آداب کی رعایت کرنے اور آزار کے ظن دور کرنے میں جس کا وہم ہوا تھا اور احتیاط کا امر کرنے اورتعلیم طریقت کے بارہ میں تاکید کرنے اورفقر کی سختی اور نامرادی برداشت کرنے اور بعض ان نصیحتوں اور تنبیہوں کے بیان میں جو اس مکتوب کی پشت پر ملایارمحمد قدیم کی طرف لکھیں تھی۔ میرمحمدنعمان بدخشی کی طرف لکھاہے:۔
میرے سعادت مند بھائی یعنی سیادت پناہ میر نعمان کا مکتوب شريف موصول ہوا ۔ ان مقدمات کا مضمون جو آپ نے ترتیب دیئے تھے اور ان مکتوب کا مطلب جو آپ نے لکھے تھے۔ واضح ہوا۔ لوگ آپ کو(اعقل زمان) زمانہ کا عاقل کہتے ہیں پھر اس قسم کی با تیں اور اس شخص کے ساتھ جس سے چارہ نہیں ہے درمیان لانی کیا مناسب ہیں جبکہ اس سے قطع نہیں کر سکتے اور مفارقت نہیں حاصل کر سکتے ۔ باوجود ان باتوں کے خیال نہ کریں کہ اس قسم کی باتوں سے فقیر کے دل میں کسی قسم کا غبار آیا ہو جس کا انجام آزار(ناراضگی) ہو ۔ چہ جائیکہ بیزاری کی نوبت پہنچے۔ آپ کی خوبیاں (ہماری)نظر کے سامنے ہیں اور آپ کی لغزشیں اعتبار سے ساقط ہیں ۔ کسی طرح اپنے دل کو پریشان نہ رکھیں اور کسی وجہ سے اس طرف کا آزار تصور نہ کریں کیونکہ کسی وجہ سے آزار واقع نہیں ہے اور آزار کیسے متصور ہوا جب کہ آزار کا موجب منتفی(معدوم) ہے ۔ وہ امور جو بشریت کے لحاظ سے بھول چوک کر سرزد ہوں ۔ مواخذہ کے لائق نہیں ہیں ۔ آزار کا وہم دل سے دور کر کے طریقت کی تعلیم دینے اور طالبوں کے فائدہ پہنچانے میں سرگرم رہیں اور استخاروں کا حکم اس امر کی تاکید کیلئے ہے نہ کہ اس امر کی نفی کے لئے ۔ کیونکہ جب شیطان لعین اورنفس بدترین اس مسکین کی گھات میں لگے ہوئے ہیں تو پھر بڑی احتیاط اور تاکید سے کام لینا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ مکروحیلہ سے پھسلا دیں اور اپنے ڈھکوسلوں اورفریبوں سے برائیوں کو نیکیوں کی صورت میں ظاہر کریں۔
اور بزرگوں نے فرمایا ہے کہ دشمن لعین جب طاعت و نصیحت کے رستے سے آئے تو اس کا دفع کرنا بہت مشکل ہے۔ پس ہمیشہ روتے اور التجا کرتے رہیں اور بڑی عاجزی و زاری کے ساتھ حق تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں کہ اس راہ سے آپ کی خرابی اور استدراج (شعبدہ بازی) مطلوب نہ ہو ۔ استقامت کا طریقہ یہی ہے جو سعادت ابدی کی طرف رہنمائی کرے۔
دوسرایہ امر ہے کہ فقر و نامرادی اس گروہ کا جمال اور حضرت سید الکونین ﷺکی اقتدا ہے۔ حضرت حق تعالیٰ اپنے کمال کرم سے اپنے بندوں کی روزی کا ذمہ دار ہوا ہے اور ہم کو اور آپ کو اس فکروتر دد سے فارغ کردیا ہے جس قدرآدمی زیادہ ہونگے ۔ اس قدر رزق زیادہ ہوگا ۔ آپ جمعیت کے ساتھ اس حق تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے میں متوجہ ہوں اور متعلقین کاغم حق تعالیٰ کے کرم کے حوالہ کریں۔ وَالبَاقِى عَندَ التَّلَاقِی (باقی بوقت ملاقات)
بعض یاروں نے جو اس طرف آئے تھے ظاہر کیا کہ ابھی تک آزار کا وہم میر کے دل میں متمکن ہے۔ اس لئے تا کید اور مبالغہ سے لکھا گیا ہے کہ آزار کے وہم کو دور کر دیں۔
دوسرا یہ کہ ایک خط ملایارمحمد قدیم کی طرف لکھا تھا جو پند ونصیحتوں پرمشتمل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کا مضمون اس کی طبیعت کے پسند آئے یا نہ آئے پرواہ نہیں ۔ وہ لوگ جو اس فقیر کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں ۔ اگر ان کی غلطی اور خطا کوا نہیں نہ جتلائے اور حق کو باطل سے جدا نہ کرے تو اپنے ذمہ سے کس طرح بری ہوگا اور آخرت میں کیا منہ دکھائے گا۔ آپ اس سے کہہ دیں ۔
من آنچہ شرط بلاغ است با تو میگوئم تو خواه ازبختم پندگیروخواہ ملال
ترجمہ: میں حق تبلیغ ادا کرنے کیلئے یہ بات تمہیں کہتا ہوں اس سے تو چاہے نصیحت حاصل کرے یا ملال زدہ ہو۔
جاننا چاہیئے کہ شیخ بننے اور حق کی طرف خلق کو دعوت کرنے کا مقام بہت ہی عالی ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ الشَّيْخُ فِي قَوْمِهِ كَالنَّبِيِّ فِي أُمَّتِهِ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہے جیسانبی اپنی امت میں – ہر بے سروسامان کو اس بلند مرتبہ سے کیا مناسبت ہے ۔
گدائے مرد میدان کے شود پشه آخر سلمان کے شود
ترجمہ : گدا ہر اک نہیں ہے مرد میداں کبھی مچھر نہیں بنا سلیماں
احوال و مقامات کا مفصل علم ہونا اور مشاہدات و تجلیات کی حقیقت کا پہچاننا اورکشوف و الہامات کا حاصل ہونا اور واقعات کی تعبیر کا ظاہر ہونا ۔ اس بلند مقام کے لوازم سے ہے وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ طریقت کے بزرگوار قدس سرہم بعض مریدوں کو پیشتر اس کے کہ وہ مقام شیخی تک پہنچیں کسی مصلحت اور بہتری کیلئے ایک قسم کی اجازت دے دیتے ہیں اور ایک مرح تجویز فرماتے ہیں کہ طالبوں کو طریقه د کھائیں تا کہ احوال و واقعات پر اطلاع پائیں۔
اس قسم کی تجویز میں شیخ مقتدا کو لازم ہے کہ اس مرید مجاز(اجازت یافتہ) کو اس کام میں بڑی احتیاط سے کام کرنے کا امر کرے اور تاکید کے ساتھ غلطی کے مواد کو ظاہر کر دے اور بار بار ان کے نقص پر اطلاع دے اور مبالغہ کے ساتھ ان کا ناقص ہونا ظاہر کر دے۔ اس صورت میں اگر شیخ حق کےظا ہر کرنے میں سستی کرے تو خیانتی ہے اور اگر مرید کو وہ باتیں بری معلوم ہوں تو وہ بد قسمت ہے۔ کیا نہیں جانتا کہ حق تعالیٰ کی رضامندی شیخ کی رضامندی سے وابستہ ہے اور حق تعالیٰ کا غضب شیخ کے غضب پر موقوف ہے۔ اس پر کیا بلا آ پڑی وہ نہیں سمجھتا کہ ہم سے قطع کرنا اس کو کہاں تک پہنچا دے گا اور اگر ہم سے قطع کرے گا تو اور کس سے جا ملے گا اور اگر نَعُوذُ بِاللَّهِ اس قسم کا کوئی اورامر اس کے دل میں راہ پا گیا ہو تو بے توقف اس کو کہہ دیں کہ توبہ و استغفار کرے اور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور زاری کرے کہ اس ابتلا و فتنہ عظیم میں اس کومبتلا نہ کرے اور اس خطرناک بلاو آزمائش میں اس کو گرفتار نہ کرے۔
الله تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ یاروں کی اس بے پروائی اور اضطراب سے کسی قسم کا غبار اور آزار فقیر کے دل میں داخل نہیں ہوا۔ اس سبب سے امید وار ہے کہ تمام کاموں کا انجام بخیر ہوگا اور باقی احوال و اوضاع کو برادر سعادت مند مولانا صالح محمد مفصل بیان کریں گے اور آپ بعض شبہوں کے مقام کو ان سے دریافت کر لیں گے۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَکْمَلَهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ125 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی