہ تر محتاج ہے۔
پس صورت متنازع فیہ میں ملاحظہ فرمائیں کہ سودی قرض لینے والے محتاج ہیں یا نہ اور محتاج ہونے کی صورت میں وہ کھانا جو اس مال سے اس جماعت کے لئے پکاتے ہیں اس جماعت کو یہ کھانا حلال ہے یا نہیں۔
جمعداری اور سپا ہگری کو احتیاج کا حیلہ بنانا اور اس سبب سے سودی قرض لینا اور اس کو حلال و جائز جاننا دینداری سے دور ہے۔ چا ہے کہ امر معروف اور نہی منکر کے طریق کو مد نظر رکھیں اور جو لوگ اس بلا میں گرفتار ہیں ان کومنع کریں اور اس حیلہ کے سچانہ ہونے سے بھی آگاہ کریں ایسا کسب کیوں اختیار کرنا چاہیئے کہ جس کے سبب آخرکار اس قسم کے خطرناک فعل کے ارتکاب میں مبتلا ہونا پڑے۔ روزگار کے وجوہ بہت ہیں کچھ سپاہ گری پر ہی منحصرنہیں جب آپ اہل صلاح وتقوی ہیں اس لئے کھانے میں طیب کی روایت بھیجی گئی ہے۔
آپ نے لکھا تھا کہ اس زمانے میں شبہ کے بغیر روزی پیدا نہیں ہوتی۔ سچ ہے لیکن جہاں تک ہو سکے شبہ سے بچنا چاہیئے ۔ زراعت بے طہارت جس کو آپ نے طیب کے منافی بیان کیا ہے۔ ہندوستان میں اس سے بچنا ناممکن ہے۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا الله تعالی کسی نفس کو تکلیف نہیں دیتا مگر بقدر اس کی طاقت کے۔
لیکن سودی کھانے کو ترک کر دینا بہت آسان ہے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا حلال و حرام میں قطعی ہے جس کا انکار کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ظنیات میں ایسا نہیں ۔ بہت سے امور حنفیہ کے نزدیک مباح ہیں کہ شافعی ان کو مباح نہیں جانتے۔
پس صورت مذکورہ بالا میں اگر کوئی شخص محتاج مشکوک کے لئے سودی قرض کے حلال ہونے میں جو نص قطعی کے حکم کے بظاہر مخالف ہے توقف کرے تو اس کو گمراہی سے منسوب نہ کرنا چاہیئے اور اس کے حلال ہونے کے اعتقاد پر اس کو تکلیف نہ دینی چاہیئے بلکہ صواب اسی کی طرف غالب بلکہ یقینی ہے اور اس کا مخالف خطرہ میں ہے۔
آپ کے بعض یاروں نے کہا کہ ایک دن مولانا عبد الفتاح نے آپ کے حضور میں کہا کہ اگر قرض بے سود مل جائے تو بہتر ہے پھر کیوں کوئی سودی قرض لے۔ آپ نے اس کو تنبیہ کی اور کہا کرتوحلال سے ا نکار کرتا ہے۔
میرے مخدوم! اس قسم کی باتیں حلال قطعی میں گنجائش رکھتی ہیں اور اگر حلال بھی ہوتو شک نہیں کہ پھر بھی اس کا ترک کرنا مناسب ہے کیونکہ ابل ورع رخصت کا امر نہیں کرتے اور عزیمت(ارادہ) پر رہنمائی کرتے ہیں۔
لاہور کے مفتیوں نے احتیاج کو دخل دے کر اس کے حلال ہونے پرحکم کیا ہے۔ احتیاج کا دامن فراخ ہے۔ اگر اس کو جوڑا کریں تو کچھ ربانہیں رہتا اور ربا کی حرمت میں نص قطعی کاحکم عبث ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے لیکن اس قدرضرور ملاحظہ کرنا چاہیئے کہ سودی قرض لینے والے کے لئے اوروں کو طعام کھلانا کس قسم کی احتیاج ہے۔
قنیہ کی روایت حیلہ و بہانہ کے بعد صرف محتاج کے لئے سودی قرض کا لینا جائز قرار دیتی ہے نہ کہ دوسروں کے لئے۔ اگر کوئی کہے کہ محتاج نے اس کھانے کو شاید کفار ہ قسم یا ظہار یا روزه کی نیت پر پکایا ہوا اور شک نہیں کہ وہ اس کفارہ کے ادا کرنے میں محتاج ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر کھانا کھلانے کی طاقت نہیں رکھتا تو روزہ رکھ لے نہ یہ کہ قرض سودی لے اور اگر اور کسی قسم کی احتياج بھی پیدا ہو جائے تو تھوڑی وجہ کے ساتھ تقوی کی برکت سے دفع ہوجائے گی۔ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ جوشخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے کوئی مخرج بنا دیتا ہے اور اس کو اس جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے گمان نہیں ہوتا۔ زیادہ لکھنا درازی کلام ہے۔ والسلام عليکم وعلی من اتبع الهدی آپ پر اور ہدایت والوں پر سلام ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ279ناشر ادارہ مجددیہ کراچی