پندونصائح کے بیان میں اور فرقہ ناجیہ یعنی علمائے اہلسنت و جماعت کی تابعداری کرنے اور برے علماء کی صحبت سے جنہوں نے علم کو دنیاوی اسباب حاصل کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ بچنے کی ترغیب میں سیادت پناه شیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔ عَصَمَكُمُ اللهُ سُبْحَانَهٗ عَمَّا يَلِيْقُ بِجَنَابِكُمُ بِحُرْمَةِجَدِّ کُمْ الْأَمْجَدِ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ حق تعالیٰ آپ کو آپ کے جدبزرگوارعلیہ وعلی الہ الصلوۃواسلام کے طفیل ان باتوں سے بچائے، جو آپ کی جناب کے لائق نہیں ہیں۔
حق تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ( احسان کا بدلہ احسان ہے۔
فقیرنہیں جانتا کہ آپ کے احسان کا بدلہ کس احسان سے ادا کرے ۔ سوائے اس بات کے کہ نیک وقتوں میں سلامتی دارین کی دعا سے تر زبان رہے۔ اللہ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ یہ بات بے تکلف حاصل ہے اور دوسرا احسان جو ملاقات کے لائق ہے وہ پندونصیحت ہے اگر قبول ہو جائے تو زہے سعادت۔
اے شرافت ونجابت کے مرتبہ والے۔ تمام نصیحتوں کا خلاصہ دینداروں اور شریعت کے پابندوں کے ساتھ میل جول رکھنا ہے اور دین وشریعت کا پابند ہونا تمام اسلامی فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت و جماعت کے طریقہ حقہ کے سلوک پر وابستہ ہے۔ ان بزرگواروں کی متابعت کے بغیرنجات محال ہے اور ان کے عقائد کی اتباع کے بغیر خلاصی دشوار ہے۔ تمام عقلی اورنقلی اورکشفی دلیلیں اس بات پر شاہد ہیں۔ ان میں سے کسی میں خلاف کا احتمال نہیں ہے اگر معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص ان بزرگواروں کے سیدھے راستہ سے ایک رائی کے برابر بھی الگ ہوگیا تھا تو اس کی محبت کو زہر قاتل جاننا چاہیئے اور اس کی ہم نشینی کو زہر مارخیال کرنا چاہیئے۔
بے باک طالب(آزاد خیال) علم خواہ کسی فرقہ سے ہوں، دین کے چور ہیں۔ ان کی صحبت سے بھی بچنا ضروری ہے۔ یہ سب فتنہ و فساد جو دین میں پیدا ہوا ہے۔ انہیں لوگوں کی کم بختی سے ہے کہ انہوں نے دنیاوی اسباب کی خاطر اپنی آخرت کو برباد کر دیا ہے۔
أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی۔ پس ان کی اس تجارت نے ان کونفع نہ دیا اور نہ ہی انہوں نے ہدایت پائی۔
کسی شخص نے ابلیس لعین کو دیکھا کہ آسودہ اور فارغ بیٹھا ہے اور گمراہ کرنے اور بہکانے سے ہاتھ کوتاہ کیا ہوا ہے۔ اس نے اس کا سبب پوچھا۔ لعین نے کہا کہ اس وقت کےبرے علماء میرا کام کر رہے ہیں اور گمراہ کرنے اور بہکانے کے ذمہ دار ہوئے ہیں۔
وہاں کے طالبوں سے مولانا عمر بہت نیک طبع آدمی ہے۔ بشرطیکہ آپ اس کو حوصلہ دیں اورحق کے اظہار پر دلیر کریں اور حافظ امام بھی اسلام کا جنون رکھتا ہے کیونکہ اسلام میں اس قسم کا جنون ضرور ہونا چا ہیئے۔ لَنْ يُّؤْمَنَ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يُقَالَ إِنَّهٗ مَجْنُونٌ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا جب تک اس کو دیوانہ نہ کہا جائے۔
آپ کو معلوم ہے کہ اس فقیر نے کہہ کر اور لکھ کر نیک صحبت کی ترغیب میں کوتاہی نہیں کی اور بری صحبت سے بچنے کے لئے مبالغہ کرنے میں اپنے آپ کو معاف نہیں رکھا کیونکہ فقیراسی کو اصل عظیم جانتا ہے۔ اسے قبول کرنا آپ کے اختیار میں ہے بلکہ سب کچھ الله ہی کی طرف سے ہے۔ فَطُوْبىٰ لِمَنْ جَعَلَ اللهُ سُبْحَانَہُ مَظْہَرَ الْخَيْرِ پس اس شخص کے لئے مبارک ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کا مظہر بنایا۔
آپ کے احسانوں کی یاد اس گفتگو پر آمادہ کرتی ہے اور رنج و ملال کے ملاحظہ کو در میان
سے اٹھادیتی ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ92ناشر ادارہ مجددیہ کراچی