شیخ عبد الصمد سلطان پوری کی طرف لکھا ہے اس کے اس سوال کے جواب میں کہ مرید نے اپنے پیر سے کہا کہ اگر خاص وقت میں جبکہ میں حق تعالیٰ کے ساتھ ہوں تو در میان آجائے تو میں تیرے سر کوتن سے جدا کر دوں گا اور پیر نے اس بات کو پسند کیا اور بغل میں لے لیا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍوَّاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ – اللہ رب العالمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر صلوة وسلام ۔ آپ کا شریف اور لطیف خط جو از روئے کرم کے صادر فرمایا تھا،پہنچ کر خوشی کا باعث اس میں ایک استفسار لکھا تھا جس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ میرے مخد دم سب بڑھ کر اعلی مقصود اور بزرگ مطلوب حق تعالیٰ کی جناب میں واصل ہونا ہے چونکہ طالب ابتداء میں مختلف تعلقات کے باعث کمال آلودگی اور تنزل میں ہے اور حق تعالیٰ کی بارگاہ کمال پاکیزگی اور بلندی میں ہے اور وہ منا سبت جو طالب و مطلوب کے درمیان .فیض لینے یادینے کا سبب ہے، مسلوب ہے۔ اس لئے رستہ جاننے والے تجر بہ کار پیر کی ضرورت ہے جو دونوں کے درمیان بمنزلہ برزخ(واسطہ) کے ہو اور دونوں طرف سے حظ وافر (پورا پورا حصہ) رکھتا ہوتاکہ طالب کے مطلوب تک پہنچنے کا واسطہ ہو جائے اور جس قدر طالب کو مطلوب کے ساتھ مناسبت پیدا ہوتی جائے گی اسی قدر پیر اپنے آپ کو درمیان سے الگ کرتا جائے گا اور جب طالب کی مطلوب سے کامل مناسبت پیدا ہوگئی تو پیر نے پورے طور پر اپنے آپ کو ان سے الگ کرلیا اور اپنے وسیلہ کے بغیر طالب کو مطلوب سے واصل کر دیا۔ پس ابتداءتوسط میں(مرید) پیر کے آئینے کے بغیر مطلوب کو نہیں دیکھ سکتے اور انتہاء میں آئینہ پیر کے وسیلہ کےسوا مطلوب کا جمال جلوہ گر ہوتا ہے اور وصل عریانی حاصل ہوجاتا ہے اور یہ جو کہا ہے کہ پیر اس وقت حاضر ہو تو میں اس کے تن سے سرجدا کر دوں یہ دیوانہ پن ہے کیونکہ استقامت والے لوگ ایسا نہیں کہتے اور بے ادبی کی راہ پر نہیں چلتے اور اپنی تمام مرادوں کو پیرہی کی برکات سے حاصل کرتے ہیں۔ والسلام –
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ374ناشر ادارہ مجددیہ کراچی