اس بیان میں رسول اللہ ﷺکی اطاعت میں حق تعالیٰ کی اطاعت ہے اور اس کے مناسب بیان میں سیادت و شرافت کی پناہ والے شیخ
فرید کی طرف لکھا ہے:
حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت فرمایا ہے ۔ پس خدائے تعالیٰ کی وہ اطاعت جو رسول کی اطاعت کے سوا ہو وہ حق تعالیٰ کی اطاعت نہیں ہے اور اس مطلب کی تاکید و تحقیق کے کلمہ قد(تاکیدیہ) لایا تا کہ کوئی ابو الہوس ان دونوں اطاعتوں کے درمیان جدائی ظاہر نہ کرے اور ایک دوسرے پر اختیار نہ کرے ۔ اور دوسرے مقام میں حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ ان لوگوں کے حال سے شکایت کرتا ہے جو ان دونوں اطاعتوں(اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت) کے درمیان فرق ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۔ چاہتے ہیں کہ الله اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق ڈالیں اور کہتے ہیں کہ بعض سے ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض سے انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے در میان رستہ نکالیں حقیقت میں یہی لوگ کافر ہیں۔
ہاں بعض مشائخ کبار قدس سرہم نے سکر(مستی) اور غلبہ حال کے وقت ایسی باتیں کی ہیں جن سے ان دو اطاعتوں کے درمیان تفرقہ (انتشار و پراگندگی) ظاہر ہوتا ہے اور دوسرے ایک کی محبت کو اختیار کرنے پر مشتمل ہیں۔
چنانچہ منقول ہے کہ سلطان محمود غزنوی اپنی بادشاہت کے زمانہ میں خرقان کے نزدیک اترا ہوا تھا۔ اس نے اپنے وکیلوں کو شیخ ابو الحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیجا اور التماس کی کہ اگرشیخ اس (سلطان) کی ملاقات کو آئیںاور وکیلوں کو کہہ دیا کہ اگرشیخ سے اس معاملہ میں توقف معلوم ہو تو تم آیت کریمہ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ پڑھ دینا ۔ جب وکیلوں نے کی طرف سے تو قف معلوم کیا تو انہوں نے آیت مذکورہ پڑھی ۔شیخ نے جواب میں فرمایا کہ میں أَطِيعُوا اللَّهَ میں اس قدر گرفتار ہوں کہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ سے شرمندہ ہوں ۔ تو پھر أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کی اطاعت کا ذکر کیا ہے۔ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے حق تعالیٰ کی اطاعت کو اس کے رسول کی اطاعت کے سوا سمجھا۔ یہ بات(سکر کی بنا پر ہے اور) استقامت سے دور ہے۔ مشائخ مستقيم الاحوال اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور شریعت و طریقت و حقیقت کے تمام مراتب میں حق تعالیٰ کی اطاعت کو رسول اللہ کی اطاعت میں جانتے ہیں اور اس اطاعت کو جو اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کے سوا ہے میں گمراہی خیال کرتے ہیں۔
اور نیز منقول ہے کہ شیخ مہنہ شیخ ابوسعید ابوالخیر ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور خراسان کے بزرگ سادات میں سے سید اجل بھی اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق اسی اثناء میں ایک مجذوب مغلوب الحال آنکلا۔ حضرت شیخ نے اس کو سید اجل پر مقدم کیا سید کویہ بات نا پسند معلوم ہوئی ۔ شیخ نے سید کو فرمایا کہ تمہاری تعظیم رسول اللہ ﷺکی محبت کے باعث ہے اور اس مجذوب کی تعظیم حق تعالیٰ کی محبت کے سبب ہے۔مستقيم الاحوال بزرگوار اس تفرقہ (انتشار و پراگندگی) کوبھی جائز نہیں سمجھتے اور رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت پرحق تعالیٰ کی محبت کے غلبہ کو سکرحال سے جانتے ہیں اور فضول و بیہودہ خیال کرتے ہیں لیکن اس قدرضرور ہے کہ مرتبہ کمال میں جو مرتبہ ولایت ہے حق تعالیٰ کی محبت غالب ہے اور مقام تکمیل میں جہاں مقام نبوت سے نصیب و حصہ ہے رسول اللہ ﷺکی محبت غالب ہے۔ ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَہٗ عَلىٰ اِطَاعَةِالرَّسُوْلِ الَّتِيْ هِيَ عَیْنُ اِطَاعَةِ اللهِ تَعَالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر جو عین اللہ کی اطاعت ہے ثابت قدم رکھے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ341ناشر ادارہ مجددیہ کراچی