تعینات
فلسفہ اور الہیات میں تعیین کا مطلب وہ چیز ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو الگ الگ کیا جاتا ہے اور اسے دوسری چیزوں پر فوقیت دی جاتی ہے، تاکہ دوسری چیزوں میں کوئی چیز مشترک نہ ہو۔ بالفاظ دیگر تمام مخلوقات سے کسی ایک ہستی کی فضیلت اور امتیاز کو تعین کہتے ہیں
اللہ تعالی کی ذات نے جن مراتب اور جن منزلوں سے نزول فرمایا انہیں صوفیاء کی زبان میں تعینات(تعین کی جمع) تجلیات (تجلی کی جمع)اوراعتبارات (اعتبار کی جمع) کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔
تعین کے معنی ہیں حق تعالی کا اپنی ذات کو پانا ۔
تعنیات کی دو اقسام ہیں ۔ داخلی اور خارجی
تعینات داخلی کی پھر دو قسمیں ہیں۔ اجمالی اور تفصیلی ۔
تعینات داخلی اجمالی
تعتن اول . وحدت جہاں حق تعالی نے اپنے وجود کو پایا ۔
تعینات داخلی تفصیلی
۔ واحدیت جہاں ذات نے ذات میں صفات ذات کو پایا
تعینات خارجی
بقیہ تعینات جو کہ ظہور میں اسماء وصفات و افعال کے مثلا ارواح و امثال و اجسام وغیرہ ۔
واضع ہو کہ تعین دو قسم پر ہے. تعیین جسدی اور تعین علمی جب سالک روحانی عروج کے دوران اپنی ذات اور جسم کی قید سے باہر آجاتا ہے اور اپنے آپ کو نہیں دیکھتا اور اپنے تعین جسدی کو فراموش کر دیتا ہے تو اس وقت وہ دو حال سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو اس کو اپنے سابق وجود( تعین جسدی) کا علم و شعور ہوتا ہے یا اپنے سابق تعین سے بھی بے خبر ہو جاتا ہے۔ اور اپنے تعیین جسدی و علمی سے گزر کر دائرہ لاتعین میں داخل ہو جاتا ہے جیسے روزه دار شخص دن بھر شدید پیاس محسوس کرتا رہتا ہے لیکن جب افطار کے وقت پانی پی لیتا ہے تو وہ بھی دو حال سے خالی نہیں ہوتا یا تو دن بھر کی پیاس بدستور یاد رکھتا ہے یا بالکل بھول جاتا ہے۔
پہلی حالت میں اگر چہ پیاس کا تعین جسدی معدوم ہے لیکن اس کا تعین علمی باقی ہے
دوسری حالت میں پیاس کا تعین علمی بھی باقی نہ رہا۔ پیاس کا یاد رہنا یہ تعین علمی ہے اور بھول جانا تعیین علمی کی فنا ہے
تعین اول
حق تعالیٰ نے غیب ہویت یعنی لاتعین سے جس چیز پر سب سے پہلے تجلی فرمائی اس کو تعین اول یا تنزل اول کہتے ہیں اس کو تجلی اول، وحدت ،الحقیقت ،حجاب العظمت ، مرتبہ الجمع والوجود، مرتبہ جامع، احدیت جامعہ، احدیت جمع، مقام جمع، حقیقت الحقائئق ،برزخ البرازخ برزخ کبریٰ ،عقل اول، قلم اعلیٰ اور روح اعظم وغیرہ کے الفاظ سے بھی یاد کیا جاتا ہے
تعین ثانی
تعین اول کے بعد جس چیز پرظہور اور تجلّی فرمائی اس کے لیے صوفیاء تعین ثانی یا تنزل ثانی یعنی دوسراعالم تجلی ثانی، حضرت الوہیت، حضرت جمع الوجود،حقیقت انسانی، حضرت اسماء الصفات منشاء الکمالات قبلہ تو جہات – عالم معانی، حضرت ارتسام – علم ازلی۔ علم تفصیلی – مرتبته العما- قاب قوسین مرتبة الباء،منتهی العابدين – منشاء، السوى – منشاء الكثرت – واحدیت – مرتبہ اللہ اور لوح محفوظ وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔، یہ دونوں تعین داخلی کہلاتے ہیں۔
کہتے ہیں
تعین ثالث
تنزل ثالث یعنی تعین ثالث تیسرا مظہرعالم ارواح کا ہے جو مادہ اور عوارض اوراجسام سے پاک ہیں اور رنگ اور اشکال نہیں رکھتے ان کے عالم کو عالم افعالی ۔ عالم انوار – عالم مجردات ۔ عالم مفارق – عالم ملکوت – عالم علوی – عالم غیب – عالم امر – عالم غیر مرئی ۔ عالم غیر محسوس عالم ربانی – عالم الطف – عالم بے رنگ کہتے ہیں
یہ عالم دو قسم پر ہیں ایک وہ قسم ہیں کہ عالم اجسام سے تعلق تدبیر و تصرف کا نہیں رکھتے ان کو کروبیاں(مقرب فرشتے) کہتے ہیں دوسرے ویسا تعلق رکھتے ہیں اون کو روحانی کہتے ہیں
تعین رابع
تنزل رابع یا تعین رابع یعنی چوتھا عالم مثال ہے وہ عالم لطیف بزرخ اور واسطہ ہے درمیان ارواح اور اجسام کے اس کو عالم برزخ عالم خیال عالم دل بولتے ہیں یہ عالم روحانی اور جو ہر نورانی ہے
عالم مثال دو قسم کے ہیں ایک وہ کہ جن کیلئے دماغی قوت شرط نہیں اس کو خیال منفصل – مثال منفصل ۔ مثال مطلق ۔ خیال مطلق کہتے ہیں
دوسرا وہ ہے کہ جس میں دماغی قوت شرط ہیں اس کو خیال متصل – مثال متصل – مثال مفید اورخیال مقید بولتے ہیں
تعین خامس
تنزل خامس یا تعین خامس یعنی پانچواں عالم اجسام ہے اس کو عالم شہادت کہتے ہیں
اجسام دو قسم پر میں علویات سفلیات علویات جیسا عرش و کرسی اور ساتوں آسمان اور ثوابت و سیارے
سفلیات جیسا غیر مرکب عناصر اور آثار علوی جیسا رعد و برق و ابر و باراں اور مرکبات جیسا معدنیات و جنگل حیوانات اوربدن انسانی اور اسی طرح دوسرے عالم جو تابع عالم اجسام کے میں جیسا حرکت وسکون اور عقل وخفت اور لطافت و کثافت اور رنگ و نوراور آوازو بو وغیرہ بوجھہ کہ بیچے عما کے بعد عقل کل اور نفس کل ہیولا کلی جس کو صبا کہتے ہیں اور بیعت پیدا ہوئی ہوئی مادہ جسم کا ہے جو الہ تعالی کھول پہنچے ادس کے صورتیاں عالم کے جہاں کے اور عنقا بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ معلوم ہوتا ہے اور ظاہر نہیں
علویات سفلیات مرکبات یہ تینوں تعین خارجی کہلاتے ہیں