جذبہ اور سلوک کے معارف کا بیان مکتوب نمبر287 دفتر اول

 جذبہ اور سلوک اور ان معارف کے بیان میں جو ان دونوں مقاموں کے مناسب ہیں۔ اپنے برادر حقیقی حقائق آ گاہ میاں غلام محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَخَتَمَھُمْ بِأَفْضَلِهِمْ وَاَکْمَلِهِمْ مُحَمَّدَالَّذِيْ جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَلَوَاتُ اللهِ سُبْحَانَہٗ بَرَكَاتُہٗ  عَلَيْہِ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَ عَلَيْهِمْ وَعَلىٰ مَنْ تَابَعَهُمْ اَجْمَعِيْنَ إِلىٰ يَوْمِ الدِّيْنِ اٰمِیْنَ الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں اور ان کو ختم کیا ان کےا فضل اور اکمل حضرت محمدﷺسے جو صدق کے ساتھ آئے۔ ان پر اور ان کے تمام تابعداروں پر قیامت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوات و برکات ہوں ۔ آمین۔ 

دیکھنے میں آتا ہے کہ طالب اپنی کم ہمتی اور پست فطرتی اور شیخ کامل مکمل  کی صحبت نہ پانے کے باعث دراز راستہ اور بلند مطلب کو چھوٹے راستہ اور ادنی مطلب پر لے آئے ہیں اور جو کچھ ان کو راستے میں حقیر ونقیر یعنی ہیچ پوچ حاصل ہوا ہے اس پر کفایت کر کے اسی کو اصلی مقصد خیال کئے بیٹھے ہیں اور اس کے حاصل ہونے سے اپنے آپ کو کامل اور منتہی سمجھے بیٹھے ہیں اور وہ احوال جو راہ کے منتہیوں اور درگاہ کے واصلوں نے اپنے کام کے انجام اور اپنے روزگار کے نہایت (انتہا) کی نسبت بیان فرمائے ہیں ۔ یہ پست فطرت لوگ اپنی قوت متخیلہ کے غلبہ کے باعث ان احوال کاملہ کو اپنے احوال ناقصہ کے مطابق کرتے ہیں۔ ان کابعینہ یہی قصہ ہے۔ 

بخواب اندرمگر موشے شترشد ترجمہ خواب میں چوہا بن گیا اونٹ 

انہوں نے بحرعمیق سے قطره بلکہ قطرہ کی صورت پر اور دریائےعمان سے بوند بلکہ بوند کی صورت پر قناعت کی ہے اور چون( مثل)  کوبیچون (بے مثل)  تصور کر کے بیچون سے آرام حاصل کیا ہے اور مانند کو بیمانند خیال کر کے ان کو چھوڑ کر ان کے ساتھ گرفتار ہوئے ہیں۔ ان سالکوں کے احوال سے جنہوں نے ابھی سلوک کو تمام نہیں کیا اور ان پیاسوں کے حالات سے جنہوں نے سراب کے ساتھ آرام حاصل کیا ہوا ہے۔ ان لوگوں کے احوال جو تقلید کے ساتھ بیچون پر ایمان لائے ہیں اور بیمانند کے گرفتار ہیں۔ کئی درجے بہتر ہے۔ محق اور مبطل یعنی سچے اور جھوٹے اور مصیب او مخطی یعنی باصواب اور خطاکار  کے درمیان بہت فرق ہے۔ ان طالبوں کو جوا بھی مطلب تک نہیں پہنچے اور حادث (پردہ خفا سے وجود میں آنے والا) کو قدیم جانتے ہیں اور چون کوبیچون سمجھتے ہیں اگر غیرصحیح  کشف پر معذور نہ رکھیں اور اس غلط اور خطا پر مواخذہ نہ کریں تو ان کا حال نہایت ہی افسوس کے قابل ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ ‌نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَاتو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)

مثلا ایک شخص کعبہ کا طالب ہوا اور شوق سے اس کی طرف پہنچنے کے لئے متوجہ ہوا۔ اتفاقااثنائے راہ میں خانہ کعبہ جیسا ایک اور خانہ اس کے سامنے آیا صورت کی مشابہت کے باعث اس شخص نے خیال کیا کہ کعبہ ہے اور وہیں معتکف ہوکر بیٹھ گیا اور دوسرے شخص نے کعبہ کے خواص کو کعبہ کے واصلوں سے معلوم کر کے کعبہ کی تصدیق کی اس شخص نے اگرچہ طلب سے کعبہ کی راہ میں قدم نہیں رکھا لیکن اس نے غیر کعبہ کو کعبہ نہیں جانا ہے۔ یہ شخص اپنی تصدیق میں محق یعنی سچا ہے اور اس کا حال طالب خطا کارمذکور سے بہتر ہے لیکن اس طالب کا حال جو ہر چند مقصد تک نہیں پہنچا ہے لیکن اس نے غیر مطلب کو مطلب نہیں سمجھا ہے۔ اس مقلد کے حال سے جس نے ابھی راه مطلب میں قدم نہیں رکھا بہتر ہے کیونکہ اس نے مطلوب کے تصدیق کی حقیقت کے باوجود مطلوب کے راہ کی مسافت کو مجمل طور قطع کیا ہے۔ پس زیادت و برتری اس کے لئے محقق و ثابت ہوگی اور ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اپنے اس خیالی کمال کو وہمی وصال سےشیخی اورخلق کی اقتداء کی مسند پر بیٹھے ہیں اور اپنی منفعت کے باعث کمالات کے بہت سے مستعدوں کی استعداد کو ضائع کر دیا ہے اور اپنی صحبت کی سردی کی شومی سے طالبوں کی طلب کی حرارت کو دور کر دیا ہے ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا  اَضَاعُوْافَاَضَاعُوْا (یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور آپ بھی ضائع ہوئے اور دوسروں کو بھی ضائع کیا کمالات کا اس قسم کا تخیل اور وصال کا تو ہم سالکان مجذوب نارسیدہ کی نسبت مجذوبان سلوک ناکردہ میں زیادہ تر ہے کیونکہ مبتدی اور منتہی جذب کی صورت میں ایک دوسرے کے مشابہ اور عشق و محبت میں بظاہر ایک دوسرے کے مساوی ہیں اگر چہ حقیقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور ایک دوسرے کے احوال جدا ہیں۔

(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)

ابتداء میں جو کچھ ہے معلول ہے اور غرض پرمحمول ہے اور انتہا میں چونکہ حق کے ساتھ ہے سب کچھ حق کے لئے ہے۔ اس سخن کی تفصیل انشاء اللہ عنقریب مذکور ہوگی۔ یہ صوری مشابہت اور ظاہری مناسبت اس کھیل کا باعث ہو جاتی ہے اور چونکہ طریقہ علیہ نقشبندیہ میں جذب سلوک پر مقدم ہے۔ اس لئے اس طریق کے مجذوبوں کو جو سلوک کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے اس قسم کا تخیل اور اس طرح کا وہم بہت پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اور جماعت کے لوگ جن کو مقام جذبہ میں تقلب حاصل ہوتا ہے اور ایک حال سے دوسرے حال میں بدلتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ منازل سلوک قطع ہو گئیں اور سیر الی اللہ کے راستے طے ہو چکے ہیں اور ان تقلبات سے اپنے آپ کومجذوب سالک جانتے ہیں اس لئے خاطر فاتر میں آیا کہ چند فقرے لکھے جائیں جن میں جذبہ اور سلوک کی حقیقت اور ان ہر دو مقام کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ہر ایک کے خواص کو بیان کیا جائے جن کے سبب ایک دوسرے سےمتمیز ہو سکے اور جذب مبتدی اور جذب منتہی کے درمیان فرق اور مقام تکمیل و ارشاد اور اس مقام کے مناسب علوم کی حقیقت معلوم ہو لِيُحِقَّ الْحَقَّ ‌وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ تا کہ حق حق ثابت ہو اور باطل باطل ثابت ہو۔ اگر چہ مجرم لوگ اس کو ناپسند کریں۔ 

فشرعت فيہ بحسن توفيقه سبحانہ وھو سبحانه يهدى السبيل ونعم المولى ونعم الوكيل اب میں حق تعالیٰ کی توفیق سے اس بیان کو شروع کرتا ہوں اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے اور وہی اچھا مولی اور بہتر وکیل ہے۔ 

مکتوب دومقصدوں اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ 

مقصد اول

مقصد اول میں ان معارف کا بیان ہے جو مقام جذبہ کے متعلق ہیں اور مقصد ثانی میں ان معارف کا بیان ہے جو مقام سلوک سے تعلق رکھتے ہیں اور خاتمہ میں بعض ان علوم و معارف متفردہ کا بیان ہے۔ جن کا جاننا طالبوں کے لئے نہایت ہی مفید ہے۔ 

مقصد اول جاننا چاہیئے کہ وہ مجذوب جنہوں نے ابھی سلوک کو تمام نہیں کیا۔ اگر چہ قوی جذب رکھتے ہوں اور خواہ کسی راہ سے منجذب ہوں ۔ ارباب قلوب کے گروہ میں داخل ہیں ۔ سلوک اور تزکیہ نفس کے بغیر مقام قلب سے نہیں گزر سکتے تا کہ مقلب قلب یعنی دل کے پھیرنے والے تک پہنچ جائیں۔ ان کا انجذاب(کشش) قلبی ہے اور ان کی محبت عرضی ہے نہ ذاتی اورظلی ہے نہ اصلی ۔ کیونکہ اس مقام میں نفس روح کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ظلمت نور کے ساتھ خلط ملط ہوتی ہے۔ منازل سلوک کے قطع کرنے اورسیرا اللہ کے راستوں کو طے کرنے اور سیر فی اللہ کے ساتھ متحقق ہونے بلکہ مقام فرق بعد الجمع (جوسيرعن الله باللہ سے تعلق رکھتا ہے)کے حاصل ہونے کے بعد جب تک روح نفس سے خلاص و آزاد نہ ہو جائے تب تک مقام قلب کی تنگی سے کلی طور پرنہیں نکل سکتے اور مقلب قلب سے نہیں مل سکتے اور مطلوب کے ساتھ انجذاب روحی پیدا نہیں کر سکتے ۔ 

ہرگدائے مرد میداں کے شود           پشۂ آخر سلیماں کے شود

بھکاری کس طرح مرد میدان بن سکتا ہے اور نہ مچھر حضرت سلیمان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے

اس بیان سے جذب منتہی اور جذب مبتدی کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔ ان صاحبان قلوب مجذوبوں کا شہودپرده کثرت میں ہے۔ خواہ وہ ان معنی کو معلوم کریں یا نہ کریں اور اس کثرت میں ان کو عالم ارواح کے سوا اور کچھ مشہود نہیں ہوتا جو لطائف اور احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا)میں اپنے موجد کے مشابہ صورت رکھا ہے۔ ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ الله تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اس مناسبت کے باعث شہودروح کو شہودحق جانتے ہیں اور احاطہ اور سریان اور قرب ومعیت بھی اسی قیاس پر ہیں کیونکہ سالک کی نظر مقام فوق تک ہی رہتی ہے اور اس سے آگے مقام فوق، فوق تک عبور نہیں کر سکتے اور ان کے مقام کا فوق روح کا مقام ہے۔ اس لئے ان کی نظر مقدم روح سے بلندتر نہیں جاتی اور روح کے سوا اور کوئی امر مشہودنہیں ہوتا فوق روح تک نظر کا جانا مقام روح تک پہنچنے پر موقوف ہے اور محبت و انجذاب بھی شہود حق کی طرح ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ساتھ محبت و انجذاب کا پیدا ہونا فنا کے حاصل ہونے پر موقوف ہے جو سیراللہ کی نہایت سے مراد ہے ۔ 

ہیچکس را تا نگرد وفنا          نیست ره در بار گاه کبریا

ترجمہ: جب تک انساں نہ ہو جائےفنا تب تک ہرگز نہیں ملتا خدا

اس مقام میں شہود کا اطلاق میدان عبارت کی تنگی کے باعث ہے اور نہ ان بزرگوں کا کارخانہ شہود کےوراء الوراءہے جس طرح ان کا مقصدبیچون وییچگون ہے۔ ان کا اتصال بھی حق تعالیٰ کے ساتھ بیچون وییچگون ہے۔ چون کو بیچون کی طرف کوئی راہ نہیں لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں

اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست رب الناس رابا جان ناس

ترجمہ ہے خدا کو اپنے بندوں سے اک ایسا اتصال جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال

محققین ارباب سلوک کے نزدیک جو نہایت کار تک پہنچ چکے ہیں ۔ حق تعالیٰ کا احاطہ اورسریان اور قرب اور معیت علمائے اہل حق شکر اللہ تعالیٰ عنہم کے موافق علمی ہے۔قرب ذاتی وغیرہ کے ساتھ حکم کرنا ان کے نزدیک بے حاصلی اور دوری کی علامت ہے۔ نزدیک کے لوگ قرب کا حکم نہیں کرتے۔ 

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ جو کوئی کہتا ہے کہ میں نزدیک ہوں وہ دور ہے اور جوکوئی دور ہے وہ نزدیک ہے۔ تصوف یہی ہے اور وہ علم جو تو حیدوجودی کے متعلق ہے اس کا سبب قلبی محبت و انجذاب ہے۔ وہ ارباب قلوب جن کو ابھی جذب حاصل نہیں ہوا اور سلوک کے طریق پر منازل قطع کرتے ہیں۔ یہ علم ان کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اور ایسے ہی وہ مجذوب جو سلوک کے ساتھ قلب سے پورے طور پر مقلب قلب کی طرف متوجہ ہیں ۔ ان علوم سے بیزار اور توبہ کرتے ہیں ۔ بعض جذب ایسے ہوتے ہیں جو ہر چند راہ سلوک پر آ جاتے ہیں اور سلوک سے منازل کو طے کرتے ہیں لیکن ان کی نظر مقام مالوف (مانوس مقام)سے قطع نہیں ہوتی اورفوق کی طرف توجہ پیدا نہیں کرتی۔ اس قسم کے علوم ان کا دامن نہیں چھوڑتے اور اس بھنور سے نہیں نکل سکتے ۔ اسی واسطے مدارج قرب پر عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کرنے اور مراتب قدس پر صعود کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا ‌مِنْ ‌لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا ‌مِنْ ‌لَدُنْكَ نَصِيرًا اے ہمارے رب ہم کو اس گاؤں سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور تو خود ہمارا کارساز اور مددگار بن) ان علوم سے بیزار ہونا نہایت مطلب تک پہنچنے کی علامت ہے کیونکہ جوں جوں تنزیہ کے ساتھ زیادہ زياده مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ توں توں عالم کی اپنے صانع کے ساتھ بے مناسبتی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اس وقت عالم کوصانع کا عین جاننا یا صانع کو عالم کا محيط بالذات سمجھنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبُّ الْاَرْبَابِ

(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)

معرفت: حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت(انتہا) کوبدایت(ابتدا)  میں درج کرتے ہیں۔ 

اس عبارت کے معنی یہ ہیں کہ وہ انجذاب ومحبت جومنتہیوں کو نہایت میں میسر ہوتی ہے۔ اس طریق میں وہ انجذاب ومحبت ابتداء میں پیدا ہو جاتی ہے۔ مندرج ہے کیونکہ منتہی کا جذب روحی ہوتا ہے اور مبتدی کا جذب قلبی اور چونکہ قلب روح اور نفس کے درمیان برزخ ہے اس لئے جذب قلبی کےضمن میں جذب روحی بھی میسر ہو جاتا ہے اور اس اندراج کو اس طریق کے ساتھ خاص کرنا اگرچہ یہ مطلب تمام جذبات میں حاصل ہے۔ اس سبب سے ہے کہ اس خاندان کے بزرگواروں نے اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ایک خاص طریقہ وضع کیا ہے اور اس مطلب تک پہنچنے کے لئے ایک خاص مسلک تعین کیا ہے اور دوسروں کو یہ مطلب اتفاق کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کوئی خاص ضابطہ اور قاعدہ مقرر نہیں ہے اور نیز ان بزرگواروں کے لئے مقام جذبہ میں شان خاص ہوتی ہے جو اوروں کے لئے نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو شاذو نادر ہوتی ہے اسی واسطے ان میں سے بعض کو اس مقام میں بغیراس بات کے کہ منازل سلوک کو قطع کریں۔ ارباب سلوک کے فنا و بقاء کی مانند فنا و بقاء حاصل ہو جاتا ہے اور مقام تکمیل کی سیر بھی جو مقام سیر عن الله باللہ کے مشابہ ہے۔ میسر ہو جاتی ہے جس کے ساتھ یہ لوگ مستعدوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس بحث کی تحقیق انشاء اللہ عنقریب لکھی جائے گی۔ یہاں ایک دقیقہ ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ روح کو بدن کے تعلق سے پہلے ایک قسم کی توجہ اپنے مقصود کی طرف حاصل ہوتی ہے جب اس کا تعلق بدن کے ساتھ ہوا تو وہ توجہ زائل ہوگئی۔ 

اس طریقہ علیہ کے بزرگواروں نے اس سابقہ توجہ کے ظہور کے لئے اس خاص طریقہ کو وضع کیا ہے لیکن چونکہ روح بدن کے ساتھ متعلق ہے اس واسطے تو جہ قلبی حاصل ہوتی ہے جو توجہ روح نفس کی جامع ہے اور کچھ شک نہیں کہ توجہ روحی توجہ قلبی میں مندرج ہے لیکن توجہ روحی جو منتہیوں کے لئے ہے۔ روح کے فنا اور وجود حقانی کے ساتھ اس کے بقاء کے بعد ہے جس کو بقا باللہ سے تعبیر کرتے ہیں اور توجہ روحی جوتو جہ قلبی کے ضمن میں ہے بلکہ روح کی وہ توجہ بھی جو بدنی تعلق سے پہلے تھی ۔ وہ توجہ ہے جو باوجودہستی روح کے ہے جس کی طرف فنانے راستہ نہیں پایا اور روح کی اس توجہ میں باوجودہستی روح کے ہے اور اس توجہ میں جو روح کے فنا ہو نےکے  باوجود ہے بہت فرق ہے۔ پس اس توجہ روحی مندرج کو نہایت کہنا اس اعتبار سے ہے کہ روح کی توجہ ہے کیونکہ نہایت میں صرف یہی رہتی ہے۔ پس بدایت کے اندراج سے یہ مراد ہے کہ نہایت کی صورت بدایت (ابتدا) میں مندرج ہے نہ کہ نہایت کی حقیقت کیونکہ اس کا بدایت میں مندرج ہونا محال ہے اورممکن ہے کہ صورت کے لفظ کو اسی واسطے نہ لائے ہوں تا کہ اس طریق کی طلب میں رغبت وشوق پیدا ہو وَالْحَقِیْقَۃُ مَا حَقَقْتُ  بِعَوْنِ اللهِ تَعَالٰى ( حقیقت یہی ہے جو اللہ کی مدد سے میں نے تحقیق کی اور وہ سابقین (سب سے آگے بڑھنے والے) جن کا انجذاب بے عمل وبے کسب ہے (یعنی ان کو کسی عمل یا کسب کی حاجت نہیں محض اللہ کی عنایت ان کو کھینچ لائی ہے بلکہ توجہ و حضور کے ساتھ آئے ہیں ۔ ان کا انجذاب بھی قلبی ہے اور روح کی اس سابقہ توجہ کا اثر ہے جو بدنی تعلق کے باعث اس سابقہ توجہ کو فراموش کر چکے ہیں۔ گویاکسب اس توجہ سابقہ کی آگاہی کے لئے اور اس گمشدہ دولت کے یاد دلانے کے لئے ہے لیکن توجہ سابقہ کے بھولنے والے سابقان مذکورہ سے لطیف الاستعداد ہیں کیونکہ متوجہ الیہ کی طرف سے توجہ سابق کا کلی طور پر فانی اور گم ہونے کی خبر دیتا ہے اور توجہ کا عدم نسیان ایسا نہیں ہے۔ غرض سابقین میں وہ توجہ کلی طور پر شمول و سریان (سرایت) پیدا کر لیتی ہے اور ان کے بدن بھی ان کی روح کاحکم حاصل کر لیتے ہیں ۔ کَمَا هُوَ شَانُ الْمَحْبُوْبِيْنَ الْمُرَا دِیْنَ (جیسا کہ محبوبین مرادین کا حال ہے لیکن محبوبین کے اس شمول اور سابقین کے شمول میں وہی فرق ہوتا ہے جو کسی شے کی حقیقت اور صورت میں ہوتا ہے۔ كَمَا ھُوَ الظَّاهِرُ عَلىٰ أَرْبَابِهٖ  (جیسا کہ اس کے واقفان پر ظاہر ہے) ہاں محبان واصل اور مریدان کامل کے لئے بھی اس قسم کاشمول ثابت ہو جاتا ہے لیکن یہ شمول برقی کی طرح ہوتا ہے۔ دائمی نہیں ہوتاشمول دائمی محبوبوں کا خاصا ہے۔

 معرفت: مجذوبان ارباب قلوب جب مقام قلب میں تمکین و رسوخ پیدا کر لیتے ہیں اور وہ معرفت وصحو جو اس مقام کے مناسب ہے ان کو حاصل ہو جاتا ہے تو اس وقت طالبوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور ان کی صحبت میں طالبوں کوقلبی انجذاب ومحبت حاصل ہوجاتی ہے لیکن ان سے کمال تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یہ خود حد کمال تک نہیں پہنچے ہیں۔ اس واسطے دوسروں کے لئے کمال حاصل کرنے کا واسطےنہیں بن سکتے۔ یہ بات مشہور ہے کہ ہاتھ سے کوئی کام نہیں بنتا۔ البتہ ان کا افادہ(فائدہ  پہنچانا  )  جتنا ہی ہوار باب سلوک کے افادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر چہ ارباب سلوک نہایت سلوک تک پہنچ جائیں اور منتہیوں کا جذب پیدا کرلیں لیکن مقام قلب میں ان کوسیرعن اللہ باللہ کے طریق پر نہیں لاتے۔ کیونکہ وہ منتہی جس نے ابھی عالم کی طرف رجوع نہیں کیا۔ 

تکمیل و افادہ کا مرتبہ نہیں رکھتا کیونکہ عالم کے ساتھ اس کو کوئی توجہ اور مناسبت نہیں ہوتی تا کہ غیر کا افادہ کر سکے۔ شیخ  مقتداء کو جو برزخ کہتے ہیں اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ مقام برزخیت میں جس کو مقام قلب کہتے ہیں، اتراء ہوا ہوتا ہے اور روح ونفس ہر دو جہت سے حظ وافر (پورا پورا حصہ) حاصل کیا ہوتا ہے۔ روح کی جہت سے اپنے فوق و اعلی سے استفادہ(فائدہ    حاصل کرنا)  یعنی فائدہ حاصل کرتا ہے اور نفس کی جہت سے اپنے سے ادنی و ماتحت کو فائدہ دیتا ہے کیونکہ اس کے لئے حق تعالیٰ کی توجہ اورخلق کی توجہ دونوں جمع ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کا حجاب نہیں ہوتیں۔ پس افاد ہ و استفادہ اس کو ایک ہی وقت میں حاصل ہوتے ہیں۔ بعض مشائخ اس برزخیت سے برزخیت بین الخلق والحق (خلق اور حق کے درمیان برزخیت ) مرادر کھتے ہیں اور شیخ  برزخ کو تشبیہ وتنزیہ کا جامع کہتے ہیں۔ 

پوشیدہ نہ رہے کہ اس قسم کی بر زخیت جوسکر پرمبنی ہے۔ مقامی  شیخی (جو سراسر صحو  پرمبنی ہے) کے لائق نہیں ہے کیونکہ اس مقام میں ان کانفس روحانی انوار کے غلبوں میں پھنسا ہوتا ہے اور یہی امر سکر(مستی) کا باعث ہو جاتا ہے اور مقام برزخیت میں قلب ونفس وروح ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ پس ناچارسکر کی گنجائش نہ ہوگی بلکہ وہاں تو صحوہی صحو ہے جو مقام دعوت کے مناسب ہے اور شیخ  کامل کو جو مقام قلب میں لے آتے ہیں توبرزخیت کے باعث عالم کے ساتھ مناسبت پیدا کر لیتا ہے اور مستعدوں کے لئے کمالات حاصل کرنے کا واسطہ بن جاتا ہے اور مجذوب متمکن بھی چونکہ مقام قلب میں ہے وہ بھی عالم کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور توجہ کو اس سے دریغ نہیں کرتا اور انجذاب و محبت سے اگر چہ قلبی ہو، بہت سا حصہ اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے افادہ کا راستہ اس پر کھل جاتا ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ مجذوب متمکن کے افادہ کی کمیت یعنی مقدار منتہی مرجوع کے افادہ کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے اورمنتہی کے افادہ کی کیفیت مجذوب کے افادہ سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ منتہی مرجوع اگر چہ عالم کے ساتھ مناسبت پیدا کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں جدا ہے اور رنگ اصلی کے ساتھ رنگا ہوا اور اس کے ساتھ باقی ہے اور یہ مجذوب حقیقت میں عالم کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور من جملہ افراد عالم کے ہوتا ہے اور اس بقاء کے ساتھ باقی رہتا ہے جس سے عالم باقی ہے پس طالب حقیقی مناسبت کے باعث منتہی مرجوع کی نسبت مجذوب زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں لیکن کمالات ولایت کے مراتب کاافاده منتہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ پس اس لحاظ سے منتہی کا افادہ کیفیت میں راجح اور غالب ہوگا اور نیزمنتہی کے لئے درحقیقت ہمت و  توجہ  نہیں ہوتی اورمجذوب صاحب ہمت وتوجہ ہوتا ہے۔ ہمت وتوجہ کے ساتھ طالب کا کام نکال لے جاتا ہے۔ اگرچہ حد کمال تک نہیں پہنچا تا اور نیز نہایت توجہ جو طالبوں کو مجذوبوں سے حاصل ہوتی ہے۔ روح کی وہی سابقہ توجہ ہے جو انہوں نے فراموش کی تھی۔ ان کی صحبت میں ان کو یاد آ جاتی ہے اور بطریق اندراج توجہ قلبی میں حاصل کر لیتے ہیں۔ برخلاف اس توجہ کے جو منتہیوں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ توجہ حادث (پردہ خفا سے وجود میں آنے والا) ہے جو پہلے حاصل نہ تھی اور روح کے فانی ہونے بلکہ وجود حقانی کے ساتھ اس کے باقی ہونے پر موقوف تھی۔ پس توجہ اسہل الحصول یعنی حاصل ہونے میں آسان ہوگی اور توجہ ثانی متعسر الوجود یعنی مشکل سے حاصل ہونے والی ہوگی اور جو چیز زیادہ آسان ہوتی ہے۔ زیادہ حاصل ہوتی ہے اور جو چیز مشکل ہوتی ہے۔ کمتر حاصل ہوتی ہے۔ اسی سبب سے بزرگوں نے کہا ہے کہ جہت جذبہ کے حاصل کرنے میں شیخ  مقتدا کا واسطہ نہیں ہے کیونکہ یہ نسبت اس کو اول ہی حاصل تھی۔ صرف نسیان کے باعث تنبیہ  وتعلیم کا محتاج ہوا ہے۔ اسی واسطے اس شیخ کو شیخ تعلیم اورشیخ تر بیت کہتے ہیں اورجہت سلوک میں منازل سلوک کے قطع کرنے کے لئے شیخ مقتدادرکار ہے اور اس کی تربیت ضروری ہے۔ 

شیخ مقتدا کو لازم ہے کہ اس قسم کےمجذوب متمکن(مقام قلب  میں قرار پذیر مجذوب) کو عام کے افادہ کیلئے اجازت دے اور مقام تکمیل اور شیخی میں بٹھائے۔ کیونکہ بعض طالب ایسے ہوتے ہیں جن کی استعداد بلند ہوتی ہے اور کمال و تکمیل کی قابلیت ان میں کامل طور پر ہوتی ہے۔ ایسے طالب اگر ایسےمجذوب کی صحبت میں آجائیں تو احتمال ہے کہ ان کی وہ استعداد ضائع ہو جائے اور ان کی وہ قابلیت برطرف ہو جائے۔ مثلا وہ زمین جس میں گندم ہونے کی عمده قابلیت ہو اگر اس میں گندم کا اچھا بیج بویا جائے تو استعداد کے موافق اچھا پھل لاتی ہے اور اگر زمین میں گندم کا ردی بیج  یا چنوں کابیج ڈالا جاۓ تو ظاہر ہے کہ پھل تو کیا اس کی قابلیت بھی مسلوب وضائع ہوجائے گی۔ 

اور اگر بالفرض شیخ مقتدااس کی بہتری اجازت میں دیکھے اور افادہ کے معنی اس میں معلوم کرے تو چاہیئے کہ اس کے افاده کوبعض قیود اور شرائط کے ساتھ مقید کرے۔ مثلاًاس کے افاده کے طریق پر طالب کی مناسبت کا ظاہر ہونا اور اس کی صحبت میں اس کی استعداد کا ضائع نہ ہونا اور اس ریاست میں اس کے نفس کا سرکش نہ ہونا کیونکہ تز کیہ نفس نہ ہونے کے باعث اس سے ہوائے نفسانی کی اقتدا زائل نہیں ہوئی اور جب معلوم کرے کہ طالب اس سے اس کے نہایت افاده تک پہنچ گیا ہے اور طالب کی استعداد میں ابھی ترقی کی قابلیت ہے تو اس کو چاہیئے کہ یہ بات اس پر ظاہر کر دے اور اس کو رخصت دے دے تا کہ وہ اپنے کام کو دوسرے شیخ  سے کامل و تمام کرے اور اپنے آپ کو منتہی نہ سمجھ لے اور اس حیلہ سے لوگوں کی رہزنی نہ کرے اور اس قسم کی شرائط جو اس کے حال کے مناسب جانے اس کے سامنے ذکر کر دے اور ان کی وصیت کر کے رخصت و اجازت دے دے لیکن منتہی مرجوع افاده وتکمیل ہیں ان قیود و شرائط کامحتاج نہیں ہے کیونکہ اس کو جامعیت کے باعث تمام طریقوں اور استعدادوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی استعداد و مناسبت کے موافق اس سے فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔ اگرچہ مشائخ اور مقتداؤں کی صحبت میں مناسبت کے قوی یا ضعیف ہونے کے باعث سرعت و بطوء یعنی دیری اور جلدی میں تفاوت (فرق) ہے لیکن اصل افادہ میں تساوی الاقدام میں رتبہ میں برابر ہیں ۔

شیخ مقتداکولازم ہے کہ طالب کے افادہ کے وقت حق سبحانہ کی بارگاہ میں التجا کرتا رہے اور اس کے حبل متین یعنی مضبوط رسی سے پنجہ مارے کہ مبادا۔ اس اشتہار کے ضمن میں مکر و استدراج (شعبدہ بازی) پوشیدہ ہو اور یہ التجااس امر میں کیا بلکہ تمام امور میں ہر وقت حق سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو عطا فرمائی ہوتی ہے اور کسی فعل میں کسی وقت اس سے جدا نہیں ہوتی ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

مقصد دوم 

اس بیان میں جو سلوک سے تعلق رکھتا ہے 

جاننا چاہیئے کہ طالب جب طریق سلوک میں فوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اگر اس اسم تک جو اس کا رب ہے پہنچے اور اس میں فانی اور مستہلک ہو جائے۔ تو فنا کا اطلاق اس پر درست آتا ہے۔ بعد ازاں اس اسم کے ساتھ بقا حاصل کرنا اس پر مسلم اور اس فنا و بقا کے حاصل ہونے سے ولایت کے مرتبہ اولی کے ساتھ مشرف آجاتا ہے۔ اس سخن کو تفصیل اور بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 

تمہید: وہ فیض جوحق تعالیٰ کی طرف سے پہنچتا ہے دوقسم کا ہے ایک قسم وہ ہے جو ایجاد (موجود کرنا) اور ابقا ( باقی رکهنا ) اور تخلیق ( پیدا کرنا) اور ترزیق (رزق دینا) اور احیا (زنده کرنا) اور اماتت ( مارنا) وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ 

دوسری وہ قسم ہے جو ایمان و معرفت اور مراتب ولایت ونبوت کے تمام کمالات سے متعلق ہے۔ پہلی قسم کا فیض صفات کے ذریعے آتا ہے بعض کو شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) کے واسطہ سے اور صفات اور اور شیونات کے درمیان بہت دقیق فرق ہے۔ لا يظهرالا على أحاد من الأولياء المحمدي المشرب ولم يعلم أنه تکلم به أحد(محمدی المشرب اولیا کے سوا اور کسی پر ظاہرنہیں ہوتا اور نہ ہی کسی اور نے اس کی نسبت کلام کی ہے۔

غرض صفات حق تعالیٰ کی ذات پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں اور اور شیونات حق تعالیٰ کی ذات میں مجرد اعتبار ہیں ۔ اس بیان کو ہم اس مثال سے روشن کرتے ہیں ۔ مثلا پانی بالطبع اوپر سے نیچے کو آتا ہے۔ طبعی فعل اس میں حیات و علم و قدرت واردات کا اعتبار پیدا کرتا ہے کیونکہ صاحبان علم اپنے ثقل کے باعث متقضائے علم اوپر سے نیچے کو آتے ہیں اور فوق کی طرف توجہ نہیں کرتے اور علم حیات کے تابع ہیں اور اردات علم کے تابع ہے اور قدرت بھی ثابت ہے کیونکہ احد المقدورین(دو مقداروں میں سے ایک اختیار کرنا) کی تخصیص ہے۔ 

 یہ اعتبارات پانی کی ذات میں ثابت کئے جاتے ہیں، بمنزلہ  شیونات کے ہیں ۔ اگر ان اعتبارات کے باوجود پانی کی ذات میں صفات زائدہ ثابت کئے جائیں تو وجود زائدہ کے ساتھ صفات موجود ہ کی طرح ہونگے ۔ پانی کو پہلے اعتبارات کے لحاظ سےحی و قادر ومر ید  نہیں کہہ سکتے ان اسموں کے ثابت کرنے کے لئے صفات زائد کا ثابت کرنا ضروری ہے۔ 

پس جو بھی بعض مشائخ کی عبارت میں پانی کیلئے مذکورہ بالا اسموں کے ثابت کرنے کیلئے واقع ہوا ہے۔ وہ شیون و صفات کے درمیان فرق کے نہ ہونے پرمبنی ہے۔ ایسے ہی صفات کی وجودکی نفی کا حکم بھی اس فرق کے نہ ہونے پر محمول ہے۔

دوسرا فرق شیون و صفات کے درمیان یہ ہے کہ مقام شیون ذی شان کا موجہ یعنی جائے توجہ ہے اور مقام صفات ایسا نہیں ہے۔ 

حضرت محمد رسول الله ﷺاور ان اولیاء کو جو آپ کے قدم پر ہیں ۔فیض ثانی اور شیونات  کے واسطہ سے پہنچتا ہے اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور ان لوگوں کو جو ان کے قدموں پر ہیں ۔ یہ فیض  بلکہ اول بھی صفات کے واسطہ سے پہنچتا ہے پس میں کہتا ہوں کہ وہ اسم جوآنحضرت علیہ الصلوة والسلام کا رب اور فیض دوم کے پہنچنے کا واسطہ ہے ۔ شان العلم کاظل ہے اور یہ شان تمام اجمالی شیون کا جامع ہے اور وہ ظل شان علم کے لئے بلکہ تمام اجمالی و تفصیلی شیون کے لئے اس اعتبار سے کہ شان علم ان سب کو شامل ہے۔ ذات حق تعالیٰ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ یہ قابلیت اگر چہ حق تعالیٰ کی ذات اور شان العلم کے درمیان برزخ ہے لیکن چونکہ اس کی ایک جہت بے رنگ ہے اور وہ حق تعالیٰ کی ذات کی جہت ہے ۔ اس لئے برزخ میں بھی اس کا رنگ پیدا نہیں ہوتا ۔ پس وہ برزخ دوسری جہت کے رنگ سے شان العلم سے رنگا ہوا ہے اس لئے شان کے ظل کا اثر کہا گیا ہے اور نیزظل شے مرتبہ دوم میں اس شے کے ظہور سے مراد ہے اگر چہ شبہ و مثال کے طور پر ہو چونکہ برزخ کا حاصل ہونا طرفین کے حاصل ہونے کے بعد ہے ۔ اس لئے یہ برزخ مکاشفہ کے وقت اس شان کے تحت منکشف ہوتا ہے۔ پس اس ظہور کے اعتبار سے آخر تک ظلیت کا اطلاق مناسب ہو۔ اولیاء اللہ میں سے ایک گروہ جو آنحضرت ﷺ کے قدم پر ہیں ۔ وہ اسماء جوفیض ثانی کے پہنچنے میں ان کے رب ہیں ۔ اس قابلیت کے ظلال کے جامع ہیں اور اس ظل مجمل کے لئے تفصیلوں کی طرح ہیں اور تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے ارباب جو ان کے فیض اول وثانی کےپہنچنے کا واسطہ ہیں ۔ذات حق تعالیٰ کی وہ قابلیتیں ہیں جو وجود زائد ہ کی صفات سے متصف ہیں اور وہ لوگ جو ان کے قدموں پر ہیں ان کے ارباب و صفات ہیں جو ان کے واسطے فیض اول و ثانی کے پہنچنے کا ذریعہ ہیں اورآنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے لئےفیض اول کے پہنچنے کا واسطہ ذات حق تعالیٰ کی وہ قابلیت ہے جو تمام صفات سے متصف ہے گویا وہ قابلیتیں جو تمام انبیائے علیہم الصلوة والسلام کے فیوض کا واسطہ ہیں ۔ اس قابلیت جامع کے ظلال ہیں اور اس جامع مجمل کے لئے تفصیلوں کی طرح ہیں اور وہ لوگ جو آنحضرت ﷺکے قدم پر ہیں ان کے لئے فیض اول کے پہنچنے کے راستے بھی جدا ہیں۔ یعنی صفات ہیں ۔ پس محمدیوں کے لئے فیض اول کے پہنچنے کے ذریعے فیض ثانی کے پہنچنے ذریعوں سے جدا ہیں، برخلاف دوسروں کے کہ ان کے لئے دونوں فیوض کے پہنچنے کا ذریعہ ایک ہی ہے۔ 

بعض مشائخ قدس سرہم نے جوآنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے رب کو قابلیت اتصاف(وصف) میں منحصر کیا ہے۔ اس کا سبب شیون و صفات کے درمیان فرق کا نہ ہونا بلکہ مقام شیون کے علم کا نہ ہونا ہے ۔ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي ‌السَّبِيلَ (اللہ تعالیٰ حق ظاہر کرتا ہے اوروہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے) پس ثابت ہوا کہ آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کا رب مقام شیون میں بھی اور خانہ صفات میں بھی رب الارباب ہے اور دونوں فیوض کے پہنچنے کا واسطہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے مراتب کمالات کے فیض کا پہنچنا حق تعالیٰ کی ذات سے امر زائد کے وسیلہ کے بغیر ہے۔ کیونکہ شیون عین ذات حق تعالیٰ ہیں ان میں زیادتی کا اعتبار کرنا عقل کے منتزعات(علیحدہ) سے ہے اس واسطےتجلی ذاتی آنحضرت علیہ والصلاة والسلام کے ساتھ مخصوص ہوئی اور حضور علیہ السلام کے کامل تابعدار چونکہ حضور علیہ السلام کی راہ سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے ان کو بھی اس مقام سے کچھ حصہ حاصل ہے اور دوسرے کیلئے چونکہ صفات کے وسائل درمیان ہیں اور صفات وجود زائدہ کے ساتھ موجود ہیں اس لئے بڑا مضبوط حجاب در میان آگیا اور تجلی صفاتی ان کے نصیب ہوئی۔ 

جاننا چاہیئے کہ  قابلیت اتصاف اگرچہ اعتبار ہے لیکن وجود زائد نہیں رکھتی کیونکہ صفات وجود زائدہ رکھتی ہیں نہ کہ ان کی قابلیتیں لیکن چونکہ قابلیتیں ذات و صفات بلکہ شیون وصفات کے درمیان برزخوں کی طرح ہیں اور برزخ اپنی طرفین کا رنگ حاصل کرلیتا ہے اس لئے قابلیتوں نے بھی صفات کا رنگ پکڑ کرحائلیت (حائل یا مانع)پیدا کر لی ہے

 فراق دوست اگر اندک است اندک نیست درون دیدہ اگر نیم مواست بسیار است 

ترجمہ: فراق دوست تھوڑا بھی بہت ہے حق میں عاشق کے نظر آ تا بہت ہے، ہو اگر چہ نیم موجتنا

 اس بیان سے ظاہر ہوا ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات کا بے پردہ ظہورتجلی  شہود ی کے منافی نہیں ہے لیکن تجلی وجودی کے منافی ہے۔ اس واسطے آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے لئے کمالات ولایت کے شہود ی فیض کے پہنچنے کی جانب میں کوئی حائل درمیان نہ آیا۔ جو قابلیت اتصاف ہے جیسا کہ گزر چکا ۔ یہ نہ کہا جائے کہ جب شیون اور ان کی قابلیتیں عقل کے اعتبارات سے ہیں تو وجودذہنی ثابت ہو اور اس سے حجاب علمی آتا ہے۔ غرض صفات کے باب خارجی ہیں اور شیون کے حجا ب علمی کیونکہ میں کہتا ہوں کہ موجودذہنی دو موجود خارجی کے درمیان پردہ نہیں ہوسکتا اور موجود خارجی (وجود جس کا خارج میں ادراک ہو سکے) کے درمیان موجود خارجی پردہ ہوسکتا ہے اور اگر اس کوتسلیم بھی کر لیں توبعض معارف کے حاصل ہونے سے حجاب علمی کا درمیان سے اٹھ جانا ممکن ہے۔ برخلاف خارجی کے کہ اس کا زائل ہونا ممکن نہیں۔ 

جب یہ مقدمات معلوم ہو چکے تو پھر جاننا چاہیئے کہ اگرمحمدی مشرب ہے تو اس کی سیر کی انتہاء جو سیر الی اللہ سے موسوم ہے اس شان کے ظل تک ہے جو اس کا اسم ہے اور اس اسم میں فنا ہونے کے بعد فنا فی اللہ سے مشرف ہوجاتا ہے اور اگر اس اسم کے ساتھ باقی ہوجائے تو بقا باللہ بھی اس کو حاصل ہوجاتا ہے اور اس فنا و بقا سے ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلاة والسلام والتحية کے پہلے مرتبہ میں داخل ہوجاتا ہے اور اگر محمدی مشرب نہیں ہے تو صرف صفت کی قابلیت یانفس صفت تک جو اس کا رب ہے پہنچتا ہے اور اگر اس اسم میں فانی ہوجائے تو فانی فی اللہ کا اطلاق اس پر نہ کرنا چاہیئے اور ایسے ہی اس اسم کے ساتھ باقی ہونے پر باقی باللہ کا اطلاق بھی نہ کرنا چاہیئے ۔   کیونکہ اسم اللہ اس مرتبہ سے مراد ہے جو تمام شیون و صفات کا جامع ہے اور چونکہ شیون کی جہت میں زیادتی کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لئے ذات کے عین ایک دوسرے کے عین ہیں۔ پس ایک اعتبار میں فانی ہونا گویا تمام اعتبارات میں بلکہ ذات حق تعالیٰ میں فانی ہونا ہے۔ ایسے ایک اعتبار کے ساتھ باقی ہونا تمام اعتبارات کے ساتھ باقی ہونا ہے۔ پس اس صورت میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہنا درست ہے۔ بر خلاف صفات کی جانب کے جو ذات حق تعالیٰ پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مغائرت حقیقی ہے۔ پس ایک میں فانی ہونا تمام میں فانی ہونے کو مستلزم نہیں ہے اور یہی حال بقا میں ہے۔ پس اس فانی کو فانی فی اللہ اور باقی کو باقی باللہ نہ کہنا چاہیئے بلکہ مطلق فانی و باقی کہنا چاہیئے ۔ یا کسی صفت کے ساتھ مقید کرنا چاہیئے ۔ یعنی فانی در صفت علم یا باقی بہ صفت علم ۔ پس محمد یوں کی فنا اتم ہے اور ان کی بقا اکمل ہے اور نیز محمدی کا عروج چونکہ شیون کی جانب ہے اور شیون کی عالم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے کیونکہ عالم صفات کاظل ہے نہ کہ شیون کاظل ۔ پس سالک کا ایک شان میں فانی ہونا اس کے مطلق فناکو مستلزم ہوگا۔ اس طرح پر کہ سالک کا وجود اور اس کا کچھ اثر باقی نہ رہے گا اور ایسے ہی اس شان کے ساتھ کامل طور پر باقی ہو جانے پر باقی ہوجاتا ہے برخلاف فانی درصفت کے جو پورے طور پر اپنے آپ سے نہیں نکلتا اور اس کا اثر زائل نہیں ہوتا کیونکہ سالک کا وجود اسی صفت کا اثر اورظل ہے۔ پس اصل کا ظہورظل کے وجود کوکلی طور پر محونہیں کرتا اور بقافنا کے اندازہ کے موافق ہوتی ہے ۔ پس محمدی المشرب صفات بشریت کی طرف رجوع کرنے سےبے غم اور اس کے خوف سے محفوظ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کلی طور پر اپنے آپ سے نکل کرحق سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ باقی ہوتا ہے۔ اس مقام میں عود کر نا ممنوع ہوتا ہے۔ برخلاف فناۓ صفاتی کی صورت میں کہ ان میں وجودسا لک کے اثر باقی رہنے کے باعث عود کر ناممکن ہے اورممکن ہے کہ وہ اختلاف جو مشائخ  کے درمیان اصل کی طرف رجوع کرنے کے جواز یا عدم جواز میں ہے اسی سبب سے ہولیکن حق یہ ہے کہ اگر محمدی ہے توعود سے محفوظ ہے۔ ورنہ معاملہ خطرناک ہے اور ایسے ہی وہ اختلاف ہے جوفنا ہونے کے بعد وجود سالک کے اثر کے زائل ہونے میں ہے، بعض اثر و عین کے زوال کے قائل ہیں اور بعض اثرکے زوال کو بھی جائز نہیں جانتے۔ اس باب میں بھی حق یہی ہے کہ اگرمحمدی ہے تو عین و اثر دونوں کوگم کردیتا ہے اور اس کے غیر کا اثر زائل نہیں ہوتا۔ 

کیونکہ اصل صفت جو اس کا اثر ہے باقی ہے ۔ پس اس کےظل کا بالکل زائل ہونا ممکن نہیں یہاں ایک دقیقہ بیان کرنے کے قابل ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ عین و اثر کے زوال سے زوال شہود ی مراد ہے نہ وجودی کیونکہ وجودی زوال کا قائل ہونا الحاد و زندقہ(بے دینی)  کومستلزم ہے اور اس گروہ میں سے بعض نے زوال و جودی تصور کیا ہے اور اثرممکن کے زوال سے انکار کیا ہے اس کو الحاد و زندقہ جانا ہے۔ وَالْحَقُّ مَا حَقَقْتُ بِاَعْلَامِہٖ سُبْحَانَہٗ  حق وہی ہے جو میں نے الله تعالیٰ کے بتلانے سے ثابت کیا ہے۔ 

بڑے تعجب کی بات ہے کہ زوال وجودی کے قائل ہونے کے باوجودزوال عین کے بھی قائل ہوئے ہیں کیونکہ عین وجود کے زوال کا حکم کرنا اثر کے زوال کےحکم کی طرح الحادو زندقہ کومستلزم ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ زوال و جودی عین و اثر میں محال ہے اور شہود ی دونوں میں ممکن بلکہ واقع ہے لیکن محمدی المشرب کے ساتھ مخصوص ہے۔ محمدی جو قلب سے نکل کر مقلب قلب تک پہنچ جاتے ہیں ۔ احوال کے بدلنے سے محفوظ ہیں اور ماسوائے اللہ کی غلامی سے بالکل آزاد ہیں اور دوسروں کو چونکہ وجود آثار دامن گیر ہیں اور تقلب احوال ان کا نقد وقت ہے۔ اس لئے مقام قلب سے خلاص نہیں ہوتے کیونکہ وجود آثار اور تقلب احوال قلب کی حقیقت جامع کی شاخوں میں سے ہیں ۔ پس دوسروں کا شہود ہمیشہ درپردہ ہوگا کیونکہ وجود سالک کا جس قدر بقیہ ثابت ہے اسی قدر مطلوب کا پردہ ہے جب اثر باقی ہے وہی اثر پرده ہے۔ 

معرفت ۔ اگر سالک غیر متعارف سلوک کے راستہ سے اس اسم کے مراتب کے فوق سے جو اس کا رب ہے۔ کسی مرتبہ میں پہنچ جائے اور بغیر اس بات کے کہ اس اسم میں پہنچے۔ اس مرتبہ میں فانی ومستہلک ہوجائے تو اس صورت میں فنا فی اللہ کہنا درست ہے اور اس مرتبہ کے ساتھ بقا کا حاصل ہونا بھی اسی طرح ہے۔ پس فنا فی اللہ کو اس اسم کے ساتھ مخصوص کرنا اس اعتبار سے ہے کہ مراتب فنا فی اللہ میں سے وہ پہلا مرتبہ ہے۔ 

معرفت: سلوک کی کئی قسمیں ہیں ۔ بعض کا سلوک جذبہ پر مقدم ہے۔ بعض کا جذبہ سلوک پر مقدم ہے اور بعض کو منازل سلوک کے قطع کرنے کے اثناء میں جذبہ حاصل ہو جاتا ہے اور بعض کو منازل سلوک کا طے کرنا میسر ہوجاتا ہے لیکن  حد جذ بہ تک نہیں پہنچتے۔ جذبہ کا مقدم ہونامحبوبوں کے لئے ہے اور باقی اقسام اسی طرح محبوں کے سلوک سے تعلق رکھتی ہیں جو مقامات عشرہ مشہود کو ترتیب و تفصیل کے ساتھ طے کرنے سے مراد ہے اورمحبوبوں کے سلوک میں مقامات عشرہ کا خلاصہ حاصل ہو جاتا ہے ۔ ترتیب و تفصیل کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وحدت وجود اور احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا)و معیت ذاتیہ کاعلم جذ بہ مقدم یا متوسط پر وابستہ ہے۔ منتہیوں کے سلوک خالص اور جذ بہ کواس قسم کے علوم سے کچھ مناسبت نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے اور منتہیوں کے حق الیقین کو بھی توحید وجودی (ایک ذات کو موجود جاننا) کے مناسبہ علوم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے اور جہاں کہیں مقام مجذوبوں کے حق الیقین کو توحید وجودی والوں کے مقام کے مناسب بیان کیا ہے۔ وہ مبتدی یا متوسط مجذوبوں کاحق الیقین ہے۔ 

معرفت : بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ جب طالب کا کام جذ بہ تک پہنچ جائے ۔ بعد ازاں اس کا رہبر وہی جذبہ ہے یعنی اس کوکسی اور رہبر کی حاجت نہیں ہے وہی جذبہ کافی ہے اگر اس جذبہ سے سیر فی اللہ کا جذبہ مراد ہے تو بے شک کافی ہے لیکن رہبر اس ارادہ کے منافی ہے کیونکہ سیر فی اللہ کے بعد کوئی مسافت نہیں جسکے قطع کرنے میں رہبر کے محتاج ہوں اور ایسےہی جذ بہ مقدم بھی مرادنہیں ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے۔ پس ناچار جذ بہ متوسط مراد ہوگا اور مطلوب تک پہنچنے میں یہ جذبہ کافی نہیں معلوم ہوتا کیونکہ بہت سے متوسطہ اس جذبہ کے حاصل ہونے کے وقت فوق کی طرف عروج کرنے سے رہ جاتے ہیں اور اسی جذبہ کو جذبہ نہایت سمجھ لیتے ہیں ۔ اگر یہ جذبہ کافی ہوتا تو راہ میں نہ چھوڑتا۔ ہاں جذبہ مقام جومحبوبوں سے تعلق رکھتا ہے اگرکافی ہو سکے تو ہوسکتا ہے محبوبوں کو  محض عنایت سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور راستہ کے درمیان نہیں چھوڑتے لیکن یہ کفایت تمام جذبات مقدم کے حق میں ممنوع ہے۔ وہ جذبہ جس کا انجام کار سلوک تک پہنچے کافی ہے اور اگر سلوک تک نہ آئے تو مجذوب ابتر ہے وہ محبوبوں میں سے نہیں ہے۔ 

خاتمہ

مشائخ قدس سرہم میں سے ایک گروہ نے کہا کہ تجلی ذاتی شعور کو زائل کرنے والی اور جسم کو بے کار کرنے والی ہے اور بعض نے اپنے حال کی نسبت اس طرح بیان کیا ہے کہ اس تجلی ذاتی کے ظہور کے وقت مدت تک بے حس وحرکت پڑے رہے اور لوگوں نے مردہ خیال کیا اور بعض نے تجلی ذاتی میں کلام کرنے سے منع کیا ہے۔ اس سخن کی حقیقت یہ ہے کہ تجلی ذاتی اسماء میں سے ایک اسم کے پردہ میں ہے اور پردہ کا باقی رہنا صاحب تجلی کے وجود کے بقیہ اثر کے باعث ہے اور بے شعوری اس بقیہ کے سبب ہے۔ اگر تمام کا تمام فانی ہو جاتا اور بقا باللہ سے مشرف ہوتا تو وہ تجلی ہرگز اس کو بے شعور نہ کرتی۔ 

يَحْتَرِقُ بِالنَّارِ مَنْ يَحُسُّ بِهَا … فَمَنْ هُوَ النَّارُ ‌كَيْفَ ‌يَحْتَرِقُ

ترجمہ بیت جلاتی آگ ہے اس کو جو ہاتھ اس کو لگاتا ہے جو خود ہو آگ پھر شعلہ اسے کیونکر جلاتا ہے

میں کہتا ہوں کہ وہ تجلی جو پردہ میں ہے تجلی  ذاتی نہیں ہے۔ وہ تجلی صفات میں داخل ہے کیونکہ تجلی ذاتی جو حضرت علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے ۔ وہ تجلی بے پردہ ہے اور پردہ کی علامت بے شعوری ہے اور بے شعوری دوری کا نشان ہے اور بے پردگی کی دلیل شعور ہے اور شعور کمال حضور کا نشان ہے۔ 

ایک بزرگ اس تجلی والے کے حال سے جو اصالت اور استقلال کے ساتھ ہے اس طرح خبر دیتا ہے اور کہتاہے ۔

 موسی زہوش رفت بہ یک پرتو صفات توعین ذات مےنگری درتبسمی 

ترجمہ: بے ہوش گرے کلیم ایک پرتو صفت سے تو عین ذات دیکھی حالت نہ تیری بدلی

یہی تجلی ذاتی جو بے پردہ ہے محبوبوں کے لئے دائمی ہے اور محبوں کے لئےبرقی کیونکہ محبوبوں کے بدن کی روحوں کا سا رنگ حاصل کر لیتے ہیں اور وہ نسبت ان میں کلی طور پر اثرکر جاتی ہے اورمحبوں میں یہ سرایت شاذ و نادر طور پر ہوتی ہے اور یہ جو حدیث نبوی میں لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ  وَقْتٌ واقع ہوا ہے اس وقت سے مراد یہ تجلی برقی نہیں ہے کیونکہ یہ تجلی آنحضرت ﷺکے حق میں جو مرادوں اور محبوبوں کے بادشاہ ہیں دائمی ہے بلکہ اس تجلی دائمی کی ایک قسم کی خصوصیت ہے جو قلت کے طور پر واقع ہے كَمَا لَا يَخْفىٰ عَلىٰ أَرْبَابِهٖ (جیسا کہ اس کے صاحبان پر ظاہر ہے۔

 معرفت: لِي ‌مَعَ ‌اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقْتٌ لَا يَسَعُنِي فِيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ، وَلا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ (میرے لئے الله تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت ہے جس میں کسی ایک مقرب اور نبی مرسل کود خل نہیں ہے)کے بیان میں مشائخ قدس سرہم کے دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ نے وقت سے وقت مستمرہ مراد لیا اور ایک گروہ وقت کے شاذ و نادر ہونے کے قائل ہوئے ہیں اورحق یہ ہے کہ وقت کے استمرار(دائمی) ہونے کے باوجود وقت نادر بھی متحقق ہے جیسا کہ ابھی اس کی طرف اشارہ ہو چکا۔ 

اس فقیر کے نزدیک اس وقت نادر کا متحقق ہونا نماز ادا کرنے کے وقت میں ہے اور بے شک آنحضرت علیہ الصلوة والسلام نے حدیث قُرَّةَ ‌عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ (نماز میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 

نیز آنحضرت ﷺنے فرمایا اَقْرَ بُ مَایَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِي الصَّلٰوۃِ (سب سے زیادہ قرب جو بندوں کو اپنے رب سے ہوتا ہے وہ نماز میں ہے) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ( سجدہ کر اور قرب حاصل کر) پس جس وقت میں اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ تر ہوگا ۔ غیر کی گنجائش اس وقت میں ہرگز نہ ہوگی۔ 

اور یہ جوبعض مشائخ قدس سرہم نے فرمایا ہے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کے وقت حال اور وقت استمرار کی نسبت ایسی خبر دی ہے جو حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ حالي ‌في ‌الصلاة وقبل الدخول فيها سواء (میرا حال نماز میں وہی ہوتا ہے جو نماز سے اول ہوتا ہے)۔ احادیث اور نص مذکورہ مساوات اور استمراری(دائمی)  کی نفی کرتی ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ استمرار وقت کو متحقق ہے لیکن گفتگو اس امر میں ہے کہ باوجود استمرار کے حالت نادرہ بھی واقع ہے یا نہیں وہ لوگ جن کوقوت کے نادر ہونے پر اطلاع نہیں ملی وہ اس کی نفی کے قائل ہیں اور جن لوگوں کو اس مقام سے حصہ حاصل ہے۔ انہوں نے اس کا اقرار کیا ہے اور واقعی وہ لوگ جن کو آنحضرت ﷺکے طفیل نماز میں جمعیت دی گئی ہے اور قرآن کی دولت سے حصہ ان کو عطا کیا گیا ہے ۔ بہت ہی تھوڑے ہیں رَزَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ بکمال کرمه نصیبا من هذالمقام بحرمته النبي محمد وعلى اله الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ الله تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے طفیل اپنے کمال کرم سے ہم کو بھی اس مقام سے حصہ عطا فرمائے۔

 معرفت: ارباب صفات کےمنتہی علوم و معارف میں مجذوبوں کے نزدیک ہیں اور شہود میں بھی دونوں یک رنگ ہیں کیونکہ دونوں ارباب قلوب میں سے ہیں ۔ غرض ارباب صفات تفصیلوں سے مطلع ہوتے ہیں، برخلاف مجذوبوں کے اور نیز ارباب صفات کو فوق کی طرف سلوک و عروج  کرنے کے باعث عروج  ناکردہ مجذوبوں کی نسبت قرب زیادہ حاصل ہوتا ہے لیکن اصل محبت ان کے دامن گیر ہوتی ہے۔ اگر چہ حجاب درمیان ہوتے ہیں ۔ اگر  المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی کے موافق مجذوبوں میں بھی اصل قرب و معیت کا اعتبار کیا جائے تو کیا تعجب ہے۔ پس مجذوب محبت میں ان منتہیوں کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں کیونکہ حب ذاتی اگرچہ حجاب درمیان ہیں مجذوبوں میں بھی متحقق و ثابت ہے۔

 معرفت: اس گروہ میں سے بعض کی عبارت میں واقع ہے کہ اقطاب کے لئے تجلی صفات ہے اور افراد کے لئےتجلی ذات۔ اس سخن میں تامل کی مجال ہے کیونکہ قطب محمدی مشرب ہے اور محمدیوں کوتجلی ذات ہے۔ ہاں اس تجلی میں بھی بہت تفاوت ہے۔ وہ قرب جو افراد کے لئے اقطاب کے لئے نہیں ہے لیکن ہر دو کوتجلی ذات سے حصہ حاصل ہے۔ ہاں اگر قطب سے مراد قطب ابدال ہوجوحضرت اسرافیل علیہ اسلام کے قدم پر ہے نہ کہ حضرت محمدﷺکے قدم پرتو پھر یہ بات درست ہے۔

معرفت: ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔) اللہ تعالی بیچون بیچگون ہے۔ آدم علیہ السلام کی روح کو جو اس کا خلاصہ ہے۔بیچونی اوربیچگونگی کی صورت پر پیدا کیا۔ پس جس طرح حق سبحانه لا مکانی ہے۔ روح بھی لا مکانی ہے اور روح کو بدن کے ساتھ وہی نسبت ہے جو حق تعالیٰ کو عالم کے ساتھ ہے۔ نہ داخل ہے نہ خارج  نہ متصل  ہےنہ  منفصل اور قیومیت(تدبیر و تصرف کی نسبت) سے زیادہ اور کوئی نسبت مفہوم نہیں ہوتی اور بدن کے ذرات میں سے ہر ذرہ کا قیوم روح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ عالم کا قیوم ہے۔ بدن کے لئے حق تعالیٰ کی قیو میت روح کی قیومیت کے سبب سے ہے جوفیض وارد ہوتا ہے، اس فیض کے وارد ہونے کا محل پہلے روح ہے اور پھر روح کے ذریعے وہ فیض بدن کو پہنچتا ہے اور چونکہ روح بیچونی اوربیچگونگی کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے حقیقی بیچون وبیچگون کی اس میں گنجائش ہوگی لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ میں نہ اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں۔ کیونکہ آسمان و زمین با وجود وسعت فراخی کے چونکہ دائرہ امکان(تمام ممکنات) میں داخل ہیں اورچونی اورچگونگی کے نشان سے داغدار ہیں اس لئے لا مکانی کی جو چندی اور چونی سے مقدس و پاک ہے۔ گنجائش نہیں رکھتے کیونکہ لا مکانی مکان میں گنجائش نہیں رکھتا اور بیچون چون میں آرام نہیں لیتا۔ پس نا چارمومن آدمی کے دل میں جو لا مکانی ہے اور چندی اور چونی سے مبراہے گنجائش ثابت ہوگئی۔ 

مومن آدمی کے دل کی تخصیص اس لئے ہے کہ غیر مومن آدمی کا دل لا مکانی کی بلندی سے نیچے اترا ہوا ہوتا ہے اور چندی و چونی میں گرفتار ہو کر اس کاحکم کئے ہوتا ہے۔ پس نزول و گرفتاری کے باعث چونکہ دائرہ امکان میں داخل ہوگیا ہے اور چونی کا حکم حاصل کرلیا ہے اس لئے اس نے اس قابلیت کو ضائع کر دیا ہے أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ یہ لوگ چار پاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ اور مشائخ میں سے جس کسی نے اپنے دل کی وسعت کی نسبت خبر دی ہے۔ اس کی مراد قلب کی لا مکانیت ہے کیونکہ مکان خواہ کتنا ہی وسیع ہو پھر بھی تنگ  ہی ہے۔ 

عرش اپنی فراخی و عظمت کے باوجود چونکہ مکانی ہے اس لئے لا مکانی کے مقابلہ جوروح ہے۔ دانہ رائی کا حکم رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی کم معلوم ہوتا ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ جب یہ قلب انوار قدس کی تجلی کامحل ہے اور قدیم کے ساتھ بقا حاصل ہو کر چکا ہے تو عرش مافیہا کو اگر اس میں ڈال دیں تو محوو متلاشی ہوجائیں اور ان میں سے کچھ باقی نہ رہے جیسا کہ سید الطائفہ(جنید بغدادی) نے اس مقام کے بارے میں فرمایا ہے۔ ان المحدث اذا قورن بالقديم لم يبق له اثرکہ جب حادث قدیم کے ساتھ مل جائے تو ان کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ 

یہ ایسا یکتا لباس ہے جو خاص روح کے قد پرسیا ہوا ہے ۔ ملائکہ کو بھی یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ بھی دائرہ امکان(تمام ممکنات) میں داخل ہیں اور چون کے داغ سے موسوم ہیں اسی واسطے انسان خلیفہ رحمن جل شانہ بن گیا۔ ہاں شے کی صورت اس شے کا خلیفہ ہوتی ہے اور جب تک شے کی صورت پرمخلوق نہ ہو، شے کی خلافت کے لائق نہیں ہوتا ۔ اپنی اصلی امانت کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا۔ لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ہم نے امانت کو آ سمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا۔ واقعی یہ ظالم اور جاہل ہے۔ 

اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس حیثیت سے ہے کہ اس کے وجود اور توابع و جود کا کوئی اثر اور حکم باقی نہیں رہتا اور زیادہ نادان و جاہل اس لئے ہے کہ اس کا اتنا ادراک نہیں ہوتا کہ مقصود کو پا سکے اور نہ ہی اس قدرعلم ہوتا ہے کہ مطلوب کو معلوم کر سکے بلکہ اس مقام میں ادراک سے عاجز ہونا ادراک ہے اور جہالت کا اقرار کرنا معرفت ہے۔ اسی واسطے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا زیادہ عارف ہے وہ سب سے زیادہ حیران و پریشان ہے۔

 تنبیہ: اگر کسی عبارت میں ایسا لفظ واقع ہو جائے جس سے حق تعالیٰ کی شان میں ظرف یا مظروف ہونے کا وہم گزرتا ہوتو اس کو میدان عبارت کی تنگی پرمحمول کرنا چاہیئے اور کلام کی مراد کو اہلسنت و جماعت کی آرا کے موافق سمجھنا چاہیئے۔

 معرفت : عالم کیا صغیر(انسان) اور کیا کبیر(مجموعہ کائنات) حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کے مظہر(ظاہر ہونے کی جگہ) ہیں اور اس کے ذاتی اور شیونات و کمالات کےآئینے ہیں۔ حق تعالیٰ ایک مخفی خزانہ اور پوشیدہ رہبر تھا۔ جب اس نے چاہا کہ پوشیدگی سے ظہور میں آ ئے اور اجمال سے تفصیل میں لائے عالم کو پیدا کیا تا کہ اپنے اصل پر دلالت کرے اور اپنی حقیقت پر علامت ہو۔ پس عالم کو اپنے صانع بیچون کے ساتھ کچھ نسبت نہیں مگر یہ کہ عالم اس کی مخلوق ہے اور حق تعالیٰ کے پوشیدہ کمالات پر دلیل ہے۔ اس حکم کے سوا اور جتنے حکم ہیں یعنی اتحادوعینیت و احاطہ و معیت وغیرہ سکر وقت اور غلبہ حال پرمبنی ہیں۔ مستقيم الاحوال بزرگواروں جنہوں نے صحو کے پیالہ سے پانی پیا ہے، ان علوم سے بیزار ہوتے اور توبہ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض کواثنائے راہ میں ہی علوم حاصل ہوتے ہیں لیکن آخر کارگزر جاتے ہیں اور علوم شریعت کے موافق ان پرعلوم ازلی واردفر ماتے ہیں۔ اس مبحث کی تحقیق کے لئے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں۔ مثلا کوئی عالم فاضل بہت سے فن جانتا ہے۔ اس نے چاہا کہ اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرے اور اپنے خفیہ فنون کو لوگوں کے سامنے جلوہ دے تو اس نے حروف اور آوازوں کو ایجاد کیا تا کہ ان حروف اور اصوات کے پردہ میں ان کمالات اور فنون کو ظاہر کرے ۔ پس اس صورت میں یہ حروف و اصوات اس کے پوشیدہ معانی پر دلالت کرنے والے ہوں گے بلکہ ان حروف و اصوات کو اس موجد عالم کے ساتھ سوائے اس کے اور کوئی نسبت نہیں ہے کہ یہ عالم ان کا موجد ہے اور یہ اس کے کمالات خفیہ پر دلالت کرنے والے ہیں۔ ان حروف و اصوات کو اس عالم موجد عین یا ان معانی کا عین کہنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح احاطہ و معیت کاحکم کرنا اس حادثہ میں غیرواقع اور نامناسب ہے۔ معانی اسی پوشید و صرافت پر ہی ہیں چونکہ معانی اور صاحب معانی اور حروف و اصوات کے درمیان دالیت و مدلولیت کی مناسبت ثابت ہے اس لئے بعض زائده غیرواقع معانی خیال میں آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ عالم اور اس کے وہ معانی مخزونہ ان زائد نسبتوں سے منزہ مبرا ہیں اور یہ حروف و اصوات نرے وہم و خیال ہیں۔ پس عالم جو ماسوائے اللہ سے مراد ہے وجود ظلی اور کون تبعی کے ساتھ خارج میں موجود ہے نہ یہ کہ عالم صرف وہم و خیال ہے۔یہ سوفسطائی کا مذہب ہے جو عالم کو وہم و خیال جانتا ہے اور کہتا ہے کہ عالم میں حقیقت کو ثابت کرنا عالم کو وہم و خیال جانتا ہے اور حقیقت موجود ہے نہ عالم کیونکہ عالم حقیقت کے سوامعروض ہے۔ 

تنبیہ: عالم کے مظہر(ظاہر ہونے کی جگہ) اور آئینہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اسماء و صفات کی صورتوں کا مظہر اور آئینہ ہے نہ کہ بعینہ اسم و صفات کا کیونکہ اسم اپنے مسمی کی طرح کی آئینہ کے احاطہ میں نہیں آ سکتا اور صفت اپنے موصوف کی طرح کی مظہر سے مقید نہیں ہوسکتی ۔ 

در تنگنائے صورت معنی چگو نہ گنجد در کلبہ گدایاں سلطاں چہ کار دارد

ترجمہ: صورت کی تنگ جامیں معنی نہیں سماتے گھر میں گدا کے سلطاں ہرگز نہیں ہیں آتے

معرفت حضرت علیہ الصلوة والسلام کے کامل تابعداروں کو اگر چہ آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کی اتباع کے باعث تجلی ذات سے جو اصلی طور پر حضرت علیہ الصلوة والسلام کا خاصہ ہے۔ کچھ حصہ حاصل ہے اور باقی تمام انبیائے علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام کے لئے تجلیات صفات ہیں اورتجلی ذات تجلی صفات سے اشرف ہے۔ لیکن جاننا چاہیئے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو تجلیات صفات میں قرب کے وہ مراتب حاصل ہیں جو اس امت کے کامل تابعداروں کو حاصل نہیں ہے اگر چہ تبعیت (اتباع کے طور پر)کے طور پرتجلی ذات سے متحقق ہیں ۔ مثلا ایک شخص جمال آفتاب کی محبت سے مدارج عروج   کو طے کر کے آفتاب تک پہنچ جائے اور آفتاب اور اس کے درمیان حائل کے سوا کوئی دقیقہ نہ رہے اور ایک اور شخص ہے جو آفتاب کی ذاتی محبت کے باوجود ان مراتب تک عروج  کرنے میں عاجز ہے۔ اگر چہ آفتاب اور اس کے درمیان کوئی حائل درمیان نہیں ہے تو کچھ شک نہیں کہ یہ شخص آفتاب کے زیادہ نزدیک ہے اور اس کے کمالات دقیقہ  کو زیادہ جاننے والا ہے۔ پس جس میں قرب ومعرفت زیادہ تر ہے، وہی فاضل تر ہے۔ 

پس اس امت کے (جو خیر الامم ہے) اولیاء میں سے کوئی ولی اپنے پیغمبر کے افضل ہونے کے باوجود انبیاء میں کسی نبی کے مرتبہ تک نہیں پہنچتا۔ اگر چہ اس کو اپنے پیغمبر کی متابعت کے باعث اس مقام سے جس کے ساتھ اس کو افضلیت حاصل ہے، کچھ حصہ حاصل ہو کیونکہ کلی فضیلت انبیاء کے لئے ہے اور اولیاء ان کے طفیلی ہیں۔ ولیكن هذا أخر الكلام ہم اسی مضمون پر اپنے کلام کو ختم کرتے ہیں۔ 

وَ الْحَمْدُ لِلہِ سَبْحَانَہُ عَلىٰ ذٰلِكَ وَعَلىٰ جَمِيْعِ نِعَمَائِهٖ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلىٰ اَفْضَلِ اَنْبِيَائِهٖ وَعَلىٰ جَمِيْعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَالْمَلٰئِكَةِ الْمُقَرَّبِيْنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ ‌وَالصَّالِحِينَ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اور تمام نعمتوں پر اس کی حمد ہے اور انبیاء میں سے افضل نبی اور تمام انبیاء اور مرسلین اور ملائکہ مقربین اور صدیقین اور شہداء اور صالحین پر صلوۃ وسلام ہو۔ آمین۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ367 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں