حق تعالیٰ کی اقربیت(اقرب و قریب ہونے) کے بیان میں شریف خاں کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)آپ کا صحیفہ شریفہ جو ازروئے کرم کے ان حدود کے فقراء کے نامزد فرمایا تھا۔ اس کے پہنچنے سے بہت مسرت وخوشی حاصل ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
میرے مخدوم! اگر چہ حق تعالیٰ کا ہمارے ساتھ ہم سے زیادہ اقرب ہونا نص قطعی سے ثابت ہے لیکن کیا کہا جائے کہ حق تعالیٰ ہماری عقلوں اورفہموں اور ہمارے علوم و ادراکات سے وراء الورا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ماوراء (بلندی شان)ہونا قرب میں ہے نہ جانب بعد میں ۔ کیونکہ وہ حق تعالیٰ ہر نزدیک سے زیادہ نزدیک ہے حتی کہ اس کی ذات احدیت کو ان صفات کی نسبت کہ جن کے آثاروافعال ہم ہیں زیادہ نزدیک پاتے ہیں۔ یہ معرفت نظر عقل سے ماوراء ہے کیونکہ عقل اپنے سے زیادہ نزدیکی کا تصور نہیں کر سکتی۔ ایسی مثال جواس مبحث کی تشریح وتوضیح کر سکے۔ ہر چند تلاش کی گئی پر نہ ملی ۔ اس معرفت کی دلیل وسند نص قطعی اور کشف صحیح ہے۔
مشائخ طریقت نے توحید و اتحاد کی نسبت بہت گفتگو کی ہے اور قرب ومعیت کی نسبت کچھ نہ کچھ بیان فرمایا ہے لیکن حق تعالیٰ کی اقر بیت کی نسبت خاموشی اختیاری کی ہے اور کوئی بیان شافی اس بارے میں نہیں فرمایا۔
عجب معاملہ ہے کہ حق تعالیٰ کی اقربیت (زیادہ قریب ہوتا ) ہماری ابعدیت (زیادہ دور ہونا ) کا سبب ہوئی ہے۔ هٰذَا إلىٰ أَنْ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ہی کافی ہے یہاں تک کہ کتاب اپنے مقررہ وقت کو پہنچے۔ فَاَفْھَمْ فَاِنَّ كَلَامَنَا إِشَارَۃٌ وَبِشَارَۃٌ سمجھ لو کیونکہ ارے کلام اشارت و بشارت ہوتے ہیں۔
وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلىٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلوٰۃُ وَالسَۤلَامَٰ اَتَمُّهَا وَاَکْمَلُهَا
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ204 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی