اس بزرگ گروہ کی محبت کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ ان کا ہم نشین بدبختی سے محفوظ ہے اور اس کے مناسب بیان میں ملاحسینی کی طرف لکھا ہے۔
أَحْسَنَ اللهُ تَعَالىٰ أَحْوَالُكُمْ وَ أَصْلَحَ أَعْمَالُكُمْ وَ اٰمَالُکُمْ اللہ تعالیٰ آپ کے احوال کو اچھا کرے اور آپ کے اعمال اور قصوروں کو نیک کرے ۔
مکتوب شریف جو فقرا کی محبت پرمبنی تھاپہنچا اور بڑی خوشی حاصل ہوئی ۔حق تعالیٰ اس بلند گروہ کی محبت کو دن بدن زیادہ کرے اور ان کی نسبت نیازمندی کو سرمایہ روزگار بنائے تو المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی کے بموجب ان کا محب انہی کے ساتھ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین بد بخت نہیں ہوتا۔
حدیث نبوی علیہ الصلوۃ والسلام میں ہے کہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے سوائے خدائے تعالیٰ کے چند ایسے فرشتے ہیں جو راہزنوں اور بازاروں میں اہل ذکر کی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جب وہ ذاکروں کے گروہ کوکہیں ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں کہ آو تمہارا مطلب حاصل ہوگیا ۔ پس جمع ہو کر اپنے پروں سے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں ۔ جب وہ ذکر سے فارغ ہوتے ہیں تو فرشتے آسمان پر جاتے ہیں ۔ پس حق تعالیٰ حالانکہ اپنے بندوں کے حال کو بخوبی جانتا ہے۔ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کیسے دیکھا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ خدا تیری حمد و ثنا کرتے تھے اور تجھ کو بزرگی سے یاد کرتے تھے اور تجھ کو تمام عیوب اور نقصان سے پاک بیان کرتے تھے۔ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کا کیا حال ہو ۔ ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ پھر اس سے زیاد و بزرگی اور پاکیزگی سے یاد کریں ۔حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا طلب کرتے تھے فرشتے عرض کرتے ہیں کہ بہشت مانگتے ہیں حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ کیا انہوں نے بہشت کو دیکھا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں دیکھا ہے۔ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر وہ بہشت کو دیکھ لیں تو پھر ان کا کیا حال ہو۔ عرض کرتے ہیں کہ پھر اس سے زیادہ اس کی طلب اورحرص کریں پھرحق تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ دوزخ سے ڈرتے تھے اور تجھ سے پناہ مانگتے حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں دیکھا ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دیکھ لیں تو پھر کیا حال ہو فرشتے عر ض کرتے ہیں کہ پھر اس سے زیادہ پناہ مانگیں اور اس سے زیادہ ڈریں اور بھاگیں ۔ پھرحق تعالیٰ فرشتوں کو فرماتا ہے کہ تم گواہ رہو میں نے سب کو بخش دیا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں یا رب اس ذکر کی مجلس میں فلاں آدمی ذکر کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ کسی دنیاوی حاجت کے لئے آیا تھا اور ان میں بیٹھ گیا۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ أَنَا جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِي (میں اس کا ہم نشین ہوں جس نے میراذکرکیا) کے بموجب میرے ایسے ہم نشین ہیں کہ ان کا ہمنشین بد بخت نہیں ہوتا۔ : اس حدیث میں اور پہلی حدیث اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی سے لازم آتا ہے کہ ان کے محب ان کے ساتھ ہیں اور جو کوئی ان کے ساتھ ہے وہ بد بخت نہیں ہوتا۔
ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ وَاِيَّاكُمْ عَلىٰ مُحَبَّةِ هٰؤُلَاءِ الْكِرَامِ بِحُرْمَةِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الْهَاشَمِيِّ عَلَيهِ وَ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ وَ التَّحِيَّاتُ كُلَّمَا ذَكَرَهُ الذَّاكِرُونَ وَغَفَلَ عَنْهُ الْغَافِلُونَ ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم کو ان بزرگوں کی محبت پر ثابت قدم رکھے۔ بحرمت النبی الامی الہاشمی علیہ و الہ الصلوة والسلام جب تک ذکر کرنے والے اس کا ذکر کریں اور غافل اس کے ذکر سے غافل رہیں۔
اور جو آپ نے اپنے احوال کی نسبت شیخ اللہ داد کے مکتوب میں لکھا تھااس قسم کی نیستی اورگم ہونا بہت طالبوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اپنی ہمت بلند رکھیں اور جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت کر یں۔
بس بیرنگ است یار دلخواه اے دل قانع نشوی برنگ ناگاه اے دل
ترجمہ: بہت بے رنگ ہے اے یاردلبر قناعت رنگ پر ہرگز نہ تو کر
اس گروہ کی محبت نہایت ضروری ہے۔ حق تعالیٰ ان لوگوں کی محبت میں داخل کرے
گردمستاں گرداگرمے کم رسد بوئے رسد گر چہ بوئے ہم نباشد رؤیت ایشان بس است
ترجمہ: پاس جا مستوں کے گر دیں گے نہ مے تو بوسہی بواگر حاصل نہ ہو کافی ہے پھر دیدارہی
اسی طریق پر جو حضرت قبلہ گاہی خواجہ عبدالباقی قدس سرہم سے اخذ کیا ہے اللہ کے اسم مبارک کو کامل توجہ کے بعد بیچونی اوربیچگو نی (بے چونی و بے کیف)کے معنی سے دل میں گزاریں اور حاضر و ناظر کے معنی میں تصور نہ کریں بلکہ کسی صفت کوملحوظ نہ رکھیں۔ اسی اسم مبارک کو اچھی توجہ کے بعد ہمیشہ دل میں حاضر رکھیں بعض ضروری باتیں حضور و حجت پرمنحصر ہیں ۔ اگر ملاقات میسر ہوئی تو بیان کی جائیں گی۔ ملاقات کے وقت تک تازہ احوال لکھتے رہیں کیونکہ ان کا مطالعہ غائبانہ توجہ کاباعث ہوتا ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ67ناشر ادارہ مجددیہ کراچی