دنیا اور آخرت کی زندگی

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

اے جاہل! مرتبہ ورسالت اور نبوت تو تجھ سے پہلے ختم ہو گیا لیکن ولایت اور غوثیت اور بدلیت ختم نہیں ہوئی ، اس کے لئے کوشش کر ، کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے، دنیا کی زندگی تیرانفس ، تیری طبیعت اور تیری خواہش ہے ۔ یہی تو دنیا ہے، وہ خواہشیں نہیں جو کہ زائل ہو جائیں، یہ تو تیرے نفسانی مقسوم کا حصہ ہیں،  دنیا وہ ہے جسے تو اپنی ہمت اور محنت سے حاصل کرے ۔ اور جو چیز بادشاہ سر پہ ڈال دے وہ دنیانہیں ، جو چیزیں ضروری ہیں وہ دنیا نہیں کہلاتی ، رہنے کا گھر اورستر کالباس، دنیانہیں، پیٹ کے لئے روٹی اور سکون حاصل کرنے کے لئے بیوی ، دنیانہیں، دنیاوی زندگی مخلوق کی طرف متوجہ ہونا اور اللہ سے پیٹھ پھیرنا ہے، ہویٰ فکر کی ضد ہے (یعنی مخالف)، ہویٰ عبادت کی ضد ہے، سبب سبب پیدا کرنے والے کی ضد ہے،  ظاہر باطن کی ضد ہے، جب تو ظاہر کومضبوط اور مستحکم کر لے گا، تجھے باطن کے استحکام کا حکم ملے گا ، جب تو حکم شرعی پرعمل کر کے اسے مضبوط کرلے گا تو تو اس کا غلام اور تابع اور اس کا مصاحب بن جائے گا، تیرا جسم تیری طبیعت سے فنا ہو جائے گا تو علم تجھے دیکھے گا ، چنانچہ وہ تیرا عاشق بن جائے گا، اس وقت تو ایسا ہو جائے گا جیسے دو بیویوں کے درمیان ایک خاوند، بادشاہ اور وزیر کے درمیان در بان، تو دنیا و آخرت، خلق و خالق اور فرشتوں کا محبوب اور دلوں کے لئے فرحت بن جائے گا، ہماری ایک ایسی حالت جو کہ ہمیں تمہارے پاس سے غائب کر دیا کرتی ہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام نے اپنے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ السلام سے ، ان دونوں پر اور سب نبیوں اور رسولوں اور مقرب فرشتوں اور اولیاء اور صالحین پر سلام ارشادفرمایا تھا ۔

اے بیٹےمسکینی اور محتاجی کے بعد خطا کار ہونا کتناقبیح اور بری بات ہے، اور اس سے زیادہ برا وہ شخص ہے جو عبادت گزار ہوتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کو چھوڑ دے، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر راضی ہو،  تیرا وجود دنیا کی زندگی ہے، اور تیرافنا ہو جانا آخرت ہے۔ ہمتوں کے لئے ایک تفسیر ہے، اسرار کے لئے ایک تفسیر ہے،عوام کے لئے ایک تفسیر ہے، خواص کے لئے ایک تفسیر ہے،

د نیا وہ ہے جو تیرے سامنے ہے، آخرت کا حال تجھ پر کھلا نہیں ہے، تجھے وہ چیزیں عطا ہوں گی جو تیری عقل سے بالاتر ہیں ، بس تو حیران رہ جائے گا اور تجھے پتہ چل جائے گا، جو کچھ تجھے عقل مشترک کے ذریعے حاصل ہو، وہ دنیا میں سے ہے، اور جو تجھے عقل العقول کے ذریعے حاصل ہو، وہ آخرت میں سے ہے،  تیرا باطن آ خرت ہے اور تیرا ظاہر دنیا، ماسوی اللہ تعالی سب حالات دنیا ہیں ، اور مولی کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ، اور قیل وقال اور تعریف اور برائی کرنے سے منہ پھیر لینا اورغم کی معیت میں سیر کرنا آخرت ہے ۔

تیرا مقصد وہ ہے جو تجھے غمگین رکھے، جب تو اپنے ارادے میں سچا ہو جائے گا تو اللہ تعالی تیری دستگیری فرمائے گا اور تجھے اپنی تقدیر کی صحبت میں چلائے گا ، تیرے ارادے کی سچائی ، اور تیرے حسن ادب کی وجہ اور تیرے ہمسائیوں کی بدکلامی پر کان نہ دھرنے کی وجہ سے تیرے دونوں  قدموں  کا درمیانی فاصلہ، سیدنا آدم علیہ السلام کے قدموں کے فاصلے سے بھی بہت کا وسیع ہو جائے گا ـ

اے وہ جاہل جو کہ اللہ تعالی اور اس کے پاس جو  اللہ تعالیٰ  فضل ہے ، اور اس کے جو بندے اس کے حکموں کوسن کر تابعداری کرتے رہے اور اب اس کی حضوری میں ہیں ان سے جاہل رہا، اس کے لئے ہلاکت ہے،  ولی آ دمی لوح محفوظ میں اپنے حصے لکھے ہوئے دیکھتا ہے، پھر اپنے اہل وعیال کے حصے دیکھنے کے لئے بڑھتا ہے، حتی کہ وہ تعجب کرنے لگتا ہے تو اس کے باطن میں ندادی جاتی ہے:

“نہیں ہے یہ مگر وہ بندہ جس پر ہم نے انعام کیا ہے، بے شک وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ اورمنتخب بندوں میں سے ہے۔

یہ مرتبہ تقدیر سے حاصل ہوتا ہے پھر مشائخ کرام کے قدموں کی پیروی سے صفائی حاصل ہوتی ہے ۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 702،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں