نماز کے فضائل اور مصارف بلند اور حقائق ارجمند کے ضمن میں نماز کے مخصوصہ کمالات کے بیان میں سیادت مآب میرمحمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے بھائی کو کہ خدا اس کو ہدایت دے معلوم ہو کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز تمام عبادات کی جامع ہے اور جزو ہے جس نے جامعیت کے سبب سے کل کا علم پیدا کیا ہے اور تمام مقر بہ اعمال سے برتر ہوگئی ہے اور وہ دولت رؤیت(باری تعالیٰ) جو سرور عالمیان ﷺ کو معراج کی رات بہشت میں میسر ہوئی تھی ۔ دنیا میں نازل ہونے کے بعد اس جہان کے مناسب آپ کو وہ دولت نماز میں حاصل ہوئی۔ اس واسطے حضور ﷺنے فرمایا ہے ۔ الصَّلَاةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ (نماز مومنوں کی معراج ہے) اور اَقْرَ بُ مَایَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِي الصَّلٰوۃِ (بندہ کو رب کا زیادہ قرب نماز میں حاصل ہوتا ہے) اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کو اس جہان میں اس دولت کا بہت سا حصہ نماز میں حاصل ہے ۔ اگر چہ رؤیت میسر نہیں کیونکہ یہ جہان اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر نماز کا حکم نہ ہوتا چہرہ مقصود سے نقاب کون کھولتا اور طالب کو مطلوب کی طرف کون رہنمائی کرتا۔ نماز ہی غمزدوں کی غمگسار ہے اور نماز ہی بیماریوں کیلئے راحت بخش ہے ۔ اَرِحْنِيْ يَا بِلَال (اے بلال مجھے آرام دے) اسی ماجرا کی رمز ہے قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ (نماز میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے) میں اس مطلب کی طرف اشارہ ہے۔ وہ ذوق ومواجید اور علوم و معارف اور مقامات و انوار اور تلوينات و تمکینات(بیقراری و اطمینان) اور تجلیات متکیفہ اور غیر متکیفہ(کیفیت اور بے کیفیت تجلیات) اور ظہورات متلوِّنہ اور غیرمتلوِّنہ(رنگ و بے رنگ ظہورات) وغیرہ جو کچھ ان میں سے نماز کے سوامیسر ہوں اور نماز کی حقیقت سے بے خبر ہونے کے باعث ظاہر ہوں ۔ ان کامنشا ظلال و امثال بلکہ وہم وخیال ہیں۔
نمازی جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہے نماز کے ادا کرنے کے وقت گویا عالم دنیا سے باہرنکل جاتا ہے اور عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس دولت سے جو آخرت سے مخصوص ہے حصہ حاصل کرلیتا ہے اور ظلیت کی آمیزش کے بغیر اصل کا فائدہ پا لیتا ہے۔ کیونکہ عالم دنیا کے کمالات ظلی پرمنحصر ہے اور وہ معاملہ جو ظلال سے باہر ہے وہ آخرت سے مخصوص ہے ۔ پس معراج سے چارہ نہ ہوگا اور وہ مومنوں کےحق میں نماز ہے۔ یہ دولت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو اپنے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی تابعداری کے سبب کہ شب معراج میں دنیا سے آخرت میں چلے گئے اور بہشت میں پہنچ کر حق تعالیٰ کی رؤیت کی دولت سے مشرف ہوئے ۔ اس کمال کے ساتھ مشرف ہوئے اور اس سعادت سے فیض یاب ہوئے۔
اَللّٰهُمَّ اَجْزِهٖ عَنَّا مَا هُوَ أَهْلُهُ وَ اجْزِهٖ عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَيْتَ نَبِيًّا عَنْ أُمَّتِهٖ وَ اجْزِ الْأَنْبِيَاءَ کُلَّهُمْ جَزَاءً خَيْرًا فَإِنَّهُمْ دَعَاةُ الْخَلْقِ إِلَى اللهِ سُبْحَانَهٗ وَهُدَاتُهُمْ إِلىٰ لِقَاءِاللهِ سُبْحَانَہٗ (یا اللہ تو ہماری طرف سے ان کو ایسی جزادے جس کے وہ لائق اور ان کو ہماری طرف سے اس سے افضل جزادے۔ جو تو نے امت کی طرف سے کسی نبی کو دی اور ہماری طرف سے تمام انبیاء کو جزاء خیر عطا کر کیونکہ وہ سب کے سب خلق کو اللہ کی طرفْ بلانے والے اور اس کےلقاء کی طرف ان کو ہدایت دینے والے ہیں۔) اس گروہ میں سے بعض نے جن کو نماز کی حقیقت سے آگاہ نہ کیا اور اس کے مخصوصہ کمالات پر اطلاع نہ بخشی۔ انہوں نے اپنی امراض کا علاج اور امور سے کیا اور اپنی مرادوں کا حاصل ہونا اور اشیاء پر وابستہ جانا ۔ بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے نماز کو بے فائدہ اور دور از کارسمجھ کر اس(وصول الی اللہ ) کی بنیاد( نماز کے علاوہ)غیر اور غیر یت (عبادات)پر رکھی اور روزہ کونماز سے افضل جانا۔
صاحب فتوحات مکیہ کہتا ہے کہ روزہ میں جو کھانے پینے کی ترک ہے وہ صفات صمدیت سےمتحقق ہوتا ہے اور نماز میں غیر وغیریت کی طرف آنا اور عابد ومعبود کا جاننا ہے۔
اس قسم کی باتیں اہل سکر کے احوال میں سے مسئلہ توحید وجودی (ایک ذات کو موجود جاننا) پر مبنی ہیں۔ یہ نماز کی حقیقت سے ناواقف ہونے کا ہی باعث ہے کہ اس طا ئفہ میں سے جم غفیر یعنی بہت سے لوگوں نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین سماع ونغمہ ووجدو تو اجد سے حاصل کی اور اپنے مطلوب کونغمہ کے پردہ میں مطالعہ کیا۔ اسی واسطے رقص ورقاصی کو اپنی عادت بنالیا حالانکہ انہوں نے سنا ہوگا کہ مَا جَعَلَ اللهُ فيِ الْحَرَامِ شِفَاءٌ (حرام میں اللہ تعالیٰ نے کوئی شفا نہیں رکھی ۔ ہاں اَلْغَرِيْقُ يَتَعَلَّقُ بِكُلِّ حَشِيْشٍ حُبُّ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ (ڈوبتے کو تنکے کا سہاراورکسی شے کی محبت اندھا اور بہر ہ کر دیتی ہے.) اگر نماز کے کمالات کی حقیقت کچھ بھی ان پر منکشف ہو جاتی تو ہرگز سماع ونغمہ کادم نہ مارتے اور وجدتواجد کویادنہ کرتے۔ع
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند ترجمہ جب حقیقت کو نہ پایا راہ افسانہ ليا
اے برادر !جس قدرفرق نماز ونغمہ میں ہے اسی قدر فرق نماز کےمخصومہ کمالات اور نغمہ سے پیداہوئے کمالات میں ہے۔ ۔ اَلْعَاقِلُ تَكْفِيْهِ الْإِشَارَةُ عقلمند کے لئے ایک ہی اشارہ کافی ہے۔ یہ وہ کمالات ہیں جو ہزار سال کے بعد وجود میں آئے ہیں اور آخر یت سے جو اولیت کے رنگ میں ظاہر ہوئی ہے۔ شاید حضور علیہ الصلوة والسلام نے اسی سبب سے فرمایا ہے کہ أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ (ان میں سے اول بہتر ہیں یا ان میں سے آخر) اور یہ نہ فرمایا أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ اَوٌسَطُهُ ان کے اول بہتر ہیں یا ان کے اوسط ) کیونکہ آخر کی اول کے ساتھ زیادہ مناسبت دیکھی جوترددکا محل ہے۔
اور دوسری حدیث میں حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ اس امت میں سے بہترین اول ہیں یا آخر اور درمیان میں کدورت و تیرگی(اندھیرا) ہے۔
ہاں اس امت کے متاخرین میں اگر چہ نسبت بلند ہیں لیکن قلیل بلکہ اقل ہیں اور متوسطوں میں نسبت اگر چہ بلند نہیں ہےلیکن کثیربلکہ ا کثر ہے۔ وَلِكُلٍ وَّجْهَةٌ كَمِیَّةٌ وَکَفِيَّةٌہر ایک کے لئےکمیت کیفیت کے لحاظ سے ایک جہت ہے لیکن اس نسبت کے اقل ہونے نے متاخرین (بعد) کو درجہ بلند میں پہنچایا اور سابقین کے ساتھ مناسبت دے کر خوشخبری دی۔ جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:۔ إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ دین اسلام غریب ہی ظاہر ہوا اور عنقریب غریب ہو جائے گا۔ پس غریبوں کیلئے خوشخبری ہے۔ اور امت کے آخریت کا شروع آنحضرت ﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد الف ثانی یعنی دوسرے ہزار سال کی ابتدا ہے کیونکہ الف یعنی ہزار سال کے گزرنے کو امور کے تغیر میں بڑی خاصیت ہے اور اشیاء کی تبدیلی میں قوی تاثیر ہے اور چونکہ اس امت میں نسخ و تبدیلی نہیں ہے۔ اس لئے سابقین کی نسبت اسی تروتازگی کے ساتھ متاخرین میں جلوہ گر ہوئی ہے اور الف ثانی میں ازسرنو شریعت کی تجدید اور ملت کی ترقی فرمائی ہے۔ اس معنی پر حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دونوں عادل گواہ ہیں۔
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید دیگراں ہم بکنند آنچه مسیحا میکرد
ترجمہ: فیض روح القدس کا گردے مددتو اور بھی کر دکھائیں کام وہ جو کچھ مسیحا سے ہوا اے برادر ! یہ بات آج اکثر لوگوں کونا گوار اور ان کےفہم سے دور معلوم ہوتی ہے لیکن اگر انصاف کریں اور ایک دوسرے کے علوم و معارف کا موازنہ کریں اور احوال کی صحت وسقم(صحیح و غلط) کا علوم شرعیہ کی مطابقت اور عدم مطابقت سے ملاحظہ کریں اور شریعت و نبوت کی تعظیم وتوقیر دیکھیں کہ ان میں سے کس میں زیادہ تر(مطابقت) ہے۔ تو امید ہے کہ یہ تعجب ان کا جاتا ہے اور یہ بات ان کو فہم سے دور معلوم نہ ہو۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں اور نبوت ولایت سے افضل ہے۔ اگر چہ اس نبی کی ولایت ہو اور یہ بھی لکھا ہے کہ کمالات ولایت کو کمالات نبوت کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے۔ کاش کہ ان کے درمیان قطرہ اور دریا کی کی نسبت ہوتی۔ اس قسم کی بہت سی باتیں اس مکتوب (نمبر 260 دفتر اول)میں جو طریقہ کے بیان میں اپنے فرزند کی طرف لکھا ہے۔ خاص طور پرکہی گئی ہیں وہاں سے ملاحظہ فرمالیں۔
اس گفتگو سے مقصود یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہو اور اس طریقہ کے طالبوں کو ترغیب ہو۔ نہ یہ کہ دوسروں پر اپنی فضیلت و بزرگی ثابت ہو۔ خدائے تعالیٰ کی معرفت اس شخص پر حرام ہے جو اپنے آپ کو کافر فرنگ سے بہتر جانے۔ تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو جو بزرگان دین سے اپنے آپ کو افضل جانے۔
ولے چوں شه مرا برداشت از خاک سزد گر بگذرانم سرز افلاک
من آں خاکم که ابر نو بهاری کند از لطف برمن قطره باری
اگر برروئد از تن صد زبانم چو سبزه شکرلطف کے توانم
ترجمہ : ابيات .مجھے جب خاک سے شہ نے اٹھایا ہے لائق ہو فلک سے اونچا پایا میں ہوں وہ خاک ابر نو بہاری کرے جس پر کرم سے قطره باری اگر ہر بال میں میری زبان ہو نہ شکر اس کاکبھی مجھ سے عیاں ہو۔
اس کے مطالعہ کے بعد اگرتم میں نماز کے سیکھنے اور اس کےمخصوص کمالات میں سے بعض کے حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور وہ شوق تم کو بے آرام کردے۔ تو استخاروں کے بعد ان حدود کی طرف آجائیں اور عمر کا کچھ نماز کے سیکھنے میں صرف کریں۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْهَادِيْ إِلىٰ سَبِيْلِ الرَّشَادِ اللہ تعالیٰ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ اَتَمَّهَا وَاَکْمَلُهَا اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺ کی تابعداری کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ238 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی