طریقہ حضرت خواجگان نقشبندیہ قدس سرہم کی بلندی شان اور ان لوگوں کی شکایت میں جنہوں نے اس طریقہ میں نئی نئی باتیں نکالی ہیں اور ان کو اس طریقہ کی تکمیل سمجھی ہے۔ خواجہ اشرف کابلی کی طرف لکھا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَاهِرِيْنَ سب تعریف اللہ کی ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور صلوۃ وسلام سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر ہو۔
میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد اشرف خدا آپ کو اولیائے کرام کی تشریفات سے مشرف فرمائے۔
جان لیں کہ حضرت خواجگان نقشبندیہ قدس سرہم کا طریقہ خدا کی طرف پہنچانے والے سب راستوں سے زیادہ قریب راستہ ہے اور دوسروں کی انتہاء ان بزرگواروں کی ابتداء میں درج ہے اور انکی نسبتوں سے بڑھ کر ہے اس کا با عث یہ ہے کہ اس طریقہ میں سنت کو لازم پکڑتے ہیں اور بدعت سے بچتے ہیں اور حتی المقدور رخصت پرعمل جائز نہیں کرتے۔ اگرچہ بظاہر باطن میں فائدہ دینے والا ہو اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے۔ اگر بظاہر باطن میں مضر جانیں انہوں نے احوال ومواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذوق و معارف کو علوم شرعیہ کے خادم سمجھتے ہیں ۔ احکام شرعیہ کے نفس موتیوں کو بچوں کی طرح وجدو حال کے جوز و مویز(اخروٹ و منقی) کے عوض نہیں دیتے اور صوفیہ کی بے ہودہ باتوں پر مغرور اور فریفتہ نہیں ہوتے نص (شرعیہ)کو چھوڑ کر فص(فصوص الحکم) کی طرف نہیں جاتے اور فتوحات مدنیہ یعنی احادیث سے قطع نظر کرکے فتوحات مکیہ کی طرف التفات نہیں کرتے۔ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری تجلی ذاتی جو اوروں کے لئے بجلی کی طرح ہے ان بزرگواروں کے لئے دائمی ہے۔ وہ حضور جس کے پیچھےغیبت ہو ان بزرگواروں کے نزدیک بے اعتبار ہے – رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ یہ وہ بہادر ہیں جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ لیکن ہر ایک کا فہم ان بزرگواروں کے مذاق تک نہیں پہنچتا بکہ نزدیک ہے کہ اس طا ئفہ علیہ کے قاصر اور کم ہمت لوگ بھی ان بزرگواروں کے بعض کمالات سے انکار کر دیں ۔
قاصرے گر کندایں طائفہ راطعن و قصور حاشا للہ که برارم بزباں ایں گلہ را
ترجمہ: اگر کوئی قاصر لگائے طعنہ ان کے حال پر توبہ توبہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گلہ
ہاں اس طریقہ علیہ کے بعض متاخرین خلفا نے اس طریق میں بھی نئی نئی باتیں نکالی ہیں اور ان بزرگواروں کے اصل راستہ کو ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے بعض مریدوں کا یہ اعتقاد ہے کہ ان نئی نئی باتوں نے اس طریقہ کو کامل کردیا ہے ۔ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ منہ چھوٹا اور بڑی بات۔ بلکہ انہوں نے اس کے خراب اور ضائع کرنے میں کوشش کی ہے۔
افسوس ہزار افسوس کہ جن بدعتوں کا دوسرے سلسلوں میں نام و نشان تک پایانہیں جاتا وہ اس طریقہ علیہ میں پیدا کردی ہے ۔ نماز تہجد کو جماعت سے ادا کرتے ہیں اور گرد و نواح سے اس وقت لوگ تہجد کے واسطے جمع ہو جاتے ہیں اور بڑی جمعیت سے ادا کرتے ہیں اور یہ عمل مکروہ ہے بکراہت تحریمہ۔
بعض فقہا نے جن کے نزدیک تداعی (یعنی ایک دوسرے کو بلا نا)کراہت کی شرط ہے اورنفل کی جماعت کو مسجد کے ایک کونے میں جائز قرار دیا ہے ۔ تین آدمیوں سے زیادہ کی جماعت کو بالاتفاق مکروہ کہا ہے۔ . اور نیز نماز تہجد کو اس وجہ سے تیرہ رکعت جانتے ہیں جن میں سے بارہ رکعت کو کھڑے ہو کر ادا کرتے ہیں اور دو رکعت کو بیٹھ کر تا کہ ایک رکعت کا حکم پیدا کرے اور ان سے مل کر تیره ہو جا ئیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
حضرت پیغمبر ﷺنے جوکبھی تیرہ رکعت ادا کئے ہیں اورکبھی گیارہ رکعت اورکبھی نو اورکبھی سات تو اس میں نماز تہجد کے ساتھ وتر نے مل کر فردیت(طاق عدد) کا حکم پیدا کیا ہے ۔ نہ یہ کہ بیٹھ کر دورکعت ادا کرنے کو کھڑا ہو کر ایک رکعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس قسم کے علم وعمل کا باعث سنت سنیہ مصطفوی علی صاحبھا الصلوة والسلام کی عدم اتباع ہے۔
تعجب ہی کی بات ہے کہ علماء ہی کے شہروں میں مجتہدین علیہم الرضوان کا وطن ہے اس قسم کے محدثات اور بدعات رواج پا گئے ہیں ۔ حالانکہ ہم فقیر اسلامی علوم انہی کی برکت سے حاصل کرتے ہیں۔
وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ الصَّوَابَ اللہ تعالیٰ بہتری کا الہام کرنے والا ہے۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم که دل آزرده شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ: غم دل اس لیے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے جاناں . کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ318ناشر ادارہ مجددیہ کراچی