اس بیان میں کہ اسلام و کفر ایک دوسرے کی ضد(مخالف) ہیں۔ ان دو ضدوں کا جمع ہونا محال ہے اور ایک کے عزت دینے میں دوسرے کی خواری ہے۔ اخیر تک حضرت خواجہ سلمہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ذلیل کرنے اور ان کے ساتھ نہ ملنے جلنے اور اس اختلاط ضرر کے بیان میں فرمایا ہے اور اس بیان میں کہ دنیا اور آخرت بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ سیادت و شرافت کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَنْعَمَ عَلَيْنَا وَهَدَانَا إِلٰى الْإِسْلَامِ وَجَعَلَنَا مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہم کو اسلام کی طرف ہدایت کی اور ہم کو حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی امت سے بنایا۔ ” . دونوں جہان کی سعادت فقط سردار دوجہان ﷺکی تابعداری سے وابستہ ہے اور آنحضرت ﷺکی متابعت یہ ہے کہ اسلامی احکام بجا لائے جائیں اور کفر کی رسمیں مٹا دی جائیں کیونکہ اسلام و کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ ایک کو ثابت و قائم کرنا دوسرے کے دور ہو جانے کے باعث ہے اور ان دوضدوں کے جمع ہونے کا احتمال محال(ناممکن) ہے۔
حق تعالیٰ اپنے حبیب علیہ الصلوة والسلام کو فرماتا ہے۔ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پرسختی کرو۔
پس جب اپنے پیغمبر کو جو خلق عظیم سے موصوف ہے کفار کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان پرسختی کرنا خلق عظیم میں داخل ہے۔ پس اسلام کی عزت کفر اور کافروں کی خواری میں ہے جس نے اہل کفر کو عزیز رکھا اس نے اہل اسلام کو خوار کیا۔ ان کے عزیز رکھنے سے یہ مراد نہیں کہ صرف ان کی تعظیم کریں اور بلند بٹھائیں بلکہ اپنی مجلسوں میں جگہ دینا اور ان کی ہمنشینی کرنا اور ان کے ساتھ گفتگو کرنا، سب اعزاز میں داخل ہے کتوں کی طرح ان کو دور کرنا چاہیئے اور اگر کوئی دنیاوی غرض ان کے متعلق ہو جوان کے بغیر حاصل نہ ہوتی ہو تو پھر بھی بے اعتباری کے طریق کو مدنظر رکھ کر بقدر ضرورت ان کے ساتھ میل جول رکھنا چاہیئے اور کمال اسلام تو یہ ہے کہ اس دنیاوی غرض سے بھی درگزر کر یں اور ان کی طرف نہ جائیں۔
حق تعالیٰ نے اہل کفر کو اپنا اور اپنے پیغمبر کا دشمن فرمایا ہے۔ پس ان خدا اور رسول کے دشمنوں کے ساتھ ملنا جلنا اور محبت کرنا پڑا بھاری گناہ ہے۔ کم سے کم ضرر ان کی ہمشینی اور ملنے جلے میں یہ ہے کہ احکام شرعی کے جاری کرنے اور کفر کی رسموں کو مٹانے کی طاقت مغلوب ہو جاتی ہے اور دوستی کاحیا اس کے مانع ہو جاتا ہے اور بے ضرر حقیقت میں بہت بڑا ضرر ہے۔ خدا کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت کرنا خدائے تعالیٰ اور اس کے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی تک پہنچا دیتا ہے۔ ایک شخص گمان کرتا ہے کہ وہ اہل اسلام سے ہے اور الله اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان وتصدیق رکھتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس قسم کے برے اعمال اس کے اسلام کی دولت کو پاک و صاف لے جاتے ہیں۔ نَعُوذُ بِاَللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا (ہم اس بات سے اور اپنے نفسوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں)
خواجہ پندارد که مرد واصل است حاصل خواجہ بجز پندار نیست ترجمہ: خواجہ کرتا ہے گمان واصل ہوں میں لیک حاصل جز گماں کچھ بھی نہیں
ان نابکاروں کا کلام اسلام اور اہل اسلام پر ہنسی ٹھٹھہ کرنا ہے۔ ہر وقت اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اگر قابو پائیں تو ہم کو اسلام سے باہر کر دیں یا سب کوقتل کر دیں یا کفر میں لوٹا دیں۔ پس اہل اسلام کو بھی شرم چاہے کہ الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ حیاء ایمان سے ہے اور مسلمانی کی عارضروری ہے۔ ہمیشہ ان کی خواری کے در پے رہنا چاہیئے۔ ہندوستان میں اہل کفر سے جزیہ دور ہونے کا باعث یہی ہے کہ اہل کفر اس ملک کے بادشاہوں کے ساتھ ہم نشین ہیں۔ ان سے جزیہ لینے کا اصلی مقصود ان کی ذلت و خواری ہے اور یہ خواری اس حد تک ہے کہ جزیہ کے ڈر سے اچھے کپڑے نہ پہن سکیں اور شان و شوکت سے نہ رہ سکیں اور مال کے لینے سے ہمیشہ ڈرتے اور کا نپتے رہیں۔ بادشاہوں کو کیا لائق ہے کہ جزیہ لینے سے منع کریں۔ حق تعالیٰ نے جزیہ کو ان کی خواری کے لئے وضع کیا ہے اس سے مقصود ان کی رسوائی اور اہل اسلام کی عزت اور غلبہ ہے۔ ۔
جہود ہر کے شود کشتہ سود اسلام است ترجمہ: جس قدر ہوں قتل منکر دین کا ہے فائده
اہل کفر کے ساتھ بغض و عناد رکھنا دولت اسلام کے حاصل ہونے کی علامت ہے۔ حق تعالیٰ نے کلام مجید میں ان کو نجس اور دوسری جگہ پلید فرمایا ہے۔ پس چاہیئے کہ اہل اسلام کی نظروں میں اہل کفر نجس و پلید دکھائی دیں جب ایسا دیکھیں اور جانیں گے تو ضرور ان کی محبت سے پرہیز کریں گے اور ان کے ساتھ ہم نشینی کرنے کو برا سمجھیں گے۔ ان سے کچھ پوچھنے اور اس کے موافق عمل کرنے میں ان دشمنوں کی کمال عزت ہے۔ بھلا جو کوئی ان سےہمت طلب کرے اور ان کے ذریعے دعا مانگے ، وہ کیا فائدہ دے گی جیسا کہ حق تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے۔ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ان دشمنوں کی دعا باطل اور بے حاصل ہے۔ مقبولیت کا یہاں کیا احتمال ہے۔ ہاں اس قد رفسادضرور لازم آتا ہے کہ ان کتوں کی عزت بڑھ جاتی ہے اگر یہ دعا بھی کریں گے تو اپنے بتوں کو درمیان میں وسیلہ لا ئیں گے تو خیال کرنا چاہیئے کہ یہ معاملہ کہاں تک پہنچ جاتا ہے اور مسلمانی کی بوبھی نہیں رہنے دیتا۔
ایک بزرگ نے فرمایا ہے کہ جب تک تم میں سے کوئی دیوانہ نہ ہو جائے مسلمانی تک نہیں پہنچتا اس دیوانہ پن سے مراد یہ ہے کہ کلمہ اسلام کو بلند کرنے کے لئے اپنے نفع ضرر سے درگز ر کیا جائے۔ مسلمانی کے ساتھ جو کچھ ہو جائے ہونے دو ۔ اگر اس کے ساتھ کچھ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں کیونکہ مسلمانی خدائے تعالیٰ اور اس کے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی رضامندی ہے اور رضائے مولی سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہے۔ رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَّرَسُوْلاً ہم راضی ہو گئے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے اور حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے نبی اور رسول ہیں۔ یا اللہ تو ہم کو سید المرسلین ﷺکے طفیل اول آخر اس عقیدہ پررکھ۔
وقت کے موافق جو کچھ ضروری اور مناسب معلوم ہوامجمل مختصر طور پر لکھ کر بھیج دیا ہے۔ بعدازاں اگر توفیق رفیق ہوئی تو پھر کسی موقع پر اس سے زیادہ مفصل طور پر لکھ کر ارسال کیا جائے گا۔
جس طرح اسلام کفر کی ضد ہے اسی طرح آخرت بھی دنیا کی ضد ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں جمع نہیں ہوتیں ۔
دنیا کا ترک دوقسم پر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ بقدر ضرورت کے سوا اس کے تمام مباحات کو ترک کردیا جائے اور یہ تر ک دنیا کی اعلی قسم ہے اور دوسری قسم یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ امور سے پرہیز کیا جائے اور مباح امور سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ یہ قسم بھی خاص کر ان دونوں میں نہایت ہی کم یاب اور عزيز الوجود ہے۔
آسماں نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالی است پیش خاک تود ترجمہ: عرش سے نیچے ہے گر چہ آسماں لیکن اونچا ہے زمین سے اے جواں
پس نا چار چاندی سونے کے استعمال اور حریری یعنی ریشم کے پہننے وغیرہ سے جن کو شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوة والسلام نے حرام کیا ہے، پرہیز کرنا چاہیئے ۔ چاندی سونے کے برتن جو شان و شوکت کے لئے بناتے ہیں ۔ البته گنجائش رکھتے ہیں لیکن ان کا استعمال کرنا یعنی ان میں پانی پینا اور کھانا کھانا اور خوشبو ڈالنا اور سرمہ دان بنانا وغیرہ وغیرہ سب حرام ہیں۔
الغرض حق تعالیٰ نے امور مباح کا دائرہ بہت وسیع کیا ہے اور ان کے ساتھ عیش وعشرت حاصل کرنے میں امور محرمہ کی نسبت زیادہ لذت و خوشی ہے کیونکہ مباحات میں حق تعالیٰ کی رضامندی ہے اور محرمات میں اس کی نارضامندی۔ عقل سلیم ہرگز پسند نہیں کرتی کہ کوئی شخص اس لذت کے لئے جو بقاء بھی نہیں رکھتی۔ اپنے مولی کی نارضامندی اختیار کرے ۔ حالانکہ اس محرمہ لذت کے عوض مباح لذت بھی تجویز فرمائی ہے۔ وَرَزَقَنَا اللهَ سُبْحَانَه ٗوَاِيَّاکُمْ عَلىٰ مُتَابِعَةِ صَاحِبِ الشَّرِيْعَةِ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَوۃُ وَالسَّلَامُ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو صاحب شریعت علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام کی متابعت پر استقامت عطا فرمائے۔
حل وحرمت کے معاملہ میں ہمیشہ علمائے دیندار کی طرف رجوع کرنا چاہیئے اور انہی سے پوچھنا چاہیئے اور انہی کےفتویٰ کے موافق عمل کرنا چاہیئے کیونکہ نجات کا راستہ شریعت ہی ہے اور شریعت کے بعد جو کچھ ہے سب باطل و بےاعتبار ہےفَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ حق کے بعد گمراہی ہی ہے۔ والسلام اولا واخرا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ360ناشر ادارہ مجددیہ کراچی