محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اللہ کے احسان کے دروازے میں داخل ہونے کے لئے اے بیٹا! تو خلقت کے احسان کا دروازہ بند کر دے، تیرے لئے اللہ کے احسان کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ یہ فرما کر سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے ،اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کچھ دیر دائیں بائیں جھومتے رہے، پھر بیٹھ گئے اور ارشادفرمایا:
’’اے اندھے!۔۔۔ اس کھلے ہوئے دروازے میں داخل ہوجا، دروازے دوہی تو ہیں: ایک بند اور دوسرا کھلا ہوا، تو اس کھلے ہوئے دروازے میں داخل ہو جا؟‘‘
اے سبب والو! رسول اللہ ﷺکی شریعت کو زندہ رکھنے کے لئے سب کا ساتھ دو، پھر سبب پیدا کرنے والے کی طرف بڑھو ۔ رسول اکرم ﷺکے حال میں ان کی اتباع کرتے ہوئے کمائی کرنا سنت ہے، اور توکل کرنا آپ ﷺکی حالت، اگر تجھے اپنی خودی کے فنا ہو جانے پر قدرت حاصل ہو تو سبب اور حالت کی معیت کے بغیر ، اپنے آپ کو اللہ کے سپردکر ڈالو، وہ تیری کفایت کرے گا، تجھے بلندی عطا کرے گا، اور پھر اپنا مقرب بنالے گا، اور وہ کچھ عطافرمائے گا جن کی تمہیں جان پہچان بھی نہیں، ارشاد باری تعالی ہے: وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ » اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ تو اپنے آپ کو اس کی تقدیر کی موجوں کے حوالے کر دے، تو جہاں کہیں بھی گرے گا اللہ کے فضل کے دانے کو چگ لے گا، تو جہاں کہیں متوجہ ہوگا ، وہیں اللہ کی ذات کے پالے گا، اس کا انس اور قرب اور شفقت ورحمت دیکھنے کوملیں گے، جسے تو نگری مل جائے ، اس کی مثال اس اندھے شخص کی طرح ہے جسے طباق پر رکھا ہونا کھانا ہر سمت سے آئے لیکن اسے معلوم نہیں کہ کدھر سے آئے ہیں ،اور جب اسے اصل جہت کا پتہ چل جائے تو وہ سب جہتیں چھوڑ کر اسی ایک جہت کا طالب بن جائے ، اسی طرح بندہ طالب کو جب یہ معلوم ہو جائے کہ یقینا اللہ ہی آسانی پیدا کر نے والا ہے اور ان چیزوں کو اس کی طرف وہی متوجہ کرنے والا ہے، تو اس کا دل اللہ کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے۔
نفس کو معشوق نہیں ، دشمن اور قاتل سمجھ :
تیرانفس تیرا معشوق ہے، اگر تو اسے اپنا دشمن اور قاتل ہونا جان لیتا تو یقینا تو اس کی مخالفت کرتا ،اسے پیٹ بھر کر کھانا پینا نہ دیتا، ضروریات کے سوا اس کا جو حق ہے اور کچھ نہ دیتا – تیرے لئے گوشہ نشینی سزاوار نہیں بلکہ تیرے لئے بازار سزاوار ہیں ، اسرارالہٰی پرمطلع ہونا تیرے لئے سزاوار نہیں ، جو اللہ کے اسرار سے آگاہ ہو جا تا ہے وہ بے زبان بن جا تا ہے ، جو کوئی اس کے بھید کا مالک نہ ہو، جواسے چھپانہ سکے وہ مخلوق سے کنارا کر لے اور اپنا ٹھکانہ غاروں اور دریاؤں کے کناروں اور جنگلوں اور چٹیل میدانوں میں بنالے، جو حکم اور علم کو جمع کرنے کی قدرت نہ ر کھے ،اسے مخلوق سے علیحدہ ہو جانا چاہیئے اور وہ کنارا کر لے، گرانی اور قحط بادشاہ کا ادب کھانے کے لئے ایک کوڑا ہے – یہ ارشاد آپ نے شدت اور قحط کے زمانے میں فرمایا تھا۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 639،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور