اس بیان میں کہ جب کوئی درویشیوں کے پاس جائے تو اس کو چاہیئے کہ خالی ہوکر جائے تا کہ بھرا ہوا واپس آئے اور اس بیان میں کہ اول عقائد کو درست کرنا چاہیئے حکیم عبدالوہاب کی طرف لکھا ہے۔
دو دفعہ آپ قدم رنجہ کر کے آئے اور جلدی ہی اٹھ کر چلے گئے اس قدر فرصت بھی نہ ملی کی صحبت کے بعض حقوق ادا کئے جاتے۔ ملاقات کا مقصود افادہ(فائدہ پہنچانا) ہے یا استفاده(فائدہ حاصل کرنا) اور جب مجلس ان دونوں(حالتوں) سے خالی ہو تو وہ کسی گنتی میں نہیں ہے۔
اس گروہ(اہل اللہ) کے پاس(دل و دماغ) خالی ہو کر آنا چاہیئے تا کہ بھرے ہوئے واپس جائیں اور اپنی مفلسی کو ظاہر کرنا چاہیئے تا کہ ان کو شفقت آئے اور استفادہ کا راستہ کھل جائے ، سیر آنا اور سیر ہی چلا جانا(جیسا آیا ویسا چلا گیا) کچھ مزہ نہیں دیتا۔ امتلا یعنی پرشکمی کا پھل سوائے بیماری کے کچھ نہیں اور استغنا سے سوائےسرکشی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اول خسته دل کی عجز و نیاز اور پھر شکستہ دل کی توجہ۔ پس توجہ کے لئےعجز و نیاز شرط ہے۔
اس وقت ایک طالب علم نے آ کر آپ کی طرف سفارش کی طلب ظاہر کی ۔ دل میں آیا کہ چونکہ آپ کے صرف آنے کا بھی حق ہے۔ پس اپنی طرف سے جہاں تک ہو سکے، حق ادا کرنا چاہیئے اس لئے گزشتہ تدارک و تلافی کے لئے چند باتیں وقت و حال کے موافق قلم کی زبان سے لکھ کر آپ کی طرف ارسال کی گئی ہیں۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ الصَّوَابَ وَالْمُوَفِّقُ لِسَّدَادِ اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف الہام کرنے والا اور راستی کی توفیق دینے والا ہے۔
اے سعادت مند جو کچھ ہم پر اور آپ پر لازم ہے وہ یہ ہے کہ اول اپنے عقائد کو کتاب و سنت کے موافق درست کریں جس طرح کہ علمائے اہل حق نے کہ خدا ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے۔ ان عقائد کو کتاب وسنت سے لکھا ہے اور وہاں سے اخذ کیا ہے کیونکہ ہمارا اور آپ کا سمجھنا اگر ان بزرگواروں کے فہم کے موافق نہیں ہے تو وہ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے باطل احکام کو کتاب وسنت ہی سمجھتا ہے اور وہیں سے اخذ کرتا ہے حالانکہ ان سے کسی چیز کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور دوسرا احکام شرعی ازقسم حلال و حرام وفرض واجب کا علم حاصل کرنا ہے اور تیسرا اس علم کے موافق عمل کرنا اور چوتها تصفیہ تزکیہ (رذائل سے پاک) کا طریق جو صوفیہ کرام قدس سرہم سے مخصوص ہے جب تک عقائد کو درست نہ کریں احکام شرعیہ کا علم کچھ فائدہ نہیں دیتا اور جب تک یہ دونوں (عقائد و علم شریعت)متحقق نہ ہوں علم نفع نہیں دیتا اور جب تک یہ تینوں(عقائد و علم شریعت اور عمل) متحقق نہ ہو ں تصفیہ و تز کیہ کا حاصل ہونا محال ہے ان چار رکنوں اور ان کے متممات ومکملات (جیسا کہ سنت فرض کو کامل کرنے والی ہے) کے بعد جو کچھ ہے، سب فضول ہے اور دائرہ مالا یعنی میں داخل ہے اور عَلَامَةُ إعْرَاضِ اللَّهِ تَعَالَى عَنْ عَبْدِهِ اشْتِغَالُهُ بِمَا لَا يَعْنِيهِ اور لایعنی و بیہودہ بات کو ترک کرنا اور فائدہ مند بات میں مشغول ہونا انسان کے حسن اسلام کی علامت ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّحِیَّاتُ
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ347ناشر ادارہ مجددیہ کراچی