محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ساٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الستون فی ترک الانسان ما لا یعنیہ‘‘ ہے۔
منعقد 13 رجب 454 بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
بے فائدہ چیز کا چھوڑ دینا بھی اسلام کی ایک خوبی ہے:
رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
بے فائدہ چیز کا چھوڑ دینا بھی اسلام کی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ جس کا اسلام ٍصحیح اور ثابت ہو جاۓ وہ فائدے کی چیزوں پر راغب ہو جا تا ہے اور بے فائدہ چیزوں سے منہ موڑ لیتا ہے، بے فائدہ کاموں میں لگنا بیکار اور حریصوں کا کام ہے، وہ اپنے رب کی رضا سے محروم ہے جو اس کے حکم پر عمل نہ کرے اور وہ کام کرے جس سے اسے منع کیا گیا ہے ۔ یہی اصل محرومی، اصلی موت اور ہر طرح کا نقصان ہے۔ دنیا میں تیرے مشغول ہونے کے لئے نیک نیتی کی ضرورت ہے، ورنہ تو اللہ کے غضب کا شکار ہو جائے گا۔ پہلے دل کی پاکیزگی میں مشغول ہو کیونکہ یہ فرض ہے، پھر معرفت کی طرف قدم بڑھاتا ہے، جب اصل کو ضائع کر دیا تو فرع کا شغل قابل قبول نہیں، قلب کی نجاست کے ساتھ اعضاء کی طہارت کا کچھ فائدہ نہیں، اعضاء کوسنت پر اور دل کو قرآن پرعمل کر کے پاک کر، اپنے دل کی حفاظت کرتا کہ اعضاء کی حفاظت رہے ، جو کچھ برتن میں ہے وہی ٹپکے گا، جو چیز دل میں ہوگی وہی اعضاء پرگرے گی ۔
عقل کر اور ہوشیار بن ،یہ عمل اس کا نہیں، جوموت پر ایمان لاتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے، جو اللہ سے ملاقات کا منتظر ہو اور اس کے حساب اور اعتراض سے ڈرتا ہے ۔ قلب صحیح توحید اور توکل اور یقین وتوفیق ، اور علم اور ایمان اور قرب الہی سے پر ہے، یہ ساری مخلوق کو عاجزی اور ذلت اور محتاجی کی آنکھ سے دیکھا کرتا ہے، اس کے باوجود ان میں سے ایک ننھے بچے پر بھی تکبر نہیں کرتا ، کافروں اور منافقوں اور گناہ گاروں سے اللہ کے لئے غیرت کر کے خونخوار درندے کی طرح ملتا ہے، یہ اس کے سامنے گوشت کے پڑے ہوۓ ٹکڑوں کی طرح ہو جاتے ہیں اور نیک اور پرہیز گارلوگوں کے سامنے یہ عاجزی اور انکساری کرتا ہے اورخودکو ذلیل بنالیتا ہے، جس قوم کی یہ صفتیں ہیں ،اللہ تعالی نے ان کی تعریف میں فرمایا: أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ” کافروں پر نہایت سخت اور آ پس میں نہایت مہربان ہیں۔
اے نئی راہیں نکالنے والے ، تجھ پر افسوس تو اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ کہے انی آنا الله الا الله ربنا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔یہ شان تو اللہ ہی کی ہے، ہمارارب کلام کرنے والا ہے گونگا نہیں ، اسی لئے اس نے اپنے کلام میں حضرت موسی علیہ السلام کوتا کید فرمائی : وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا اور اللہ نے موسی سے اچھی طرح کلام کیا۔ اللہ کے لئے کلام ہے جوسنا اور سجھا جاسکتا ہے۔ موسی علیہ السلام سے فرمایا: يَامُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ اے موسی ! بے شک میں ہی اللہ جہانوں کا پروردگار ہوں ۔ یعنی آنا اللہ فرما کر ثابت کر دیا کہ بے شک میں جہانوں کا پروردگار ہوں ، کوئی فرشتہ اور جن اور انسان نہیں ہوں ، ۔ ہوں ۔ فرعون اپنے قول: أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (میں تمہارا بڑارب ہوں) میں اور اپنے خدا ہونے کے دعوے میں جھوٹا ہے، مخلوق میں سے فرعون یا کوئی اور معبود نہیں ، خداوہ معبود برحق ہوں، موسی علیہ السلام اپنی بیوی کے کرب میں مبتلا ہونے یعنی درد زہ اور رات کی تاریکی سے پریشان ہوئے ، اس مصیبت اور پریشانی میں ان کا ایمان وایقان ظاہر ہوا ۔ اللہ تعالی نے ان کے لئے نورظاہرکردیا، حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور قوت واسباب سے ارشادفرمایا: تم یہاں ٹھہرو! ۔ یقینا میں نے آگ روشن دیکھی ہے۔ یقینامیں نے ایک نور دیکھا ہے، میرے دل اور باطن اور حقیقت اور مغز نے ایک نور دیکھا ہے، سابقہ علم از لی اور ہدایت میرے پاس آۓ ، خلقت سے مجھے لا پرواہی ہوگئی ۔ میرے پاس ولایت اور خلافت آئی، میرے پاس اصل آیا اور فرع گئی۔ میں اب رعا یا نہیں بادشاہ ہوں ، مجھ سے فرعون کا خوف جا تارہا اور وہ خوف فرعون پر پڑ گیا ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت موسی علیہ السلام اپنے گھر والوں کو اللہ کے سپردکر کے چل پڑے، چنانچہ آپ کے بعد آپ کے کنبہ میں اللہ ہی محافظ بنا۔
اسی طرح ایمان والے کواللہ تعالی جب اپنا مقرب بنا لیتا ہے، اور اسے اپنے قریب کے دروازے کی طرف بلاۓ تو وہ ایمان والا اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے نگاہ ڈالتا ہے تو اسے سب سمتیں بند دکھائی دیتی ہیں صرف ایک اللہ کی سمت کھلی ہے۔ اس وقت وہ اپنے نفس اور خواہش اور اعضاء و عادت اور اہل وعیال اور جن چیزوں سے اس کا تعلق تھا، سے مخاطب ہوتا ہے ۔
مجھے اللہ کا نور نظر آ گیا ہے، میں اسی کی طرف جارہاہوں، اگر واپسی کے لئے اجازت ملی تو تمہاری طرف لوٹ کر آؤں گا۔ وہ دنیا و مافیہا اور تمام اسباب و شہوات اور ساری مخلوق کو رخصت کر دیتا ہے، پر ایک نئی پیدا ہونے والی اور مصنوعی چیز سے الگ ہو کر صانع کی طرف راستہ لے لیتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی اس کے اہل وعیال اور اسباب کی نگہبانی فرماتا ہے، اور ان کا والی ہو جا تا ہے ، بعض حال
دور والوں سے چھپاۓ جاتے ہیں قریب والوں سے نہیں ، دشمنوں سے چھپاۓ جاتے ہیں، دوستوں سے نہیں ،-اکثر سے چھپاۓ جاتے ہیں بعض سے نہیں، یہ قلب جب صحیح اورصفا ہو جائے تو دائیں بائیں آگے پیچھے اور اوپر نیچے سےاللہ کی دعوت کو سنتا ہے اور ہر ایک نبی اور رسول اور صدیق اور ولی کی آواز کو سنتا ہے ، لیکن حال میں یہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے، اللہ کا قرب اس کی زندگی ہے، اللہ سے دوری اس کی موت ہے، اس کی رضا اللہ سے مناجات کرنے میں ہوتی ہے، وہ ہر چیز سے اس پر اکتفا کر لیتا ہے ۔
اسے دنیا کے جانے کی پروا نہیں ،اسے بھوک وپیاس اوربرہنگی کی پرواہ نہیں ، اسے اپنی ہتک عزت کی پرواہ نہیں ۔ سالک مرید کی رضا طاعات میں اور مراد بن جانے والے عارف کی رضا قرب الہی میں ہے۔
اے بناوٹی زاہد! یہ کمال تیرے موجودہ حال سے حاصل نہیں ہوسکتا، نہ دن کے روزے سے نہ رات کے قیام کرنے سے ، نہ بے مزہ کھانا کھانے سے، نہ بے موسمے اور بے ڈھنگے کپڑے پہننے سے نفس اور حرص اور عادت اور جہالت اور مخلوق کی طرف دیکھنے کے باوجود کمال کو نہیں پہنچتا ہے۔ ان باتوں سے تجھے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ تجھ پر افسوس ! اخلاص پیدا کر اور منفرد ہو جا، سچ کے ساتھ اصل اور قرب سے ہم کنار ہو ۔ ہمت بلند کر، بلند ہوگا ، احکام الہی کو مان ، سلامتی ملے گی۔ قضاوقدر سے موافق ہو، توفیق دی جائے گی ، راضی برضا ہو،رضا پاؤ گے، ابتدا کر، انتہا پر وہ پہنچادے گا۔ اللهم تول أمورنا في الدنيا والأخرة لا تكلنا إلى نفوسنا ولا إلى أحد من خلقك۔“یا اللہ! دنیا وآخرت میں ہمارے کاموں کا تو والی بن جا، اور ہمیں ہمارے نفسوں اور مخلوق میں سے کسی کے حوالے نہ کر۔
دعوی محبت کی آزمائش محبوب کی منشاء پر موقوف ہے: رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: “اللہ تعالی جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے: اے جبرائیل! فلاں بندے کو سلا دے، فلاں بندے کو جگادے۔
اس ارشاد مبارک کا مطلب ومفہوم دو طرح سے ہے پہلا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ فلاں کو اٹھاؤ یعنی محب کو اور فلاں کو سلاؤ یعنی محبوب کو اس نے میری محبت کا دعوی کیا۔ اس لئے لازم ہے کہ میں اس کی آزمائش کروں، اسے اس کی جگہ پر تب تک کھڑ ارکھوں کہ اس کے وجود کے پتے میرے غیر کے ساتھ گر جائیں ، اسے اٹھا کر کھڑا رکھ تا کہ اس کے دعوے کی دلیل قائم ہو جائے اور اس کی سچی محبت ثابت ہوجائے، اوراے جبرائیل! فلاں کو سلا دے کیونکہ وہ محبوب ہے، اس نے عرصہ دراز تک مشقت اٹھائی ہے، اس کے پاس میرے سوا کچھ نہیں رہا، اس کی محبت میرے لئے ثابت ہوئی ، اس کا دعوئی اور دلیل ثابت ہوۓ ، اس نے اپنے عہد کی پاس داری کی ، اب میری باری ہے اور میرا عہد پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے، وہ میرا مہمان ہے،مہمان سے خدمت اور مشقت نہ لی جائے ،اسے میرے لطف کی گود میں سلادے ،میرے فضل کے دستر خوان پر بٹھادے ،اسے میرے قرب سے مانوس کر دے۔ اسے میرے غیر سے غائب کر دے، اس کی محبت صحیح ہو چکی ہے۔ جب محبت صحیح ہوئی تو تکلیف جاتی رہی۔ دوسرا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ اے جبرائیل ! – فلاں کو سلادے کیوں کہ اس کی آواز مجھے سخت نا پسند ہے، فلاں کو جگادے کیونکہ اس کی آواز مجھے بہت پسند ہے۔ قلب جب ماسوئی اللہ سے پاک ہو جائے تو محب سے محبوب بن جا تا ہے ۔ جب اس کی توحید اور اس کا توکل اور ایمان اور یقین اور معرفت کامل ہو جائیں تو محبوب بن جاتا ہے، سختی جاتی ہے اور راحت آتی ہے، جب کوئی بندہ کسی بادشاہ سے محبت رکھتا ہے، اور دونوں میں دور کی مسافت ہوتو اس پر محبت غالب آ جاتی ہے، اسے حیرت میں ڈال کر بادشاہ کے شہر کی طرف متوجہ کردیتی ہے، یہ سفر میں رات اور دن کو ایک کر ڈالتا ہے، طرح طرح کی مشقتیں اور خوف برداشت کرتا ہے، اسے کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا، حتی کہ وہ اس بادشاہ کے دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ بادشاہ کو بھی اس کے حال کا پتہ چلتا ہے، بادشاہ کے خادم اس کا استقبال کرتے ہیں اور مرحبا کہتے ہوۓ حمام میں لے جاتے ہیں ، اچھی طرح سےغسل دے کر اچھا سالباس پہناتے ہیں ، اور خوشبو لگا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں، اس سے بات چیت کرتا ہے اس کا حال احوال پوچھتا ہے، اپنی بہترین باندیوں میں سے سب سے حسین سے اس کا نکاح کر دیتا ہے، اور اپنے ملک ہی میں جا گیر بھی عطا فرماتا ہے، بادشاہ کی کرم فرمائیاں اسے اس سے مانوس کر دیتی ہیں، بادشاہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے ، اس کے بعد کیا اسے کوئی خوف یاغم باقی رہے گا ، یا وہ اپنے شہر کو واپس آنے کو پسند کرے گا، بادشاہ سے کیونکر جدا ہونا چاہے گا، جبکہ وہ بادشاہ کا مقرب اور مرتبہ و مقام والا اور اعتماد والا بن چکا ہے۔ اسی طرح یہ دل جب صحیح ہو جائے تو اللہ کے حضور میں پہنچ جاتا ہے، اس کے قرب اور اس سے مناجات سے صاحب مقام اور امن والا ہو جا تا ہے ۔ اس کے غیر سے رجوع کی تمنا جاتی رہتی ہے ۔ یہ مقام پانے کے لئے دل کوفرائض ادا کرنے اور حرام اور شہوت وں سے صبر کرنے اور مباح اور حلال کھانا ہوتا ہے، نہ کہ حرص اور شہوت اور وجود سے ، ۔ اور ایسا کامل تقوے اور پورے زہد سے ہوتا ہے ، اور یہ کہ ماسوئی اللہ کو ترک کر دے، نفس اور حرص اور شیطان کی مخالفت کرے،دل کو ساری خلقت سے پاک کرے – تعریف اور برائی عطا اور منع ، جواہرات اور پتھر اس کے لئے برابر ہوں ، اس زہد و تقوی کا آغاز اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے سے ہوتا ہے، اور اس کی انتہا گراں قدر پتھر اور عام ڈھیلوں برابر ہونا ہے، جس کا دل صحیح ہو جاۓ اور جو اللہ سے واصل ہو جائے اس کے لئے پتھر اور ڈھیلے،تعریف و برائی ، بیماری اور عافیت، امیری دغربت ، دنیا کا خیال کرنا اور اس سے منہ موڑ ناسب برابر ہو جاتے ہیں ۔ جس کا حال صحیح ہو جاۓ: اس کانفس اور خواہش مر جاتے ہیں۔ اس کی طبیعت کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس کا شیطان ذلیل ہو جا تا ہے۔ اس کے دل میں دنیا اور دنیا والے سب حقیر ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ دنیا و آخرت سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اس کے دل کے لئے خلقت کے درمیان راستہ بن جاتا ہے، اور وہ اس پر سے گزرتے ہوئے اللہ تک پہنچ جاتا ہے ۔ لوگ ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور ایک طرف ہو کر راستہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اس کی سچائی کی آگ اور باطن کی ہیبت سے خوف کھاتے ہیں ، جس کا ایسا حال ہو جاۓ : کوئی لوٹانے والا اسے اللہ کے دروازے سے لوٹا نہیں سکتا۔ کوئی روکنے والا اسے روک نہیں سکتا ، اس کا جھنڈا پلٹا نہیں جاسکتا۔اس کے لشکر کو شکست نہیں ہوتی ، اس کی طلب کو سکون نہیں ہوتا ، اس کی توحید کی تلوار کند نہیں ہوتی ، اس کے اخلاص کے قدم نہیں تھکتے ، اس کا کوئی امراس پر دشوار نہیں ہوتا ، اس کے سامنے کوئی دروازہ اورقفل ثابت نہیں رہتا ، دروازے اور قفل سب اڑ جاتے ہیں، سب ہمتیں فراخ ہو جاتی ہیں، اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرتی حتی کہ وہ اپنے رب کے پاس جاٹھہرتا ہے، لطف الہی اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی گود میں سلالیتا ہے، اپنے خوان فضل سے اسے کھلاتا ہے اور شراب انس سے اسے سیراب کرتا ۔
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍجو آنکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور کبھی انسان کے دل پر اس کا خطرہ گزرا۔‘‘
اس بندے کا مخلوق کی طرف رجوع ان کی ہدایت کا باعث ہے، وہ ان کی بادشاہت اور نعمت کا سبب بن جا تا ہے ۔ بندہ اللہ کے حضور پہنچ کر اسے اور اس کے ماسوا کو دیکھ چکا ہے۔ بادشاہی میں خلقت کی ہدایت میں لگ جاتا ہے ۔ وہ مخلوق کے لئے اللہ کے دروازے کی طرف رہنمائی کرنے والا ایک واسطہ اورنہایت باخبر سفیر بن جاتا ہے ، اس وقت عالم ملکوت میں اسے عظیم‘‘ کے نام سے پکارا جا تا ہے ، ساری خلقت اس کے دل کے قدموں تلے ہو جاتی ہے، اور اس کے سایہ
سے سایہ حاصل کرتی ہے ۔
اسے نالائق واعظ اتو بکواس نہ کر ، تو ایسی چیز کا دعوے دار ہے جو تجھے حاصل نہیں ، اور نہ ہی وہ تیرے پاس ہے، تجھ پر تیر انفس غالب ہے مخلوق اور دنیا تیرے دل میں ہیں، تیرے دل میں اللہ سے زیادہ ان کے لئے جگہ ہے، تو اولیاء اللہ کی حد اور شمار سے خارج ہے ۔ جس بات کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں، اگر تو اسے حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنے دل کو ان سب چیزوں سے پاک کرنے میں لگ جاء اوامرکی تعمیل کر مناہی سے منع رہ ، اور قضا وقدر پر صبر سے کام لے، اورد نیا کودل سے نکال دے ۔ اس کے بعد میرے پاس آ تا کہ میں تیرے سے گفتگو کروں، اور اس کے بعد کی خبر دوں ۔ اگر ایسا کرے گا تو اپنا مقصودومراد حاصل کر سکے گا، اس سے پہلے تیرابات کر نا سراسر بکواس ہے، تجھ پرافسوس! اگر تجھے ایک لقمہ نہ ملے، یا تجھ سے ایک دانہ ضائع ہو جاۓ ، یا تیری ہتک عزت ہوتو ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے اور اللہ پر اعتراض کرنے لگتا ہے، ۔ تیرا غصہ بیوی بچوں کو پیٹنے میں نکلتا ہے، اور اپنے دین اور نبی کو گالیاں دینے لگتا ہے، اگر تو عقل مند اور ہوشیار ہوتا اور صاحب مراقبہ ہوتا تو اللہ کے سامنے گونگا بن جا تا ، اس کے سب فعلوں کو اپنے حق میں
نعمت اور رحمت سمجھتا، قضاوقدر کی موافقت کرتا ، اور جھگڑانہ کرتا ، ناشکری نہ کرتا ، راضی بہ رضا ہوتا ۔غصہ نہ کرتا ، خاموش رہتا ۔دل میں شک نہ لاتا ،تو تیرے لئے کہا جا تا أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ -کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ۔
اے جلد باز ! صبر کر، تجھے خوشگوار نعمت ملے گی ،تو نے اللہ کو پہچانا ہی نہیں، اگر تو اسے پہچان لیتا تو اس کے غیر کے سامنے اس کی شکایت نہ کرتا ، اگر سمجھ سے کام لیتا تو اس کے سامنے زبان نہ کھولتا، اس سے کچھ نہ مانگتا، اپنی دعا میں اس کے سامنے عاجزی نہ کرتا بلکہ اس کے موافق ہوتا اور اس کے ساتھ صبر کرتا ، عقل سے کام لے، تجھے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے ۔ اس کا کوئی فعل مصلحت سے خالی نہیں ، وہ تجھے آزماتا ہے تا کہ تیرے عمل دیکھے ، وہ تجھے پرکھتا ہے کہ۔
کیا تو اس کے وعدے پر قائم ہے یانہیں، کیا تو جانتا ہے کہ وہ تیری طرف دیکھنے والا اور تجھے جاننے والا ہے۔
کیاتجھے نہیں معلوم کہ جب کوئی خدمت گار شاہی محل میں کام کر رہا ہو، اور مزدوری مانگ لے تو اسے اس کی حماقت اور ہوس سمجھا جاتا ہے، اسے فورا محل سے نکال دیا جا تا ہے ۔ اور اسے کہا جائے گا کہ کیا یہ جگہ تقاضا کرنے کی تھی! جس شخص کے دل میں حرص وطمع اور مخلوق سے خوف اور امید ہوتو اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا، یہ بات ہمیشہ فکر کرنے اور اصول وفروع – میں غور وخوض کر نے اور نبیوں اور صالحین کے احوال میں توجہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے، کہ اللہ تعالی نے ان کو کس طرح دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا ، اور ان پر فتح نصیب فرمائی ، اور سارے کاموں میں کشائش اور کشادگی عطا فرمائی، غور وفکرصحیح ہوتو توکل صحیح ہوتا ہے اور دل سے دنیاغائب ہو جاتی ہے، اور جن اور انسان اور فرشتے اور ساری مخلوق بھول جاتی ہے، اور صرف اللہ کی یاد میں لگا رہتا ہے ۔ ایسے دل والے کا یہ حال ہو جا تا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق نہیں ہے ۔ کسی پر اس کے امر نہیں اور نہ کسی پرنہی ہے، اوروں کی بجاۓ اس پر انعام ہوا ہے، گویا کہ ہر طرح کی تکلیفیں اس کے دل اورباطن کی گردن پر ہیں ، وہ تکلیفوں کو مختلف جنس کے پہاڑ سمجھتا ہے جو کہ بھیجنے والے کی طرف سے ایک طرح کا پیغام ہیں ، اپنی بندگی اور فرماں برداری ثابت کرانے کی خاطر یہ سب تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔ یہ بندہ خلق کا حامل بن جا تا ہے اور خالق اس کا حامل ہو جا تا ہے، مخلوق کا طبیب ہو جا تا ہے اور خالق اس کا طبیب بن جا تا ہے۔مخلوق کے لئے اللہ کی طرف پہنچانے کا دروازہ اور خالق ومخلوق کے درمیان سفیر ہو جا تا ہے۔ مخلوق کے لئے آفتاب کی طرح ہے اور یہ خالق تک پہنچنے کے لئے اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں،مخلوق کا کھانا پینا بن جا تا ہے ، ان سے کسی لمحے غائب نہیں ہوتا ۔ اس کی ہر سوچ مخلوق کی مصلحتوں کے لئے ہوتی ہے، وہ اپنے نفس کو بھلا دیتا ہے ۔ اس کا پھر یہ حال ہو جا تا ہے کہ گویا اس کے لئے نفس وعادت وخواہش کچھ نہیں ہے ۔ اسے اپنا کھانا اور پینا اور پہننا سب کچھ بھول جاتا ہے، یہ اپنے نفس کو بھول کر خدا کی یاد کرنے والا رہ جاتا ہے ۔ دلی طور پر اپنے نفس اور ساری مخلوق سے کٹ کر صرف اپنے رب کے ساتھ باقی رہ
جاتا ہے۔ جو شخص مخلوق کے لئے نفع چاہے گا،اپنے نفس کو قضاۓ الہی کے سپرد کر دے گا، اور اپنی ذات سے بالکل ایک طرف و کنارے ہو جاۓ گا، جو خلقت کواللہ کے دروازے کی طرف کھینچنا چاہے تو اس میں یہ ساری صفات ہونالازم ہیں۔
زہد کا دعوی کرنے کے باوجود سراپارغبت ہے:
تو تو ہوس کا بندہ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولوں اور ولیوں اور اس کے خاص بندوں سے بے خبر ہے ، زہد کا دعوی کرنے کے باوجود سرا پا رغبت بن گیا ہے، تیرے زہد کے پاؤں نہیں ہیں ،رب کی بجائے تیری ساری رغبت دنیا اور مخلوق کی طرف ہے تو میرے سامنے اچھے گمان کے ساتھ اچھے گمان کے قدموں پر کھڑا ہونا ضروری سمجھ ، تا کہ میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں اورتجھے اس کا راستہ بتا دوں ، اپنے بدن سے تکبر اور غرور کا لباس اتار دے اور عاجزی کا لباس پہن لے ، ذلالت اٹھا تا کہ عزت پاۓ ، تواضع کرتا کہ بلند کیا جائے ، تو جس چیز کے اندر ہے، اور جس چیز کے اوپر ہے، یہ سب حرص ہے طمع ہے، اللہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، یہ حال محض بدنی اعمال سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ دل کے اعمال کے ساتھ بدنی اعمال سے آتا ہے۔ رسول اکرم ﷺفرمایا کرتے تھےز ہداس جگہ ہے، تقوی اس جگہ ہے، اخلاص اس جگہ ہے اور پھر اپنے سینہ اطہر کی طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے ۔
فلاح ونجات چاہئے تو مشائخ کے قدموں کی خاک بن جا:
جسے فلاح ونجات چاہئیے تو وہ ایسے مشائخ کرام کے قدموں کی خاک بن جائے :۔
جنہوں نے دنیا اومخلوق کو چھوڑ دیا ہو، دنیا اور مخلوق کو رخصت کر دیا ہو ، عرش سے فرش تک ہر شے کو ایسا رخصت کر دیں کہ پھران کی طرف لوٹ کر نہ آئیں، مخلوق کے ساتھ ساتھ نفسوں سے بھی منہ موڑ لیا ہو، ہر حال میں ان کا وجوداللہ ہی کے ساتھ ہو۔
جو شخص اپنے نفس کے وجود کے ساتھ اللہ کی محبت چاہتا ہے، وہ حرص اور جنون میں مبتلا ہے ۔
اکثر زاہد دعابد بننے والے خلق کے بندے اور انہیں اللہ کا شریک ٹھہرانے والے ہیں ، اسباب پر بھروسہ چھوڑ دو، نہ انہیں اللہ کا شریک ٹھہراؤ، نہ ان پر اعتماد کرو ، ایسا کرنے سے اللہ تعالی جو مسبب الاسباب ہے اور اسباب کا پیدا کرنے والا اور ان میں تصرف کرنے والا ہےسخت ناراض ہوگا ، جوقرآن وسنت کی پیروی کرنے والے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ
تلوارازخودنہیں کاٹتی بلکہ تلوار کے ذریعے اللہ کا ٹتا ہے۔ اور آگ اپنی فطرت کے باعث کسی کو نہیں جلاتی بلکہ آگ کے ذریعے اللہ ہی جلانے والا ہے۔ کھانا از خود کسی کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ اس کے ذریعے اللہ ہی پیٹ بھرتا ہے ۔ پانی اپنی فطرت سے کسی کو سیراب نہیں کرتا ، بلکہ اس کے ذریعے اللہ ہی سیراب کرتا ہے ، اسی طرح سے کسی بھی جنس کے ساتھ کیسا ہی سبب کیوں نہ ہو، اللہ ہی ان میں اور ان کے ساتھ تصرف کرتا ہے ۔ یہی سبب اس کے لئے ایک آلہ اور ذریعہ ہیں جن کے ساتھ وہ جس طرح چاہے کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں ہر کام کر نیوالا وہی ہے ۔ تو پھر ہر کام میں اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ، اور اپنی ضرورتوں کو اس کے لئے کیوں نہیں چھوڑ دیتے ، اور اپنے سب احوال میں اس کی توحید کو کیوں نہیں لازم کرتے ، اسے تنہا و یکتا سمجھو، اس کا معاملہ ظاہر ہے کسی بھی سمجھ دار سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ۔ غلام کولکڑی سے مارا جا تا ہے اور بندہ آزاد کے لئے اشارہ ہی کافی ہے تم اللہ کی فرماں برداری کرو، کیونکہ وہ فرماں بردار کوعزت دیتا ہے، اس کی نافرمانی نہ کرو، کیونکہ وہ نافرمان کو ذلیل کرتا ہے،مد د کرنا محروم رکھنا اور رسوا کرنا اس کے اختیار میں ہے: – جسے چاہتا ہے مددکر کے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے محروم رکھ کر ذلت دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے علم دے کر عزت دیتا ہے، ۔۔ جسے چاہتا ہے جاہل رکھ کر ذلت دیتا ہے۔ .جسے چاہتا ہے اپنے قرب سے عزت دیتا ہے – جسے چاہتا ہے اپنے سے دور رکھ کر ذلت دیتا ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 448،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 227 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان