اس بیان میں کہ توحید ماسوائےحق سے دل کو خلاص کرنے سے مراد ہے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ حمیدسنبھلی کی طرف لکھا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
توحید سے مراد یہ ہے کہ دل ماسوائے حق کی توجہ سے خلاص ہو جائے جب تک دل ماسوائے حق سے گرفتار ہے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ توحید والوں سے نہیں۔ اس دولت کےحاصل ہونے کے بغیر ایک کہنا اور ایک جاننا ارباب حصول کے نزدیک فضول ہے۔ ہاں اس کے ایک کہنے اور ایک جاننے سے جو تصدیق ایمان میں معتبر ہے۔ چارہ نہیں لیکن اس کے اور معنی ہیں ۔
لامعبودالا الله اورلا موجود إلا الله کے درمیان فرق ظاہر ہے ایمان کی تصدیق علمی ہے
اور ادراک وجدانی حالی ہے جس کی نسبت حال سے پہلے گفتگو کرنا منع ہے۔
حق تعالی حضرت نبی ﷺکے طفیل ہم بدبختوں کوبھی کاملین کے احوال سے کچھ حصہ نصیب کرے اور سنت سنیہ کی متابعت پر ثابت قدمی عطا فرمائے ۔ والسلام۔
باقی تکلیف یہ ہے کہ حامل رقیمہ دعا میاں عبدالفتاح حافظ ۔ ذی عزت اور شریف زادہ ہے اور اس کے اہل وعیال اور بیٹیاں بہت ہیں ۔ اسباب معیشت کے نہ ہونے سے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ اپنے آپ کوکسی کر یم تک لے جائے ۔ امید ہے کہ مقصود حاصل کرے گا زیادہ لکھنا سردردی ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ296ناشر ادارہ مجددیہ کراچی