کمال و جمال ذاتی اور اس سے فوق کے مرتبہ مقدسہ کے دقائق میں اور اس بیان میں کہ ان دونوں مرتبوں میں سے حضرت حبیب خلیل وکلیم علیہ الصلوة والسلام کے تعینات کا حصہ کیا ہے اور حضرت ایشاں قدس سرہ کے تعین کابہرہ کونسا ہے۔ حضرت مخدوم زادہ خواجہ معصوم سلمه الله تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حضرت حق سبحانه وتعالى في حد ذاتہ جمیل ہے اور ذاتی حسن و جمال اس کے لئے ثابت ہے۔یہ حسن و جمال وہ نہیں جو ہمیں مکشوف و مدرک ہو سکے یا ہمارے تعقل وتخیل میں آ سکے اس کے علاوہ اس بارگاہ میں ایک اور اس قسم کا مرتبہ و مقدسہ ہے جہاں تک یہ حسن و جمال باوجود نہایت عظمت و کبریانہیں پہنچ سکتا اور اس کو حسن و جمال سے متصف نہیں کرسکتا ۔تعین اور ان کا پہلاظل ہے لیکن اس مرتبہ اقدس میں جمال و کمال کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ وہ مرتبہ نہایت عظمت و کبریا کے باعث کسی تعین کے ساتھ متعین نہیں ہوسکتا اور کسی آئینہ میں نہیں آ سکتا۔ ہاں اس مرتبہ اقدس کا ایک سرونشان اس تعین اول کے مرکز دائرہ میں بطور امانت رکھا ہے اور اس بے نشان کا نشان اس میں پوشیدہ کیا ہے۔ یعنی جس طرح تعین اول ولایت خلیلی کا منشاء ہے۔ وہ سرونشان جو اس تعین کے مرکز دائرہ میں رکھا ہوا ہے۔ ولایت محمدی کا منشاء ہے۔ وہ ذاتی حسن و جمال جس کاظل تعین اول ہے۔ صباحت سے مشابہت رکھتا ہے۔ جو عالم مجاز میں حسن رخسار اور جمال خال کی قسم سے ہے اور وہ سرونشان جو مرکز میں امانت رکھا ہے۔ملاحت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جو درستی قد اور خوبی رخسار اور حسن چشم اور جمال خال کے ماسوا ایک ذوقی امر ہے جب تک ذوق حاصل نہ ہو۔ اس کو نہیں پاسکتے ۔ کوئی شاعر کہتا ہے۔ بیت
آن دارد آن نگار کہ آں ہست ہر چہ ہست آن را طلب کنید حریفاں کہ آن کجا است
ترجمہ بیت: مرامعشوق رکھتا ہے وہ ہے جو کچھ کے رکھتا ہے اسے ڈھونڈو مرے یارو کہاں ہے کس جگہ وہ ہے۔
اس بیان سے ان دونوں ولایتوں کے درمیان فرق معلوم کر سکتے ہیں۔ اگر چہ دونوں حضرت ذات تعالیٰ کے قرب سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ایک کا مرجع(ولایت محمدی) ذات کے کمالات ہیں اور دوسرے کا مآل(ولایت ابراہیمی)صرف ذات تعالیٰ چونکہ ملاحت صباحت سے برتر ہے۔ اس لئے صباحت کے مراتب طے کرنے کے بعد ملاحت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب تک ولایت ابراہیمی کے تمام مقامات تک وصول میسر نہ ہو۔ ولایت محمدی کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے ممکن ہے کہ اسی سبب سے حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی ملت کی متابعت پر مامور ہوئے ہوں تا کہ اس منابت کے وسیلے سے اپنی ولایت کی حقیقت تک پہنچ جائیں اور اس سبب سے اپنی ولایت کی حقیقت کے ساتھ کہ جس کی تعبیر ملاحت سے کی گئی ہے۔ متحقق ہوں چونکہ ہمارے حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو ولایت خلت کے مرکز دائره کے ساتھ جو حضرت اجمال ذات کے بہت قریب ہے۔ ذاتی مناسبت ہے اور محیط دائرہ (دائرہ کا مرکز)کے ساتھ جو کمالات ذات کی تفصیل کی طرف توجہ رکھتا ہے۔ بہت ہی کم مناسبت ہے اس لئے جب تک محيط دائرہ کے کمالات سے متحقق نہ ہوں ولایت خلت تمام نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ صلوات منطوقہ(نماز ماثورہ) میں آیا ہے۔ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ جیسے کہ تو نے حضرت ابراہیم پر درود بھیجا ہے تا کہ ولایت خلت کے تمام کمالات میسر ہو جائیں جیسے کہ اس ولایت کے صاحب کو میسر ہوئے تھے۔ چونکہ ولایت محمدی کا مکان طبعی ولایت خلیل کے مرکز دائرہ کا نقطہ ہے اور اس کا سیر بھی اس دائرہ کے سیر مرکزی تک محدود ہے۔ اس لئے وہاں سے نکلنا اورمحیط دائرہ تک پہنچنا اور اس کے کمالات کا حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور مقتضائے طبیعت کے برخلاف ہے۔ پس آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے افراد امت میں سے ایک متوسط ہونا چاہیئے جو حضرت علیہ الصلوة والسلام کی تبعیت کے باعث اس مرکز کے عین میں ہو اور دوسری طرف سے اس دائرہ کے محیط کے ساتھ مناسبت رکھتا ہوتا کہ اس مرتبہ کے کمالات کو حاصل کرے اور ان مرتبہ کی حقیقت سے متحقق ہو اور اس کا پیغمبر متبوع بھی مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً كَانَ لَهُ أَجْرُهَا وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا (جس نے کوئی نیک سنت یا طریقہ جاری کیا اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس شخص کا اجر بھی ہے جس نے اس پر عمل کیا ) کے موافق اس فرد کےوصول کے ذریعے ان کمالات کے ساتھ متحقق ہوجائے اور ولایت خلیلی کے مراتب کو تمام کرلے اس معما کے سرکا بیان جو اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ ہے کہ ولایت خلت کے مرکز دائرہ کا نقطہ جومحبیت کے باعث اس کے باقی تمام نقطوں سے ممتاز ہے۔ اگرچہ بسیط ہے لیکن چونکہ محبیت کے اعتبار کے ساتھ محبوبیت (محبوب ہونے کی کیفیت) کے اعتبار کوبھی متضمن ہے اس لئے دائرہ کی صورت پیدا کر لیتا ہے۔ یعنی اس مرکز سے ایک اور دائرہ پیدا ہوتا ہے جن کا محیط محبیت کا اعتبار ہے اور اس کا مرکز محبوبیت کا اعتبار۔ ولایت موسوی کامنشاءمحبیت کا اعتبار ہے جو اس دائرہ کا محیط اور ولایت محمدی کا منشا محبوبیت کا اعتبار ہے جو اس دائرہ کا مرکزی ہے۔ حقیقت محمدی کا حاصل ہونا اس جگہ تصور کرنا چاہیئے۔ ہزار سال کے بعد دائرہ ثانی کے اس نقطہ مرکز نے بھی کہ جس سے حقیقت محمدی وابستہ ہے وسعت پیدا کی اور دو اعتبار اس میں ظاہر ہو کر دائرہ کی طرح بن گیا جس کا مرکز محبوبیت صرف ہے اور اس کا محیط محبیت سے ملی ہوئی محبوبیت ولایت احمدی کا منشاء اسی دائرہ کا مرکز ہے احمد آنحضرت کا دوسرا نام ہے جو آسمان والوں میں مشہور ہے۔ جیسے کہ علماء نے کہا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسی نے جو اہل سموات میں سے ہو ئے آنحضرت کے تشریف لانے کی خوشخبری اسم احمد سے دی ہے اور اسم مبارک کو ذات احد جل شانہ کے ساتھ بہت ہی تقرب حاصل ہے اور دوسرے اسم سے ایک درجہ حضرت ذات جل شانہ کے نزدیک تر ہے یہ اسم اسم مبارک احد سے ایک حلقہ میم سے جدا ہوا ہے(مزید مکتوب نمبر 100 دفتر سوم) جو اس محبت کا مبداء ہے جو تمام ظہورو اظہار کا باعث ہوئی ہے نیز یہ میم جواسم احمد میں مندرج ہے۔ قرآن کے حروف مقطعات میں سے ہے جو سورتوں کے اول میں نازل ہوئے ہیں اور پوشیدہ اسرار میں سے ہیں۔ اس حرف مبارک میم کو آخرت کے ساتھ ایک خاص خصوصیت حاصل ہے جو ان کی محبوبیت کا باعث ہوئی ہے اور ان کو سب برتری اور فوقیت دی ہے۔ اب ہم پر اصل بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اس دائرہ کہ محیط جومحبیت سے ملی ہوئی محبوبیت سے مراد ہے۔آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے افراد امت میں سے اس فرد کی ولایت کا منشاء ہے جو ولایت محمدی مرکزی کے حاصل ہونے کے باوجود محيط دائرہ کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہو اور اس کے کمالات کو بھی حاصل کیا ہو ظاہر ہے کہ یہ دوسری دولت اس کو ولایت موسوی سے حاصل ہوئی ہے اور ان ہر دو ولایت عظمی کے طفیل مرکز ومحیط کے کمالات کا جامع ہوا ہے اور مقرر ہے کہ جو کمال امت کو میسر ہوتا ہے۔ وہ کمال مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً کے موافق اس امت کے نبی کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ پس آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کو اس فرد کے وسیلے سے اس دائرہ کے کمالات بھی میسر ہوئے اور ولایت خلت آنحضرت کے حق میں بھی تمام ہوئی اور دعا اَلّٰلهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ہزار سال کے بعد قبول ہوئی۔ ولایت خلت کے تمام ہونے کے بعد حضرت علیہ الصلوة والسلام کا کاروبار اس سرونشان کے ساتھ ہے جو مرکز میں امانت رکھا ہوا ہے جس کو ملاحت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس فرد کو امت کی نگہبانی اور محافظت کے لئے اس مقام سے عالم کی طرف واپس لوٹا دیا ہے اور خودخلوت خانہ غیب الغیب میں محبوب کے ساتھ خلوت رکھی ہے۔ بیت
ھَنِیئًا لأربَابِ النَعِیمِ ِنَعِيمُهَا وَلِلعَاشِقِ ِالمِسكِين ِمَا يَتَجَرَّعُ
ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک
جاننا چاہیئے کہ تیسرے مرکز کا محیط اگر چہ تعین اول کے مرکز کے محیط کی نسبت بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے زیادہ جامع ہے کیونکہ جو چیز حضرت ذات جل شانہ کے نزدیک تر ہے۔ وہی زیادہ جامع ہے۔ اس کی چھوٹائی کو انسان کی چھوٹائی کی طرح جاننا چاہیئے جو باوجود چھوٹا ہونے کے عالم کے تمام گروہوں سے زیادہ جامع ہے نیز وہ شخص جو اس محیط کے کمالات سے متحقق ہوا ہے اور مرکز کے اجمال سے محيط کی تفصیل میں آیا۔ اس کی وہ بے مناسبتی جومحیط و تفصیل سے رکھتا تھا، زائل ہوگی اور بے تکلف ایک تفصیل سے دوسری تفصیل میں نکل آیا ہے اور اس تفصیل کے کمالات کے ساتھ متحقق ہو گیا۔ واضح ہو کہ چونکہ نظام عالم با وجود کامل اقتدار کے حکمت پر وابستہ ہے۔ اس لئے مجبوبوں کی تربیت کے لئے بھی اسباب کا ہونا ضروری ہے اگرچہ اسباب صرف بہانہ اور قدرت کے روپوش ہی ہیں لیکن سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الله تعالیٰ کا طریق وہی ہے جو پہلے گزر چکا ہے اورتو اللہ تعالیٰ کے طریق کے لئے کوئی تبدیلی نہ پائے گا۔
تنبیہ: نبی اگر چہ بعض کمالات کو اپنی امت کے افراد میں سے ایک فرد کے واسطہ سے حاصل . کرتا ہے اور اس کے وسیلے سے بعض مقامات پر پہنچتا ہے لیکن اس وجہ سے اس نبی کانقص لازم نہیں آتا اور اس توسط کے باعث اس فرد کو اس نبی پر زیادتی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ اس فرد نے اس کمال کو اس نبی کی متابعت سے حاصل کیا ہے اور اس کے طفیل اس دولت کو پایا ہے۔ گویا وہ کمال درحقیقت اس نبی کا کمال اور اس کی متابعت کا نتیجہ ہے اور وہ فرد صرف ایک خادم کی طرح ہے جو اس کے خزانوں سے خرچ کر کے نہایت فاخرہ اور بیش قیمت کپڑے تیار کر کے لاتا ہے جو مخدوم کے حسن و جمال کو دوبالا کرتے ہیں اور اس کی عظمت و کبریا کو بڑھاتے ہیں۔ اس صورت میں مخدوم کا کیا نقص ہے اور خادم کو کونسی زیادتی حاصل ہے۔ ہاں ہمسروں سے مدد و اعانت لینا نقص کا موجب ہے لیکن خادموں اور غلاموں سے امداد و اعانت لینا عین کمال اور جاہ و جلال کی زیادتی کا باعث ہے۔ کوئی ناقص اور بے سمجھ ہی ہوگا جو ایک کو دوسرے سےملائے اورنقص کا وہم کرے گا۔ بادشاہ اپنے خادموں اورلشکروں کی امداد سے ملک لیتے اور قلعے فتح کرتے ہیں اس امداد سے بادشاہوں کی عظمت و شان بڑھتی ہے۔ خادموں اور لشکروں کو شرف عزت حاصل ہوتی ہے امت کے لوگ بھی انبیا علیہم السلام کے خادم اور غلام ہیں۔ اگر ان سے ان بزرگواروں کو امداد پہنچے تو اس میں ان بزرگواروں کا کیا نقص ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ یہ بزرگوار ہرگز امداد کے محتاج نہیں ہیں اور کمال کے تمام مراتب ان کو بالفعل حاصل ہیں ۔ یہ صریح مکابرہ(ہٹ دھرمی) اور ہیکڑ پن ہے کیونکہ یہ بزرگوار بھی حق تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہمیشہ اس کے فضل و رحمت کے فیوض و برکات کے امیدوار اور ترقیات کے خواہاں ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ مَنِ اسْتَوَى يَوْمَاهُ فَهُوَ مَغْبُونٌ (جس کے دونوں دن برابر ہیں وہ خساره والا ہے) اور حضرت نے اپنی امت کو فرمایا ہے سَلُوْا إِلَىَّ الْوَسِيْلَةَ (میرے لئے وسیلہ طلب کرو) صحاح کی حدیث میں آیا ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ بِصَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ یعنی پیغمبر خدا ﷺفقراء و مہاجرین کے وسیلہ سے جنگوں میں فتح طلب کیا کرتے تھے۔ یہ طلب سراسر امدادواعانت ہی ہے۔ وہ لوگ جو امتوں کی امداد و اعانت ان بزرگواروں کے حق میں تجویز نہیں کرتے اور ان بزرگواروں کو ان کی امدادواعانت کا محتاج نہیں جانتے ان کی نظر ان کی بزرگی پر پڑی ہے اور ان کے درجات کی بلندی مدنظر ہے ورنہ اگر ان کی نظر ان بزرگواروں کی عبودیت (بندگی) پر بھی پڑتی اور ان کی احتیاج جو ان کو اپنے مولا جل شانہ سے ہے۔ معلوم ہوتی تو ہرگز امتوں کی امداد سے انکار نہ کرتے اور خادموں اور غلاموں کی اعانت و امداد و بعید نہ جانتے۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يااللہ تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش تو تمام باتوں پر قادر ہے۔)) والصلوة والسلام على نبينا وعلى جميع الأنبياء وعلى الملئكة الكرام العظام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ273ناشر ادارہ مجددیہ کراچی