نصیب بخشنےوالا

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

تو مارا مارا پھرتا ہے جبکہ نصیب تو اللہ کے پاس ہے

 تجھ پر افسوس ہے کہ تو مارا مارا پھرتا ہے جبکہ لکھا ہوا نصیب تو اللہ کے پاس ہے، اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ ایک شخص خراسان میں رہتا ہو، عراق میں اس کا کوئی مالدار رشتے دارفوت ہو گیا، جس کا اس خراسانی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ۔ تو کیا مرنے والے کا مال اس خراسانی کو نہ مل جائے گا۔ حالانکہ خراسانی کو اس کی خبر بھی نہیں ہے، ضرورمل کے رہے گا، اسی طرح سے تیرا نصیب تجھے مل کے رہے گا۔

تم تو عوام میں شامل ہو تم سے ( معرفت کے اسرار کے بجائے)صرف کھانے پینے اور پہننے کے بارے میں بات کرنا صحیح ہے۔ ہم پر امرالہٰی غالب ہے، اس لئے ہم اس کے مخالف تم سے گفتگو کرتے ہیں، قلب نفس کا کھانا قے  کے ذریعے نکال دیتا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ تیرے دل میں جب کسی کے لئے محبت اور کسی کے لئے عداوت پیدا ہو جاتی ہے تو تو کیا عمل کرتا ہے، اپنی طبیعت سے محبت کرتا ہے اور اسی طبیعت سے عداوت رکھتا ہے ۔

تمہاری کوئی عزت نہیں تو سارے معاملوں کو قرآن وسنت پر پر کھ لیا کر، اگر وہ سب ان کے موافق ہوں تو بہتر ہے ورنہ تو ان سے رجوع کر لیا کر، اور قرآن وسنت اگر تجھے اس کی صحت کا فتوی دے دیا کریں تو اپنے دل سے رجوع کیا کر، دل جب قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنے لگے تو وہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے، اور جب اسے قرب الہٰی حاصل ہو جائے تو وہ عالم بن جاتا ہے ۔ جب وہ عالم ہو جا تا ہے تو اپنا نفع و نقصان، حق وباطل ،شیطانی امر اور رحمانی حکم کو جاننے پہچاننے لگتا ہے،  ہر ایک میں فرق کرنے لگتا ہے، اسے اپنا قرب اللہ سے اور اللہ کا قرب اپنے سے معلوم ہونے لگتا ہے، وہ ہمیشہ رحمن کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگتا ہے، بادشاہ کا نمائندہ بن کرخریداری کرنے لگتا ہے اور مخلوق میں بانٹنے  لگتاہے

جب تو یہاں مجلس میں داخل ہوا کرے تو اپنے علم اور زہد وتقوی اور سارے معاملات کو چھوڑ کر ( خالی دامن ہوکر ) اس مجلس میں آیا کر، اور اگر تو یہ سب چیزیں لئے ہوئے میرے پاس آئے گا تو اکثر اوقات یہ چیز یں تجھے مجھ سے اوجھل رکھیں گی، لہذا ان سب چیزوں کو ایک طرف رکھ کر میرے پاس چلا آ ، اور جو کچھ یہاں دستیاب ہے اس سے اپنا حصہ حاصل کر لے ، اور وہ تیری پہلے والی چیزیں بھی تجھے حاصل رہیں گی ۔ آپ فرماتے ہیں: میں ایک بزرگ سے ملنے کے لئے حاضر خدمت ہوا، جو کہ دل کے خطروں کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے ، مجھے دیکھ کر فرمایا

” کیا تو حال کو دوست رکھتا ہے جس میں کہ میں ہوں ‘‘۔ میں نے جواب دیا: ’ہاں! اس حال کو دوست رکھتا ہوں‘‘۔ وہ فرمانے لگے:’’ میں ہمیشہ روزے سے رہتا ہوں اور ہر روز سحر کے وقت افطاری کرتا ہوں، اس شہر کا کھانا پاک نہیں ،لہذا میں اس سے پر ہیز کرتا ہوں‘‘۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 630،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں