طریق علیہ نقشبندیہ کی ترغیب میں ملا ایوب محتسب کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
حمد و صلوة اورتبلیغ کے بعد میرے معزز بھائی کو معلوم ہو کہ کئی دفعہ آپ نے اپنے متعددخطوں میں نصائح طلب فرمائی تھی۔ لیکن یہ حقیر اپنی خرابیوں پر نظر کر کے اس سوال کے قبول کرنے میں جرأت نہیں کرتا تھا۔ لیکن جب بار باریہی طلب آپ کی طرف سے ظہور میں آئی اس لئے چند ٹوٹے پھوٹے فقرے لکھے جاتے ہیں ان کو غور سے سنیں اور جان لیں کہ جو کچھ طالب کے لئے ضروری ہے اور اس کے ساتھ مکلف ہے وہ اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے ہٹ جانا ہے۔ آیت کریمہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (جو کچھ رسول تمہارے پاس لایا اس کو پکڑ لو اور جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے اس سے ہٹ جاؤ)ا اس مطلب پر شاہد ہے اور جب طالب اخلاص سے مامور ہے أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے)اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبت ذاتیہ کے سوا متصور نہیں ۔
اس لئے طریق صوفیہ کا سلوک بھی جس سےفنا اور حجت ذاتیہ حاصل ہوتی ہے ضروری ہے۔ تا کہ اخلاص کی حقیقت ہاتھ آئے اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال وتکمیل کے مرتبوں میں اصالتًا متفاوت ہیں۔ اس لئے ایسے طریق کا اختیار کرنا جس میں سنت سنیہ کی متابعت زیاده لازم اور احکام شرعیہ کے بجالانے کے زیادہ موافق ہو۔ بہت ہی بہتر اور مناسب ہے اور وہ طریقہ مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کا طریقہ ہے۔ کیونکہ ان بزرگواروں نے اس طریق میں سنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے اجتناب فرمایا ہے۔ جہاں تک ہو سکے رخصت پرعمل کرنا پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ بظاہر اس کانفع باطن میں معلوم کریں اور عزیمت پر عمل کرنانہیں چھوڑتے اگر چہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جانیں۔ انہوں نے احوال ومواجید کو احکام شرعیہ کے تابع کیا ہے اور ذوق ومعارف کو علوم دینیہ کے خادم جانتے ہیں ۔ احکام شرعیہ کے قیمتی موتیوں کو بچوں کی طرح وجدوجال کے جوز و مویز(اخروٹ و منقی) کے بدلے ہاتھ سے نہیں دیتے اور صوفیہ کی بے فائدہ باتوں پر مغرور مفتوں(مبتلا) نہیں ہوتے ۔نص (قرآن)کو چھوڑ کرفص (فصوص الحکم)کی طرف خواہش نہیں کرتے اور فتوحات مدینہ (حدیث نبوی)کو چھوڑ کر فتوحات مکیہ(شیخ اکبر کی تصنیف) کی طرف التفات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائمی اور ان کا وقت استمراری(دائمی) ہے ۔
ماسوی اللہ کے نقش ان کے باطن سے اس طرح محو ہو جاتے ہیں کہ اگر ماسوی کے حاضر کرنے میں ہزار سال تک توقف کریں تو بھی میسر نہ ہو اور وہ تجلی ذاتی جودوسروں کے لئے برق کی طرح ہے ان بزرگواروں کے لئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے ۔ رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (وہ ایسے بہادر ہیں کہ تجارت اور خرید وفروخت ان کو ذکر سے غافل نہیں کرتی) ان کے حال کا بیان ہے۔
اس کے علاوہ ان کا طریق سب طریقوں سے اقرب اور البتہ موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان کی بدایت میں درج ہے اور ان کی نسبت جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ تمام مشائخ کی نسبتوں سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن ہرکسی کا فہم ان بزرگواروں کے مذاق تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ ممکن ہے کہ اس طریقہ علیہ کے کم ہمت لوگ بھی ان کے بعض کمالات سے انکار کریں۔
قاصرے گر کندایں طائفہ راطعن و قصور حاشا للہ که برارم بزباں ایں گلہ را
ترجمه اگر کوئی قاصر لگائے طعنہ ان کے حال پر توبہ توبہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گلہ
شاعر عرب فرماتا ہے شعر
أُولَئِكَ آبَائِي فَجِئْنِي بِمِثْلِهمْ إِذَا جَمَعَتْنَا يَا جَرِيرُ المَجَامِعُ
ترجمہ: ایسے ایسے باپ دادا ہیں ہمارے اے جریر کربیاں مجلس میں تو بھی باپ دادوں کی صفت
حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلہ علیہ کے مشائخ قدس سرہم ہر زراق اوررقاص (فریب کرنے والے اور رقص کرنے والے) کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ ان کا کارخانہ بے کار ہے۔
حیف باشد شرح او اندر جہاں ہمچو راز عشق باید درنہاں
لیک گفتم وصف اوتاره برند پیش ازاں کز فوت آں حسرت خورند
ترجمہ: ہو نہیں ہوسکتا بیاں اس کا عیاں مثل راز عشق چاہے یہ نہاں لیک کردی وصف میں نے اس لئےتانہ حسرت کھائیں اس کے فوت سے
اگر ان بزرگواروں کے خصائص و کمالات میں دفتروں کے دفتر لکھے جائیں تو دریائےبے نہایت سے قطرہ کی طرح ہیں۔
داریم تر از گنج مقصودنشاں ترجمہ: بتایا تجھے گنج مقصود ہم نے
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ اَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّسْلِیْمَاتِ اَکْمَلُهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ168 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی