احوال تلوینات اور تمکین مکتوب نمبر 175دفتر اول

احوال کی تلوینات (ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا)  اورتمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا) کے حاصل ہونے اور حدیث قدسی لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ  وَقْتٌ کے معنی کے بیان میں حافظ محمود کی طرف لکھا ہے: 

میرے بھائی کا مکتوب شریف موصول ہوا ۔ آپ نے اپنے احوال کی تلوینات (تبدیلیوں)کا کچھ حاصل لکھا ہوا تھا۔ جاننا چاہیئے کہ سالکوں کو خواہ ابتدا میں ہوں خواہ انتہا میں احوال کی تلوینات سے چارہ نہیں۔ حاصل کلام کہ اگر وہ تلوین سے نکل گیا اور احوال کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام تمکین میں پہنچ گیا تواس وقت احوال متلونہ نفس پر وارد ہوتے ہیں ۔ جو مقام قلب میں اس کی خلافت میں بیٹھا ہے۔یہ تلوین تمکین کے حاصل ہونے کے بعد ہے اور اس تلوين والے کو اگر ابوالوقت کہیں تو بجا ہے اور اگر الله تعالیٰ کے فضل سے نفس بھی تلوینات سے گزر گیا اور تمکین و اطمینان کے مقام تک جا پہنچا تو اس وقت تلونیات کا وارد ہونا قالب (جسم)پر ہے جو امورمختلفہ (عناصر اربعہ)سے مرکب ہے۔یہ تلوین دائمی ہے کیونکہ تمکین قالب کے حق میں متصور نہیں ۔ اگر لطائف میں سے زیادہ الطف لطیفہ
(خفی و اخفی)کے رنگ میں رنگا ہوا ہو کیونکہ وہ تمکین جو اس انصباغ کی طرف سے ہو کر آتی ہے ۔ وہ بطریق تبعیت (اتباع کے طور پر)ہے اور احوال متلونہ کا وارد ہونا بطریق اصالت ہے اور اعتبار اصل کا ہے۔ نہ کہ فرع اور تبع کا اور اس مقام والا اخص خواص میں سے ہے اور حقیقت میں ابو الوقت بھی یہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ حدیث لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ  وَقْتٌ جو آنحضرت ﷺ سے منقول ہے اور بعض نے وقت سے وقت مستمر ہ یعنی دائمی مراد رکھا ہے اور بعض نے وقت نا در اس کے معنی اسی بیان کی طرف راجع ہوں کیونکہ بعض لطائف(روح ،سر ،خفی ،اخفی) کی نسبت بطریق استمرار (دائمی)ہے اور بعض(لطائف) کی نسبت بطریق ندرت(قلت و کمی) – پس کچھ خلاف نہیں ہے۔ غرض ظا ہر کوشریعت روشن سے آراستہ کر کے باطنی سبق کے تکرارہمیشگی کریں۔

 اندر این بحربے کرانه چو غوک دست و پائے بزن چه دانی بوک

 ترجمہ :مثل مینڈک ہاتھ پاؤں اپنے مار ہے بڑا ہی بحر ناپیدا کنار

 میرے عزیز بھائی مولانا محمدصدیق آگرہ میں ہیں ان کی ملا قات کوغنیمت جانیں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ28ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں