ماہ رمضان کی فضیلت اور قرآن مجید کے ساتھ اس کی اس مناسبت کے بیان میں جو اس مہینے میں اس کے نازل ہونے کا سبب ہے اور تمریعنی کهجور کی جامعیت کے بیان میں جس سے افطار کرنا مستحب ہے اور اس کے مناسب بیان میں خواجہ محمد صدیق بدخشی کی طرف لکھا ہے۔ حقیقت رمضان (رمضان کمالات صفاتیہ ظلیہ کا جامع ہے)
باسمہ، سبحانہ ! كلام کا شان جو اور شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) ذاتیہ میں سے ہے۔ تمام کمالات ذاتی اور اور شیونات صفاتی کا جامع ہے جیسا کہ علوم گزشتہ(مکتوب 14 دفتر اول) میں ذکر ہو چکا ہے اور ماہ مبارک رمضان تمام خیرات و برکات کا جامع ہے اور جو خیر و برکت ہے وہ حضرت ذات ہی کی طرف سے پہنچتی ہے اور اس کے شیونات کا نتیجہ ہے کیونکہ جو شرو نقص کہ وجود میں آتا ہے اس کا منشاء و مبدأ ذات و صفات محدثہ ہے. مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ خودنص قاطع ہے۔
پس اس ماہ مبارک کی خیرات و برکت ان کمالات ذاتیہ کا نتیجہ ہیں جن کی جامع شان كلام ہے اور قرآن مجید اس شان جامع کی تمام حقیقت کا حاصل ہے۔ پس اس ماہ مبارک کو قرآن مجید کے ساتھ پوری پوری مناسبت ہے کیونکہ قرآن مجید تمام کمالات کا جامع ہے اور یہ مہینہ ان تمام خیرات کا جامع ہے جوان کمالات کےنتائج اور ثمرات ہیں ۔ اسی مناسبت کے باعث قرآن مجید اس مہینہ میں نازل ہوا ہے۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اور اس مہینے میں شب قدر اس مہینے کا خلاصہ اور لب لباب ہے۔ وہ رات گویا اس کا مغز ہے اور یہ مہینہ اس کا پوست پس جس کا یہ مہینہ جمعیت (یعنی تمام فرائض کو بحسن و خوبی)سے گزر جائے اور اس مہینے کی خیرات و برکات سے فائدہ مند ہو جائے اس کا تمام سال جمعیت کے ساتھ اور خیر و برکت سے بھرا ہوا گزرتا ہے۔ وَفَّقَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ لِلْخَيْرَاتِ وَالْبَرَكَاتِ فيِ هَذَا الشَّهْرِ الْمُبَارَکِ وَرَزَقَنَا اللهَ سُبْحَانَهٗ النَّصِيْبِ الْأَعْظَمَ حق تعالیٰ ہم کو اس مبارک مہینے کی خیرات و برکات حاصل کرنے کی توفیق دے اور بہت حصہ عطا فرمائے۔
حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ کہ جب کوئی شخص تم میں سے روزہ افطار کرنا چاہے تو اس کو تمر سے افطار کرنا چاہیئے کیونکہ اس میں برکت ہے۔ آنحضرت ﷺنے روزہ تمر سے افطار کیا ہے اور تمر میں برکت کا موجب یہ ہے کہ اس کا درخت ایک ایسا درخت ہے جو انسان کی طرح جامعیت اور عدلیت کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر ﷺنے اس نخل کو بنی آدم کی عمر فرمایا ہے کیونکہ وہ آدم کی مٹی سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے۔
أَكْرِمُوا عَمَّتَكُمُ النَّخْلَةَ، فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنْ بَقِيَّةِ طِينَةِ آدَمَ (اپنی پھوپھی خالہ کی عزت کرو کیونکہ وہ حضرت آدم کی طینت سے پیدا کی گئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کا نام برکت اسی جامعیت کے اعتبار سے ہو۔
پس اس کے پھل سے جوتمر ہے، افطار کرنا صاحب افطار کی جزو بن جاتا ہے اور اس کی حقیقت جامع اس جزئیت کے اعتبار سے اس کے کھانے والے کی حقیقت کی جزو ہو جاتی ہے اور اس کا کھانے والا اس اعتبار سے ان بے شمار کمالات کا جامع ہوجاتا ہے جو اس تمر کی حقیقت جامع میں مندرج ہے۔
یہ مطلب اگر چہ اس کے مطلق کھانے میں بھی حاصل ہو جاتا ہے لیکن افطار کے وقت جو روزہ دار کے شہوات مانع اور لذات فانیہ سے خالی ہونے کا وقت ہے اس کا کھانا زیادہ تاثیر کرتا ہے اور یہ مطلب کامل اور پورے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
اور یہ جو آنحضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ نِعْمَ السَّحُورُ لِلْمُؤْمِنِ التَّمْرُ مومن کی بہتر سحرگی تمر ہے، اس اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ اس کی غذا میں جو صاحب غذا کی جزو ہو جاتی ہے اس کی حقیقت کی تکمیل ہے نہ کہ اس کی غذات کی حقیقت اور جب یہ مطلب روزه میں مفقود ہے تو اس کی تلافی کے لئے تمرکی سحور پر ترغیب فرمائی کہ گویا اس کا کھانا تمام ماکولات کے کھانے کا فائدہ رکھتا ہے اور اس کی برکت جامعیت کے اعتبار سے افطار کے وقت تک رہتی ہے اور غذا کا یہ فائدہ جو مذکور ہو چکا ہے اس تقدیر پر مترتب ہوسکتا ہے جبکہ وہ غذا تجویز شرعی کے مطابق واقع ہو اور شرعی حدود سے سرمو متجاوز نہ ہو اور نیز اس فائدہ کی حقیقت اس وقت میر ہوتی ہے جبکہ اس کا کھانے والا صورت سے گزر کر حقیقت تک جا پہنچا ہو اور ظاہر سے باطن تک پہنچ گیا ہوں تا کہ غذا کا ظاہر اس کے ظاہر کو مدد دے اور غذا کا باطن اس کے باطن کو مکمل کرے ورنہ صرف ظاہری امداد پر ہی موقوف ہے اور اس کا کھانے والاعین قصور میں ہے۔ ۔
سعی کن تا لقمہ راسازی گہر بعدازاں چند انکه میخواہی بخو
ترجمہ کر یہ کوشش تا بنے گوہر غذا بعد اس کے جس قدر چاہے تو کھا
جلدی افطار کرنے اور سحری دیر سے کھانے میں حکمت یہی ہے کہ صاحب غذا کے لئے غذا کی تکمیل ہو جائے ۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ358ناشر ادارہ مجددیہ کراچی