بعض بزرگان کی تحقیق مکتوب نمبر180دفتر اول

 پیروں کے بعض ناموروں کے استفسار میں کہ جن میں تردد پیدا ہوا تھا۔ مخدوم زاده امکنگی یعنی خواجہ ابوالقاسم کی طرف لکھا ہے: 

اے میرے مخدوم و مکرم! ان پیروں کے ناموں کی تحقیق میں جو حضرت مولانا امکنگی رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ احرار رحمتہ اللہ علیہ کے درمیان گزرے ہیں جو کچھ حضرت محمد باقی رحمتہ اللہ علیہ سے ہم کو پہنچا ہے۔ وہ یہ ہے کہ دو بزرگ ہیں جن میں سے ایک حضرت مولانا خواجہ امکنگی رحمتہ اللہ علیہ کے والد بزرگوار یعنی حضرت مولا نا درویش محمد رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے حضرت مولانا محمد زاہد ہیں۔ جو حضرت مولانا محمد درویش کے خال یعنی  ماموں ہیں ۔ ان دونوں میں مشخیت پناه خواجہ خاوند محمود ان حدود کی طرف تشریف لائے تھے۔ ملاقات ہوتے ہی حضرت مولانا خواجہ ا مکنگی کی نسبت سے گفتگو شروع کی اور کہا کہ یہ کسی سےمجاز نہ تھے۔ اس لئے ابتدا میں مرید نہ بناتے تھے اور عمر کے اخیر میں اس کام کو شروع کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا گیا 

کہ یہ بزرگ تھے اور تمام ماوراء النہر کے لوگ ان کی بزرگی کے قائل تھے۔ ہرگز یہ بات پسند نہیں کر سکتے کہ انہوں نے ابتداء میں یا اخیر میں بے اجازت مرید بنائے ہوں ۔ کیونکہ اس قسم کا عمل خیانت میں داخل ہے۔ ادنی مسلمان پر اس قسم کاظن نہیں کر سکتے تو پھر اکابر دین پر کیسے کرسکیں۔ پیر خواجہ خاوند محمود نے کہا کہ ایک روز مولانا رحمتہ اللہ علیہ خواجہ کلاں بیدی(مضافات سمرقند) کی خدمت میں گئے تھے اور خواجہ صاحب خربوزہ کھا رہے تھے۔ مولانا نے بھی خربوزے کی خواہش ظاہر فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا خربوزہ پکا ہوا ہے۔ مولانا نے فرمایا آپ گواہی دیتے ہیں کہ سارا خربوزہ پکا ہوا ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا خربوزہ پکا ہوا ہے۔ اس وقت مولانا نے مرید بنانے شروع کئے۔ 

یہ نقل بھی بہت ہی بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ صرف اتنا کہنے سے مولانا نے اپنے آپ کو شیخ سمجھ لیا اور مرید بنانے شروع کئے۔ 

بعد ازاں خواجہ خاوند محمود نے کہا کہ ان بزرگواروں کے یہ دو نام جو حضرت مولانا رحمته اللہ علیہ نے حضرت خواجہ احرارکے درمیان بتلاتے ہیں اور دو ناموں سے  مسمیٰ کرتے ہیں یہ خطا ہے۔ انہوں نے اور ناموں سے یاد کیا اور نیز کہا کہ مولا نا درویش محمد کو اپنے ماموں سے نسبت نہیں ہے کسی اور شخص سے ہے ۔ ان باتوں سے بہت تعجب حاصل ہوا ۔ اس لئے جناب کو تکلیف دی گئی ہے کہ ان دو بزرگوں کے نام تحقیق کر کے لکھیں تا کہ کسی کو گفتگو کی مجال نہ رہے اور اجازت کے بارے میں کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی بزرگی خود گواہ عادل ہے باوجود اس کے اگر لکھیں تو طعنہ زنوں کی زبان بند ہو جائے گی۔ 

دوسرا یہ کہ معلوم نہیں کہ اس قسم کی پریشان باتوں سے خواجہ خاوند محمود کا مقصود کیا ہے اگر ان باتوں کا مقصود ان بے سروسامان فقرا کی کامل طور پرنفی ہے کیونکہ پیر کی نفی مرید کی نفی کو مستلزم ہے تو ان بے سرو سامانوں کی نفی کے اور بہت سے طریق ہیں ۔ اس غرض کے لئے بزرگوں کی نفی کرنے کی کیا حاجت ہے اور اگر اس کے سوا کچھ اور مقصود ہے اور اصلی طور پر بزرگوں کی نفی کرنی چاہتے ہیں تو یہ بات بھی درست نہیں۔ جیسا کہ یہ بات تھوڑی عقل والے پر بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ َبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَيْهِ وَعَلَیْھِمْ عَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَوۃُ وَ التَّسلِيمَاتُ (یااللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کی ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے  بحرمت سید المرسلین ﷺ کے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ32ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں