چند سوالوں کے جواب میں جو آپ سے کئے گئے تھے اور جن میں پوچھا گیا تھا
کے وصول اور حصول کے درمیان کیافرق ہے اور وہ اسماء جو انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے تعینات کے مبادی ہیں ۔ اولیاء کے تعینات کے مبادی بھی وہی اسم ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا فرق ہے اور آپ سے پوچھا گیا تھا کہ مشائخ نقشبندیہ ذکر جہر سے منع کرتے ہیں کہ یہ بدعت ہے حالانکہ ذوق و شوق بخشتا ہے اور چیزوں سے جو آنحضرت کے زمانہ میں نہ تھیں۔ مثلا لباس فرجی اورشال اور سراویل سے کیوں نہیں منع کرتے ۔ میرمحمدنعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّىْ عَلىٰ نَبِيِّهٖ وَنُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَعَلىٰ اٰلِهِ الْكِرَامِ ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اور نبی اور اس کی آل بزرگوار پر صلوۃ و سلام بھیجتے ہیں۔
آپ کے دومکتوب شریف پے در پے پہنچے۔ پہلامکتوب تو سوزش اور اضطراب کی خبر دیتا تھا لیکن دوسرامکتوب اسی سے ملائم اور شوق وسرگرمی سے بھرا ہوا تھا۔
میرے دوست آپ نے اس وقت جب کہ میر سعد الدین روانہ ہوئے خط کا جواب طلب کیا ۔ بندہ اس وقت یہاں تک بے دماغ اور مقبوض تھا کہ اپنے ہاتھ سے خط نہ لکھ سکتا تھا۔ مولا نا یارمحمد جدید کو لکھنے کے لئے کہا۔ بے دماغی کے وقت اگر کوئی نامناسب کلہ لکھا گیا ہو تو معاف فرمائیں ۔ آپ کو چاہیئے کہ تھوڑی سی بات سے نہ بگڑ جائیں اور معاملہ کو درہم برہم نہ کریں ۔ خدا نہ کرے کہ کسی قسم کا آزار درمیان ہو یا رنجش و روگردانی کے باعث کچھ لکھا جائے۔ ہاں اگرنصیحت کے طور پر کچھ لکھا جائے تو خوشحال ہونا چاہیئے۔
آپ نے لکھا تھا کے حصول اور وصول کے درمیان جوفرق ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا۔
اے بھائی! حصول باوجود بعد کے متصور ہے اور وصول مشکل و دشوار ہے عنقا کو جب ہم صورت مخصوص سے تصور کرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ عنقا ہماری قوت مدرکہ میں حاصل ہے۔ لیکن عنقا تک وصول ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ ظليت جو مرتبہ ثانی میں اس شے کے ظہور سے مراد ہے اس شے کے حصول کے منافی نہیں ہے ۔ لیکن شے کا وصول ظلیت کی تاب نہیں لا سکتا پس دونوں کے درمیان فرق معلوم ہوگیا۔
اور نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ اسماء جوانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کا مبدء ہیں وہی اسماء اولیاء کے تعینات کا مبدأ ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا فرق ہے۔
اےعزیز انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کے مبادی ان اسما کے کلیات ہیں اور اولیاء کے تعینات کے مبادی ان اسما کی جزئیات ہیں جوان کلیات کے تحت میں مندرج ہیں اور ان اسماء کی جزئیات سے مراد وہی اسماء ہیں جو قیود کے ساتھ ماخوذ ہیں ۔ جیسا کہ کسی شے کے ساتھ ارادہ مطلقہ اور ارادہ مقید ہوتا ہے اور چونکہ اولیاء کو انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کے باعث ترقی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے اس قید کو دور کر کے مطلق کے ساتھ مل جائے گا فقیر نے اس فرق کو اپنے بعض مکتوبات میں مفصل ذکر کیا ہے۔ وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔
نیز آپ نے پوچھا تھا کہ ذکر جہر سے منع کرتے ہیں کہ بدعت ہے حالانکہ ذوق و شوق بخشتا ہے اور چیزوں سے جوآنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں تھیں مثل لباس، فرجی . اور شال اور سراویل سے کیوں منع نہیں کرتے۔
میرےمخدوم! آنحضرت ﷺکا عمل دو طرح پر ہے ۔ ایک عبادت کے طریق پر دوسرا عرف اور عادت کے طور پر ۔ وہ عمل جوعبادت کے طریق پر ہے اس کے خلاف کرنا بدعت منکرہ جانتا ہوں اور اس کے منع کرنے میں بہت مبالغہ کرتا ہوں کہ یہ دین میں نئی بات ہے اور وہ مردود ہے اور وہ عمل جوعرف و عادت کے طور پر ہے اس کے خلاف کو بدعت منکرہ نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے منع کرنے میں مبالغہ کرتا ہوں کیونکہ وہ دین سے تعلق نہیں رکھتا اس کا ہونا یا نہ ہوتا عرف و عادت پر مبنی ہے نہ کہ دین و مذہب پر ۔ کیونکہ بعض شہروں کا عرف بعض دوسرے شہروں کے عرف کے برخلاف ہے اور ایسے ہی ایک شہر میں زبانوں کے تفاوت کے اعتبار سے ان میں تفاوت ظاہر ہے۔ البتہ عادی سنت کو مد نظر رکھنا بھی بہت سے فائدوں اور سعادتوں کا موجب ہے۔
ثَبَّتَنَا اللهُ وَاِيَّاكُمْ عَلىٰ مُتَابِعَةِ سَيِّدِ الُمُرْسَلِيْنَ عَلَيهِ وَعَلَیْھِمْ وَعَلیٰ تَابِعِیْ کُلِّ مِنَ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ وَاَکْمَلُهَا الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت سید المرسلین صلی الله علیہ وعلیھم الصلوة والسلام کی متابعت پر ثابت قدم رکھے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ138 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی