ماتم پرسی میں شرف الدین حسین بدخشی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
رنج و مصائب اگر چہ بظاہرتلخ اور جسم کو تکلیف دینے والے ہیں لیکن باطن میں شیریں اور روح کو لذت بخشنے والے ہیں کیونکہ جسم و روح گویا ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں ۔ ایک کے رنج میں دوسرے کی لذت ہے۔ وہ پست فطرت جو ان دوضدوں اور ان کے لوازم کے درمیان تمیز نہیں کرسکتا۔ وہ بحث سے خارج ہے اور باہم مخاطب ہونے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ یہ لوگ چار پاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔
اگه از خویشتن چونیست جنیں چہ خبردار داز چنان و چنیں
ترجمہ: جس کو اپنی خبر نہیں ہے بھلا حال اوروں کا پھر وہ جانے کیا
وہ شخص جس کا روح تنزل کر کے مرتبہ جسم میں آ ٹھہرا ہو اور اس کا عالم امر عالم خلق کے تابع ہو گیا ہو۔ اس معمہ کے بھید کو کیا جانتا ہے جب تک روح اپنے اصلی مقام میں رجعت(مقام قرب حق سے گر جانا) نہ کرنے اور امر خلق سے جدا نہ ہو جائے اس معرفت کا جمال جلوہ گر نہیں ہوتا۔ اس دولت کا حاصل ہوتا ، اس موت سے وابستہ ہے جو اجل مسمی یعنی وقت مقررہ سے پہلے حاصل ہوتی ہے ۔(حسی و صوری موت موتوا قبل ان تموت)
اور مشائخ طریقت قدس سرہم نے اس کو فنا سے تعبیر کیا ہے ۔
خاک شو خاک تر بردید گل که بجز خاک نیست مظہر کل
ترجمہ خاک بن جاؤگے تو بن جاؤ گے پھول خاک ہی میں سے اگالاؤکے پھول
اور جو شخص مرنے سے اول نہیں مرا، مصیبت تو اس کے لئے ہے اور اس کی ماتم پرسی بجالانی چاہیئے۔ آپ کے والد مرحوم کے انتقال کی خبر جو نیک نامی میں مشہور تھے اور امر معروف اور نہی منکر کے طریق کو مدنظر رکھتے تھے ۔ واقعی مسلمانوں کے غم واندوہ کا موجب ہے۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔
میرے فرزند!طرق صبر کو اختیار کر کے صدق و دعا و استغفار سے آگے کئے ہوؤں(مرنے والوں) کی مدد و معاونت کریں کہ مردوں کو زندہ کی امداد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ حدیث نبوی ﷺمیں آیا ہے۔
مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ کہ مردہ فریاد کرنے والے غریق کی طرح ہوتا ہے جو اپنے باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے دعا کا منتظر رہتا ہے جب اس کو ان کی طرف سے دعا پہنچتی ہے تو اس کو دنیا و مافیہا سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی حدیث میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے قبروالوں پر پہاڑوں جتنی رحمت نازل فرماتا ہے اوریہ بھی لکھا ہے کہ زندوں کا ہد یہ مردوں کی طرف یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ کی جناب میں استغفار کریں۔
باقی یہ نصیحت ہے کہ ہمیشہ ذکروفکر میں رہیں کیونکہ فرصت بہت ہی تھوڑی ہے اس کو ضروری کاموں میں صرف کرنا چاہیئے ۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ350ناشر ادارہ مجددیہ کراچی