محاسبہ نفس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

صدیقین ہر امر میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں:

اے مخاطب! تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے بارے میں ارشاد باری ہے: ” وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں ۔ (یعنی نافرمانی نہ کرو کہ بعد میں نفس کو ملامت کرنا پڑے ) مؤمن خیال کرتاہے

 میرا یہ بات کرنے کا کیا مقصد ہے، میں نے اپنا قدم کیوں اٹھایا ہے، میں نے لقمہ کیوں کھایا ہے۔

اس تعین کا مقصد یہ ہے کہ نفس سے حساب لیا جائے اور اسے ادب سکھایا جائے کہ اس نے ایسا کیوں کیا، آ یا کہ یہ قر آن وسنت  کے موافق ہے یا اس کے مخالف!

اے لوگو! محاسبہ  کے بعد تم یقین کو لازم  پکڑو کیونکہ  یقین ایمان کی اصل ہے

نہ یقین  کے بغیر فرض ادا کئے جائیں،  نہ یقین کے بغیر دنیا میں زہد کیا جائے ۔ دعا کے قبول ہونے کے وقت سکون و آرام ملتا ہے، اور اگر تیری دعا قبول نہیں کی جاتی تو تو اعتراض کرنے لگتا ہے ، افسوس! صد یقین ہر امر میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، وہ جب اپنی حالتوں کو چھپانا چاہتے ہیں تو لینے اور دینے میں مخلوق کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان کا دل اللہ کے ساتھ ہوتا ہے اور بدن مخلوق کے ساتھ ۔ ابن آدم اس دنیا میں عمل کرنے کا اس وقت تک حاجت مند ہے کہ اس کی طبیعت بدل جائے وہ اپنے نفس وشیطان سے اس وقت جہاد کرتا ہے کہ وہ چوپائیوں کی خصلتوں سے انسانی عادت کی طرف منتقل ہو جائے ، کیا تو اس خالق سے جس نے تجھے پہلے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے آدمی بنایا ، اس کے ساتھ کفر کرے گا ، کیا احسانوں کا بدلہ یہی ہے کہ تو اس کے ساتھ کفر کرے اور اس کا منکر ہو، اور لوگوں کی آنکھوں سے شرمائے ، اور اس سے حیا نہ کرے جبکہ اللہ تجھے دیکھ رہاہے۔

اے ظاہر میں ولایت کا دعوی کرنے والے! کھلم کھلا اللہ کی نافرمانیاں کرنے والے! تو اللہ سے شرم نہیں کرتا، حالانکہ وہ تیرے بھید اور تیرے باطنی حالات کو جانتا ہے، ۔ اوراے فقیری اور محتاجی کے ظاہر کرنے والے! اورا میری کو چھپانے والے! اپنے دین کود نیا کے بدلے بیچنے والے!

کیا تجھے اللہ سے ذرا حیا نہیں ، تیرے پاس جو کچھ بھی نعمت ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے نعمتوں پر تیرا شکر کہاں ہے ۔

 اچھائی اور برائی کا تعلق عقلوں سے نہیں ، شریعت سے ہے:

 اے بیٹا! تو کسی سے اپنے خلاف تہمت نہ دھر، کیا خبر کہ تو خطا پر ہے یا وہ صواب پر، تو کسی غیر کے عمل کو اس وقت تک برا نہ کہہ جب تک کہ اپنے عمل کو اچھا نہ کر لے، اچھائی اور برائی کا تعلق عقلوں سے نہیں شریعت سے ہے، یہ حکم ظاہری حیثیت سے ہے ، رہے باطنی احوال ، تو ان کی بھلائی اور برائی کو باطن کے حوالے کر دینا محض احتیاط ہے، قلب کے فتوے کوفقیہ کے فتوے پر حاکم بنایا جا تا ہے، کیونکہ فقیہ ایک طرح سے اپنے اجتہاد سے فتوی دیتا ہے، جبکہ قلب کا فتوی اللہ کی مرضی اور اس کی موافقت میں علم کی پختگی کے ساتھ ہوتا ہے، یہ حکم پرعلم کا فتوی ہے، تم پہلےحکم کا بندہ بنو، پھرحکم کی اس بندگی کو لئے ہوئے علم کا بندہ بنو، یعنی اس کے مواقف بن جاؤ ، اس کے سامنے سر جھکائے رہو علم کی ہمراہی میں حکم کی صحبت میں داخل ہو جاؤ، ہر وہ حقیقت جس کی کہ شریعت گواہی نہ دے ، وہ بے دینی اور زندیقیت ہے، جب تو اہل حق کے پاس حاضر ہو گا تو جہاں وہ ٹھہریں گئے تو بھی و ہیں ٹھہرے گا ، جو وہ کھائیں گے وہی تو کھائے گا ۔جلوت اور خلوت میں اللہ کا شکر ادا کیا کر ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 713،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں