امن کا حصول

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

 اللہ سے زیادہ خوف رکھنے والا زیادہ امن والا ہے:

اے بیٹا! سب سے زیادہ امن والا وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہے، میری زندگانی کی قسم  ! اللہ تجھے مقرب بنا لے گا اورتجھے اپنے سے نزدیک کر لے گا،تجھ سے گفتگو کرے گا، تجھے لقمے کھلائے گا ، اور اپنے اسرار پر آگاہ فرما کر مشاہدہ کرائے گا، اور تیرے لئے دروازوں کو کھول دے گا، تجھے اپنے فضل وقرب کے دستر خوان پر بٹھائے گا تجھ سے انبساط فرمائے گا لیکن تجھ سے خوف کرنے اورغمگین رہنے کے بارے میں دریافت کرے گا۔ اس وقت ایک شخص کچھ سوال کرنے کے لئے کھڑا ہوا مگر آپ نے اس کی بات نہ سنی ،اورفرمایا:یہ غم کا موقع ہے بجلی ایک ساعت چمکتی ہے اس کے بعد بارش ہفتوں ہوتی رہتی ہے، بندہ اللہ کے قریب ہوتا جا تا ہے مگر حکم کے مضبوط کر لینے اور یقین کی کتاب کے ہاتھ میں رکھ دینے کے بعد ، اور اپنے اسرار پر مطلع کر دینے کے بعد، اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، اس پر مطلع کر دینے کے بعد قرب کا حصول ہوا کرتا ہے۔ بنوعقیل میں سے ایک شخص تھا جو کہ قاری اورفقیہ تھا، وہ نصرانی ہو گیا ( یعنی مرتد ہو گیا )اور کافروں کے شہر میں اس حال میں دیکھا گیا کہ اس کی گردن میں صلیب پڑی ہوئی ہے، اس سے پوچھا گیا کہ تیری قرات اور عبادت گزاری کا کیاہوا ۔ اس نے کہا: میں قرآن میں اس ایک آیت کے سوا کچھ نہیں جانتا

وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ ‌هَبَاءً مَنْثُورًا’’اور انہوں نے جو کچھ عمل کئے تھے، ہم نے انہیں بار یک غبار کے بکھرے ہوئےذرے کر دیا جو روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔

 پہلے باطن مرتد ہوا کرتا ہے ، اس کے بعد دل ، دل کے بعد نفس نفس کے بعدا عضاء جب باطن مرتد ہوتا ہے تو اس کا ظہور ضرور ہوتا ہے۔

منافق مسجد میں اس طرح رہتا ہے جیسے پنجرے میں پرندہ، ظاہری شریعت اس کا پنجرہ ہے، اگرعلم ظاہر یعنی شریعت ہمیں کہنے کی اجازت دیتی تو ہم تیرے گناہوں کو ظاہر کر دیتے اور کہہ دیتے اے کا فر! اے فاسق!‘‘ مگر شریعت نے ہمارے ہاتھوں کو باندھ دیا ہے۔

تم شریعت کی خدمت کئے جاؤ اور علم طلب کرتے رہو کیونکہ علم تمہارے لئے سارے حالات کو کھول دے گا، تو پہلے شرعی علم سیکھ لے پھر گوشہ نشین بن جا ،  پھر تو اس کے خاص بندوں میں سے ہو جائے گا، وہ تجھے اپنے علم پر مطلع کر دے گا،  تر انفس جب تجھے اپنے مولی کی طرف پہنچا دے گا تو اس کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو جائے گا، تو بادشاہوں کی طرح داخل ہوگا ، جب تو دروازہ کھلا ہوا پائے گا ، تجھ سے کہا جائے گا: “تواکیلا اندر نہ جا، تیرے اہل کا بھی تجھ پرحق ہے، اپنے سب اہل کو بھی ساتھ لے کر آ ‘‘۔ اے باطن ! تو اپنے دل اور اعضاء اور کلیت کے ساتھ یہاں آ کر جم جا، اس وقت نہ کوئی خرید وفروخت ہے نہ کوئی اجرت ! اے نہ کھانے والے ! تو اب کھا، اے نہ پینے والے! تو اب پی! – جب کنوئیں نے کھدائی اور کدالوں پر پہلے تو صبر کیا، اس سے چشمہ ظاہر ہو گیا اور پھر وہ وارد صادر کا جائے پناہ بن گیا – جب تو مجاہدوں اور آفتوں کی تکلیفوں پر صبر نہ کرے گا تو عارف کس طرح بن سکے گا۔ اے فقیر صبرکر اللہ تعالی جلد ہی تیری طرف نظر فرمائے گا، پھر تجھے بلندی دے گا اور پھر تاج پہنائے گا ، اور عظمت اور جلال اور بادشاہت کا لباس پہنائے گا۔

اللهم عنهم بعدا وإليك قربا اللهم عنهم غنى وإليك فقراحفظ الله بالغنى الہی مخلوق سے دوری اور تیرے قرب کا طلب گار ہوں ، الہٰی! تو مجھے مخلوق سے بے نیازی اور اپنی طرف حاجت مندی عطا فرما!“

 تو ماسوا سے بے نیاز ہوکر اللہ کی یاد کی حفاظت کیا کر۔ جب تیرادل وجود کی تاریکی سے نکلا ،قرب الہٰی کے دروازے پرمتعلق ہو جائے گا، اس وقت علم کی صبح اس پر طلوع کرے گی ، تیرے دل کی آنکھ اسرار کا سرمہ لگائے گی ، اور تجھےتقد یروں کی فہرست پڑھادی جائے گی ، تو اپنے لئے کھانا پینا اس وقت لازم کرنا جو کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد اس کی مخلوق کے بادشاہوں اور نجیبوں اولیاء اللہ کے لئے بنایا گیا ہے۔ توکھاتا اور پیتا ہے  اور کافی دیر تک سوتا رہتا ہے  اور دو آوازوں سے کہتا رہتا ہے میں اولیاء اللہ میں سے ہوں، میں ابدال میں سے ہوں‘‘ ۔

یہ مرتبہ محض تمنا اور آرزو سے  حاصل نہیں ہوتا  اللہ کی مخلوق میں نجباء مراد الہی کی طرف توجہ  کرنے والے ہوتے ہیں تمہیں اس بارے میں کچھ خبر نہیں ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 717،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں