حضرت مخدوم زاده یعنی میاں محمد صادق کی طرف ( کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوستوں کے سروں پر سلامت و باقی رکھے ) لکھا ہے ۔ ان کے استفسار کے جواب میں کہ کیا سبب ہے کہ مشائخ کی جماعت کو میں دیکھتا ہوں کہ قرب الہی
کے مرتبوں میں ادنی درجہ رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے مقامات زہد وتوکل وغیرہ میں ان کے بڑے درجے ہیں اور بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ قرب کے مرتبوں میں فوقیت رکھتے ہیں اور مقامات مذکورہ میں تنزل اور اس کے مناسب بیان میں:
میرے سعادت مند فرزند نے پوچھا ہے کہ کیا سبب ہے کہ بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ قرب الہی کے مرتبوں میں ادنی درجہ رکھتے ہیں لیکن مقامات زہد وتوکل و ترک وصبر و رضا میں ان کے بڑے بڑے درجے مفہوم ہوتے ہیں اور بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ مراتب قرب میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن مقامات زہد وتوکل وغیرہ میں ان کے قدم بہت نیچے ہیں اور یہ بات ثابت و مقرر ہے کہ جس قدر یقین اتم(اعلیٰ درجہ کا) ہوگا اس قدر یہ مقامات اکمل ہوگئے اور یقین کا اتم ہونا حق تعالیٰ کے زیادہ قرب کا سبب ہے پس یہ بات چند امروں سے خالی نہیں ہے یا تو ہماری کشف نظر خطا کرتی ہے کہ قریب کو بعید اور بعید کو قریب جانتی ہے یا اس مقام کےاکمل ہونے کا با عث یقین کے سوا کچھ اور امر ہے ۔ یا قرب پر یقین مترتب نہیں ہے تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یقین قر ب پر مترتب ہے یعنی جس قدر قرب زیادہ ہوگا اس قدر یقین زیادہ ہوگا اور ان مقامات کے اکمل ہونے کا سبب بھی یقین کا اتم(اعلیٰ درجہ ) ہونا ہے نہ کچھ اور امر اور نظرکشفی بھی صحیح ہے۔
حاصل کلام یہ کہ قرب الطف لطائف(سب سے بڑی مہربانی) کو حاصل ہوتا ہے۔ پس یقین بھی انہی کا نصیب ہے اور ان مقامات کا اکمل ہونا بھی چونکہ یقین کے اتم ہونے پر مترتب ہے۔ اس لئے وہ بھی انہی کو حاصل ہوتا ہے۔
پس ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ نے باوجودقرب کے کم ہونے کے لطائف میں سے زیادہ لطیف کے مقامات میں سے کسی مقام میں اقامت اختیار کی ہو اور لطائف میں سے زیادہ کثیف(گدلا) کی طرف رجوع نہ کی ہو اور مقامات مذکورہ میں اس دوسرے بزرگ سے اکمل ہو جو قرب زیادہ رکھتا ہو اور لطائف میں زیادہ کثیف کی طرف جو لطیفہ قالب(جسم) ہے رجوع کی ہو کیونکہ لطیفہ قالب جب اس قرب سے محروم ہے۔ پس یقین بھی اس کے نصیب نہیں ہوگا تو پھر ان مقامات کی اکملیت کیسے حاصل کر سکے اور وہ بزرگ جس کا رجوع اس لطیفہ(انسان کے جسم میں محل نور) کی طرف ہوا ہے اس نے اسی لطیفے کاحکم پیدا کرلیا ہے اور باقی لطائف کےیقینیات جو اس کو پہلے حاصل ہوئے تھے ۔ سب پوشیدہ ہوگئے ہیں ۔ برخلاف اس بزرگ کے جس کا رجوع قالب کی طرف نہیں ہوا۔ اس کا حکم الطف لطائف (سب سے بڑی مہربانی) کا حکم ہے اور قرب و یقین اس کے حق میں استقامت رکھتے ہیں اور اس سے پوشیدہ نہیں ہوئے پس نا چار مقامات مذکورہ میں اتم واکمل ہوگا۔
لیکن جاننا چاہیئے کہ صاحب رجوع جس طرح قرب و یقین میں اکمل ہے۔ اس طرح مقامات میں اکمل ہے لیکن اس کے ان کمالات کو پوشیدہ کر دیا ہے اور خلق کی دعوت اورخلق کے ساتھ مناسبت حاصل کرنے کیلئے جو افادہ(فائدہ پہنچانا ) اور استفادہ (فائدہ حاصل کرنا) کا سبب ہے اس کے ظاہر کو عوام الناس کے ظاہر کی طرح کردیا ہے ۔ یہ مقام در اصل انبیائے مرسل علیہم الصلوۃ والسلام کا مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے دل کا اطمینان طلب فرمایا اور یقین کے حاصل ہونے میں عوام الناس کی طرح رؤیت بصری کے محتاج ہوئے اور حضرت عزیرعلی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے کہا أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا اللہ تعالیٰ ان کو مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اور جس نے رجوع نہیں کیا ۔ اس نے یقین سے کہا ہے لَوْ كُشِفَ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِينًا اگر پردہ دور کیا جائے تو پھر بھی میرا یقین زیادہ نہ ہو گا۔
یہ کلام اگر ثابت ہو جائے کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ سے ہے تو اس کو اس بات پر محمول کرنا چاہیئے کہ رجوع حاصل ہونے سے پہلے فر مایا ہو کیونکہ رجوع کے بعد صاحب رجو ع عوام الناس کی طرح یقین کے حاصل ہونے میں دلائل و براہین کامحتاج ہے۔ اس درویش کے تمام معتقدات کلا میہ رجوع سے پہلے بدیہی ہو گئے تھے اور ان مستقدات کے یقین کومحسوسات کے یقین سے زیادہ پاتا تھا لیکن رجوع کے بعد وہ یقین مستور ہو گیا اور عوام الناس کی طرح دلائل و براہین محتاج ہو گیا ۔
چنانچہ پرورشم مےدہند مے رویم ترجمہ: پلتاہوں ویسے ہی میں جیسے کہ پالتے ہیں والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ34ناشر ادارہ مجددیہ کراچی